جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے اجتماع عام کا دوسرا اور آخری دن ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے عوام کاسمندر اضاخیل میں امڈ آیا ہے۔ کیا خوبصورت سٹیج ہے، نظریں سٹیج سے ہٹنے کا نام نہیں لیتیں۔ سٹیج پر بیٹھے قائدین کی سنجیدگی و متانت دیدنی ہے۔ مختصر وقت میں اپنی پوری بات کہنے کا فن تو کوئی ان سے سیکھے۔ اسلام، پاکستان، نظریہ پاکستان کی محبت میں گندھے ہوئے الفاظ سامعین کے دل و دماغ کو تازگی بخش رہے ہیں۔ کارکنان، عوام جو بھی اس میدان میں موجود ہیں، اس قدر نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ گویا تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں۔ نماز کے لیے چند منٹوں میں صف بندی ہوتی ہے۔ رکوع و سجود ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔ اسی لیے تو دور بیٹھے افراد کا دل بھی اضاخیل میں اٹکا ہوا ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ
’’میں تو جاپان میں ہوں لیکن میرا دل ہے اضاخیل میں‘‘
کوئی کہتا ہے کہ
’’میں بہاولپور، میرا دل اضاخیل پارک‘‘
اور کوئی کہتا ہے کہ
’’دل میرا اضاخیل اور دماغ میرا پیپروں میں گھوما ہوا۔‘‘
اس طرح کی بے شمار پوسٹیں فیس بک پر دیکھنے کو ملیں۔
دوسری طرف اضاخیل کی مٹی نے بہت سے لوگوں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ الیکٹرانک میڈیا نے دس سال محنت کی بلیک آؤٹ کرنے کی اور دنیا کو یہ بتانے کی کہ پاک سرزمین پر لاالہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرنے والوں کی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دب گئی ہے۔ اب وہ سمٹ کر مٹھی بھر رہ گئے ہیں لیکن اضاخیل نے توسب کو حیران کر دیا۔ سب کے کان کھڑے ہو گئے۔
اس کے باوجود الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکی بےحسی برقرار رہی۔ چائے والے کے حسن و خوبصورتی کا گھنٹوں چرچا کرنے والے، ادا کاراؤں کی ہیل کو موضوع بحث بنانے والے، کئی گھنٹے چند ہزار کے مجمع کی نظر کرنے والے میڈیا نے چند منٹ سے زیادہ اس عوام کے جم غفیر کو کوریج دینا گوارا نہ کیا۔ تاہم سوشل میڈیا کے مجاہدین نے پل پل کی خبر دنیا تک پہنچا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی لیے دنیا کے کونے کونے میں اس اجتماع عام کی بازگشت سنی گئی۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر بھی اسلام کے نام لیواؤں سے خار کھانے والے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے۔ ان کو اجتماع عام کی ہر اچھی چیز بری دکھائی دے رہی تھی۔
ایک صاحب نے تو نماز کی تصویروں کو بھی نہ بخشا اور اپنی فیس بک وال پر اضاخیل پارک میں رکوع کی حالت میں باجماعت نماز پڑھنے والوں کی تصویر لگا کر یہ پوسٹ ڈالی کہ:
’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
سراج الحق صاحب کو پانامہ لیکس پر عمران خان کی احتجاجی تحریک سے لاتعلق رہنے کی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے، یا پھر کھل کر فضل الرحمان صاحب کی طرح نوازشریف حکومت کا ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ ان کی موجودہ پالیسی ان کے اپنے وقار کو بھی مجروح کر رہی ہے اور جماعت اسلامی کے پبلک امیج کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا: صاحب! آپ کو جماعت کی پالیسیوں پر بات کرنے کا پورا حق ہے لیکن رکوع کی تصویر لگا کر یہ مصرعہ لکھنا تو بہت زیادتی ہے۔ اس مصرعے میں سجدے اور قیام کا ذکر مجازی معنوں میں آیا ہے، حقیقی معنوں میں نہیں۔ اس لیے نماز کی باجماعت تصویر آپ کو نہیں لگانی چاہیے تھی۔ ہر پارٹی اپنے فیصلوں میں آزاد ہے... کرپشن، چاہے مالی ہو یا اخلاقی، جماعت نے ہمیشہ اس کے خلاف بھر پور موقف اپنایا ہے۔ جماعت اس ملک کی سب سے زیادہ تجربہ کار جماعت ہے۔ تجربات سے ہی جماعت نے سیکھا ہے کہ جمہوری و سیاسی عمل تسلسل سے جاری رہنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کوایسی کوئی سرگرمی نہیں کرنی چاہیے جو ملک کو غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھوں میں دھکیل دے۔ تو انھوں نے یہ دلیل دی کہ:
’’ جماعت کے لوگوں نے رکوع کی تصویر کو نیٹ پر ڈالا ہے، نماز لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے، اس کو سیاسی تشہیر کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے میں نے یہ تصویر استعمال کی ہے۔‘‘
عرض کیا: پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ اس نعرے کے ساتھ حاصل کیے گئے مسلمانوں کے ملک میں نماز ہی کی تشہیر ہونی چاہیے نا کہ ناچ گانے کی۔ بھائی نماز ذاتی نہیں، اجتماعی معاملہ ہے۔ ذاتی کیسے ہو گیا جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں سے نکل کر مسجد میں پہنچ کر باجماعت نماز کی بہت زیادہ تاکید کی ہے بلکہ عید کی نماز کے لیے ہر فرد سے کہا گیا کہ گھر سے نکل کر ایک راستے سے اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ اللہ واللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے عید گاہ نماز پڑھنے آؤ اور عید نماز پڑھنے کے بعد دوسرے راستے سے بآواز بلند یہی نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔
چلیں پھر بھی جماعت والوں کو اگر یہ تصویر نہیں بھی لگانی چاہیے تھی تب بھی آپ نے جس مقصد کے لیے رکوع کی تصویر کو استعمال کیا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟
(طارق محمود ہفت روزہ ایشا کے مدیر ہیں)
تبصرہ لکھیے