چاند ماری کے لیے اگر چہ اس خاتون میزبان کو چن لیا گیا ہے جسے کراچی نادرا آفس کے باہر ایک ناگوار رویے کے نتیجے میں ایک ناگوار رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، تاہم حقیقت یہ ہے کہ سماج میں اس وقت محض کوئی ایک اینکر نہیں بلکہ میڈیا کا اجتماعی اخلاقی وجود زیر بحث ہے۔یہ فیصلہ اب اہلِ صحافت کو کرنا ہے کہ وہ تمام تیرگی کسی ایک اینکر کے نامہِ اعمال میں لکھ کر سرخرو ہو جاتے ہیں یا ان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے اجتماعی اخلاقی وجود پر توجہ دے سکیں۔
لمحۂ موجود کی صحافت، سطحیت سے ہم آغوش، مطالعے سے بیزار، خبر کے نام پر خواہشات کا دیوان، زبان و بیان کے اسالیب سے نا آشنا، بریکنگ نیوز کا طوفانِ بد تمیزی، ریٹنگ کی خاطرمعقولیت کا ابطال، کس کس کا رونا روئیں؟ اب میر انیس ہی آئیں تو کوئی مرثیہ ہو۔
آپ نمایاں کالم نگاروں کی ایک فہرست بنا لیں اور خود فیصلہ کر لیں کیا کہیں کوئی معروضیت باقی رہ گئی ہے۔ کوئی نواز شریف کا حدی خواں ہے تو کوئی عمران کا قصیدہ گو۔بعض احباب کالم نہیں سیاسی آقاؤں کی پریس ریلیزیں لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ خبطِ عظمت کا یہ عالم ہے کہ بیرونِ ملک مشاعروں پہ جائیں تو واپس آکر پورا احوال لکھتے ہیں کہ کس کس نے کب کب ہماری کیسے کیسے میزبانی کی۔گویا قوم ان نابغوں کے شب و روز نہ جان پائے تو سعادت سے محروم رہ جائے۔ کچھ وہ ہیں جو اردو کالم میں صدر اوبامہ کو مشورے دیتے ہیں۔ معلوم نہیں انہیں کس نے بتایا ہے کہ اوبامہ کی صبح ان کا کالم پڑھ کر ہوتی ہے؟ جس کے پاس ابھی اپنا پاسپورٹ نہیں وہ امورِخارجہ کا ماہر بنا پھرتا ہے، جس نے ساری زندگی کبھی کرکٹ کا بلا نہیں پکڑا وہ مصباح کو بتانا چاہتا ہے کہ اس کی پلاننگ کیا ہونی چاہیے۔ جسے پاکستان کے حدود اربعہ کا علم نہیں وہ خطے کی تزویراتی صورتحال پر صفحے سیاہ کرتا جا رہا ہے۔ بریکنگ نیوز کا ایک طوفان بدتمیزی ہے۔گدھا گاڑی کی بیل گاڑی سے ٹکر ہو جائے تو نہ صرف یہ بریکنگ نیوز بنتی ہے بلکہ پھولی سانسوں کے ہنگام کوئی صاحب ’کسی کیمرہ مین کے ساتھ‘ آپ کو گدھے اور بیل کے آباؤ اجداد کی رقابت کی کہانی بھی سنا دے گا۔ یہی نہیں اگلے چار روز اس پر ڈفلی بھی بجائی جائے گی کہ یہ خبر سب سے پہلے ہم نے بریک کی۔ سوال یہ ہے کیا صحافت اس چاند ماری کا نام ہے؟
سماج صرف سیاست کا نام نہیں۔ سماج کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ مگر صحافت کو سیاست لاحق ہو چکی ہے۔ اخبار کا صفحہِ اول ہو یا ادارتی صفحہ آپ کو سیاست ہی ملے گی۔ فلاں نے یہ فرما دیا اور فلاں رہنما نے یہ فرما دیا۔ تعلیم، صحت،صفائی جیسے مسائل تو گویا تر جیح ہی نہیں۔ جبکہ آپ امریکہ، برطانیہ کے اخبارات دیکھیں سیاست کو وہاں اتنی ہی جگہ ملتی ہے جتنی دیگر ایشوز کو۔ قوم کی اگر تربیت نہیں ہو سکی اور تہذیب نفس کی کمی ہے تو اس کی ذمہ دار یہ صحافتی روش بھی ہے۔
