مشترکہ خاندانی نظام اسلامی ہے یا غیر اسلامی اس حوالے سے دلیل پر بحث ہو رہی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام زندگی کو اگر اسلام نے کہیں منع نہیں کیا تو اس کوکہیں لازمی بھی نہیں ٹھہرایا۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خاندانی نظام سرے سے مشترکہ ہے ہی نہیں۔ ہم جس خاندانی نظام میں رہتے ہیں یہ خوب سے خوب تر ہو سکتا ہے،کیونکہ ہم اپنوں سے پیار کرتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں ،اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرتے ہیں، لیکن ان وجوہات کی بنا پر ہم اسے مشترکہ خاندانی نظام نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی یہ کسی طرح مشترکہ خاندانی نظام کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کی اپنی ایک تعریف ہے۔مشترکہ خاندانی نظام ایک کمپنی کی مثل ہوتا ہے اور گھر کا ہر فرد اس میں برابر کا حصے دار ہوتا ہے۔ہر فرد کی کمائی ایک ہی اکاونٹ میں جاتی ہے اور سب کو برابر کا حصہ ملتا ہے۔ آمدنی چاہے کسی کی کم ہو یا زیادہ لیکن حصہ برابرہوتا ہے ۔ گھر کا کوئی فرد اگر اپنی خفیہ ذاتی جائیداد بنا بھی لے تو ظاہر ہونے پر گھر کے ہر فرد کا اس میں برابر کا حصہ ہوتا ہے اور ذاتی جائیداد بنانے والے کو بد نیت سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے نظام میں اور نہ ہی اسلام میں ایسی کوئی شرط ہے۔ اگر گھر کا کوئی فرد اپنی آمدنی سے کوئی جائیداد بناتا ہے تو وہ اس کا بلا غیرے شرکت مالک ہے۔ اس جائیداد میں اور کسی کا حصہ نہیں ہوتا۔اگر کوئی بھائی چھوٹا ہویا بڑا جس کی مالی حالت اچھی ہو وہ اپنے باقی بےروزگار یا غریب بھائیوں کی یا کسی اور رشتہ دار کی مدد کرتا ہے تو یہ اس کے لئے باعث رحمت اور بڑی نیکی کا کام تو ہو سکتا ہے لیکن اس پر لازمی نہیں ہے کہ وہ ایسا کرےاور نہ ہی کوئی غریب بھائی اپنے امیر بھائی سے بطور اپنے کےحق کے اس کی ذاتی آمدنی سے کسی چیز کا تقاضا کر سکتا ہے۔
اگر دادا زندہ ہو اور بیٹا پہلے فوت ہو جائے تو فوت ہونے والے بیٹے کی اولاد اپنے دادا کی جائیداد کی وارث نہیں ہوتی۔پاکستان میں رائج قانون مختلف ہے جس میں فوت ہونے والے کی اولاد کو بھی وارث شامل کیا گیا ہے لیکن اسے وفاقی شرعی عدالت غیر اسلامی قرار دے چکی ہے اور اب یہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
ان وجوہات کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام ہمدردی کا تو ہو سکتا ہے لیکن مشترکہ نہیں ہو سکتا ہے۔
آج سے دس سال پہلےجب ایک دن جمہوریت پر بات ہو رہی تھی تو میرے ایک استاد نے کہا تھاکہ اس ملک میں اس وقت تک جمہوریت ایک خواب ہی رہے گا جب تک ہم ذہنی طور پر اس برائے نام خاندانی نظام سے آزاد نہیں ہوتے۔اس نظام نے ہمارے ذہنوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ہم اپنے بچوں کو ان کے آزاد ذہن سے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔ہم چھوٹوں کے اختلاف کو گستاخی سمجھتے ہیں۔ میں نے اس وقت اپنے استاد کی ان باتوں سے اتفاق نہیں کیا۔ لیکن دس سال بعد جب مجھے ایک دوست نے اپنے چھوٹے بھائی کا قصہ سنایا کہ کس طرح وہ الیکشن میں اپنے گھر والوں سےاختلاف کر کے کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دے رہا تھا لیکن ووٹ دینے کے لئے جاتے ہوئے راستے میں کس طرح اس کا ذہن تبدیل ہوا تو مجھے اپنے استاد کی بات یاد آئی اور اسی دن میں نے ان کی بات سےاتفاق بھی کر لیا۔
تبصرہ لکھیے