ہوم << ڈمیاں، کارٹونی استہزا اور اسلامی اخلاقیات - ڈاکٹر محمد شہباز منج

ڈمیاں، کارٹونی استہزا اور اسلامی اخلاقیات - ڈاکٹر محمد شہباز منج

Exif_JPEG_420 ہمارے میڈیا میں ڈمیوں، دوسروں کی مضحکہ نقلوں اور توہین آمیز کارٹونوں میں جس طرح مختلف طبقوں کے نمایاں افراد کی تضحیک کی جاتی ہے، راقم شروع سے اسے ایک انتہائی افسوس ناک اور شرمناک فعل سمجھتا ہے۔ شخصیت پسند ہو یہ ناپسند، میں نے الحمدللہ اس طرح کے استہزائی کارٹونوں اور ڈمیوں وغیرہ کو کبھی لائک یا شیئر کرنا گوارا نہیں کیا؛ طبیعت اس سے سخت منقبض ہوتی ہے۔ ناظرین میری وال ملاحظہ کر سکتے ہیں، بفضلہ تعالیٰ ان کو کوئی ایک پوسٹ بھی اس طرح کی نہ ملے گی۔ یہ کوئی کمال یا خود ستائی والی بات نہیں، ایک عام مسلمان کے عام ملحوظ رکھنے کی چیز ہے۔ یہ کسی کا مذاق نہ اڑانے اور دوسرے کی دل آزاری سے بچنے کے بارے میں بنیادی اسلامی اخلاقیات میں سے ہے۔ عام معزز افرادِ معاشرہ تو ایک طرف اسلام نے ان لوگوں کی دل آزاری سے بھی منع کیا ہے، جو آپ کی خیرات اور احسان کے زیرِ بار ہوں، صرف منع نہیں کیا بلکہ وہ اسے نیکی کرنے والے کی نیکی و احسان کا ضیاع بتا تا ہے:
[pullquote] يَا أيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْاذَىٰ (البقرہ2: 264 )[/pullquote] ”اے ایمان والو! احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقات کو ضائع مت کرو۔“
قرآن کے نزدیک ایسے صدقے خیرات سے، جس پر دوسرے کی دل آزاری ہو، اچھا بول اور چشم پوشی بدرجہا بہتر ہے:
[pullquote] قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَۃ خَيْرٌ مِّن صَدَقَۃ يَتْبَعُھا أذًى (البقرہ2: 263 )[/pullquote] ”اچھا بول بول دینا اور چشم پوشی کر لینا ، اس صدقے سے بہتر جس پر دل آزار ی ہو۔“
مذاق کرنے والا ظاہر ہے کہ جس کو نشانۂ تضحیک بنا رہا ہوتا ہے، اسے کم تر اور حقیر سمجھ سمجھا رہا ہوتا ہے۔ لیکن انسانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ فی الواقع کم تر اور حقیر کون ہے، لہذا انھیں اس سے اجتناب ہی زیبا ہے۔ اسی لیے قرآن نے اس سے سختی سے منع کیا؛ ایسےفعل کے مرتکبین کو توبہ کی تعلیم دی، اور اس سےگریز کو ظلم باور کرایا:
[pullquote]يَا أيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْھمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْھنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْالْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْايمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَاولَٰئِكَ ھمُ الظَّالِمُونَ (الحجرات 11:49)[/pullquote] ”اے ایمان والو! نہ مرد ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے، وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے پر عیب نہ لگاؤ اورنہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو، ایمان کے بعد فاسق نام بہت برا ہے، اور جو باز نہ آئیں ، وہی ظالم ہیں۔“
بعض لوگ تنقید اور تضحیک کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ وہ تحقیر و تضحیک پر تنقید کو حق تنقید سلب کرنے کے مترادف باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ تنقید اور تضحیک ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ تنقید کا مقصد زیرِ تنقید شخص یا سوسائٹی کی اصلاح و بہتری اور تعمیر ہوتا ہے، جبکہ تضحیک ( جو بظاہر تنقید و اصلاح کے نام پر ہوتی ہے) کا مقصد دوسرے کو محض ذلیل و کم تر باور کرانا ہوتا ہے۔ اسلام تعمیر و ترقی اور اصلاح و بہتری کے لیے تنقید کو روا رکھتا جبکہ تضحیک کوتخریب ہونے کی بنا پر ناپسند کرتا ہے۔
جہاں تک خوش مزاجی اور مزاح کا تعلق ہے، مذہب میں اس کا بھی پورا پورا لحاظ موجود ہے، اور سچ یہ ہے کہ تضحیک و تحقیر کے ذریعے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے یا اسے روا سمجھنے والے، خوش مزاجی اور مزاح کے صحیح تصور ہی سے نابلد ہیں، مزاح ہوتا ہی لطافت پر مبنی ہے، اس میں جس کے حوالے سے مزاح پیدا کیا جائے وہ بھی اسے اپنی توہین و تذلیل سمجھنے کے بجائے اس سے محظوظ ہوتا ہے۔ کاش ہمارے مزاح کے شوقین ، مزاح اور پھکڑ پن میں فرق سمجھنے کے قابل ہو جائیں۔
حامد میر نے زیرِ بحث نوعیت کے ایک پروگرام میں مولانا فضل الرحمن کی تضحیک پر ذمے داروں کی کلاس لی تو ہمارے متعدد اہلِ قلم احباب نے تحقیر و تضحیک کے اس کاروبار پر متعلقہ لوگوں کو عار دلائی اور اس نامسعود روش کو ترک کرنے پر متوجہ کیا ہے۔ احباب کا یہ قلمی جہاد یقیناً قابلِ تحسین ہے، لیکن مجھے عرض یہ کرنا ہے کہ اسے صرف چند لوگوں، یا اپنے پسندیدہ لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کے دفاع تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، اس بات کی مذمت ہر آدمی کے حوالے سے ہونی چاہیے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس روش کو نشانۂ تنقید بنانے والے خود اسی نوع کی تضحیک و تحقیر پر مبنی پوسٹیں لکھتے اور شیئر کرتے رہتے ہیں، فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے ناپسندیدہ مذہبی یا سیاسی رہنماؤں کے بارے میں ہو تی ہیں۔ کیا دل آزاری کا معاملہ آپ کی ناپسندیدہ شخصیات کے حوالے سے کوئی معنی نہیں رکھتا!
اہل ِعلم کو چاہیے کہ مین سٹریم اور سوشل میڈیا دونوں پر اس کے خلاف بلاامتیاز عقیدہ و مسلک اور نظریۂ سیاست آواز بلند کریں۔ یہ نہ ہو کہ اپنے ناپسندیدہ لیڈروں کے بارے میں تو آپ کو تضحیک و تحقیر کی ہر شکل حلال اور ”جائز تنقید“ لگے اور آپ اسے شیئر کر کر کے داد و تحسین کے خواہاں ہوں، اور اپنے پسندیدہ لیڈروں کے بارے میں آپ کو لایسخر کا سبق یاد آئے۔ [pullquote]وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا ھوَ أقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ۔ [/pullquote]

Comments

Click here to post a comment