مکالمے کا کلچر ہماری تہذیبی روایات میں سے ایک ہے۔ آج ہمارے ٹاک شوز اس روایت کو چاٹ رہے ہیں۔ ہم اپنی نئی نسل کو بتا رہے ہیں کہ گفتگو کے آداب تو محض تکلفات ہیں۔ بات تو لڑ کر کرنی چاہیے جیسے ہمارے سیاست دان کرتے ہیں۔ زیادہ بہتر ہے منہ سے تھوڑا جھاگ بھی نکل آئے۔ ریٹنگ کے چکر میں اینکرز نے بھی ،الا ماشاء اللہ، سنجیدہ اسلوب گفتگو ترک کر دیا ہے۔ کامیاب شو اب وہ نہیں جس میں ڈھنگ کی کوئی بات ہو۔ کامیاب شو وہ ہے جو مجمع لگا سکے۔ چنانچہ جو اچھی ڈگڈگی بجا لے وہی کامیاب۔
ذمہ داری کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے۔ نرسوں نے لاہور میں اپنے مطالبات کے لیے جلوس نکالا تو ایک چینل نے اس کی فوٹیج پر گانا چلا دیا ’’جی ٹی روڈ تے بریکاں لگیاں نی بلو تیری ٹور ویکھ کے۔‘‘ معلوم نہیں ایسے لوگوں کو ماں کی آغوش میں کبھی تربیت لینے کا موقع ملا یا یہ کسی ورکشاپ پر تیار ہوئے؟
ایک اور منظر بھی دل پر نقش سا ہو گیا ہے۔ ایک گھر میں لاش پڑی ہے۔ کسی ماں کے معصوم بچے کو عصمت دری کے بعد قتل کر دیا گیا ہے۔ ایک چینل کا رپورٹر وہاں موجود ہے۔ اس کو سٹوڈیو میں بیٹھی اینکر کہتی ہے کیا آپ ہماری مقتول کی ماں سے بات کروا سکتے ہیں۔ وہ مجہول شخص مائیک اس خاتون کے آگے کر کے پوچھتا ہے آپ کیا محسوس کر رہی ہیں؟۔ کاش کوئی شخص جوتا اتار لیتا۔ شاید احساسات کی کچھ ترجمانی ہو جاتی۔
ایسا ہی ایک اور منظر۔ سیلاب کے دنوں میں میک اپ سے لدی ایک اینکر ایک آدمی کو روکتی ہے۔ اس آدمی کے ایک ہاتھ میں بیٹا اور دوسرے میں معصوم سی بچی ہے۔ وہ شخص پانی سے نکل کر ابھی ابھی خشک جگہ پر آیا ہے۔ محترمہ مائیک اس کے سامنے کر کے پوچھتی ہیں’’آج 14 اگست ہے، کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنائیں گے۔‘‘ وہ آدمی بےبسی سے کہتا ہے ’میرے بچے بھوکے ہیں کچھ کھانے کو ملے گا‘۔ بد ذوقی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کاش اس آدمی کے پاؤں میں بھی ایک جوتا ہوتا۔
میڈیا کو خود احتسابی کی آج شدید ضرورت ہے۔ زیادہ بہتر ہوگا معاشرے کے بجائے یہ احتساب ہم خود کر لیں۔ ورنہ یہ جاننے کے لیے تو کسی بریکنگ نیوز کی ضرورت نہیں کہ ہر آدمی کے پاؤں میں دو جوتے ہوتے ہیں۔
یاد رکھیے غلط یا صحیح کی بحث سے قطع نظر یہ چماٹ آخری چماٹ نہیں ہے۔ حرکتیں ٹھیک کیجیے ورنہ تیار رہیے ایسی چماٹوں کے لیے۔
تبصرہ لکھیے