ہوم << جو کام عمران خان کا دھرنا نہ کر سکا - ایاز امیر

جو کام عمران خان کا دھرنا نہ کر سکا - ایاز امیر

ایاز امیر بہت شکریہ، سرل المیڈا
آپ نے اور میرے دوست، ظفر عباس نے وہ کچھ کر دکھایا جو دھرنے بھی نہ کرسکے ۔ جس جمہوریت کی عظمت کے ہم رطب الساں رہتے ہیں، کو ایسی ضرب لگی کہ اسے سنبھلنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔ اس کہانی کے پیچھے مخفی زبان خصوصی انعام کی حقدار ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ آخر کار جمہوریت سنبھل جائے لیکن ہماری جمہوریت کے چیمپئن، شریف برادران نہیں سنبھل پائیں گے ۔ ذرا سوچیں کہ جس چیز سے شیخ رشید کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگے، وہ شریف برادران کے لئے کیسے اچھی ہوسکتی ہے ؟آپ کی کہانی کی اشاعت کے بعد سے شیخ صاحب کے صحت مند لبوں پر جاندار مسکراہٹ کا سفر جاری ہے ۔ موجودہ حکمران محاورے کے مطابق ’’بم کو لات مارنے‘‘ کا شغف رکھتے ہیں، لیکن وائے قسمت، کافی عرصہ سے کوئی ’’بم ‘‘ دکھائی نہیں دے رہاتھا، ٹانگ میں کھجلی سی ہونے لگی تھی، مایوسی بڑھتی جارہی تھی ۔ لیکن پھر اچانک یہ کہانی ایک بم کی طرح نمودار ہوئی تو وہ اپنی طبیعت پر کیسے جبر کرسکتے تھے ؟چونکہ دیر بعد موقع ہاتھ آیا تھا ، اس لئے شریف برادران اور ان کی بقراطی ٹیم نے اسے ایسی جما کر لات ماری کہ تمام سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔
صورت ِحال پہلے سے ہی خراب تھی،حالات دھماکہ خیز ہوتے جارہے تھے ، عمران خان دارالحکومت کی طرف مارچ کرکے اسے بند کرنے کی دھمکی دے رہے تھے۔سپریم کورٹ میں پاناما گیٹ پر دی جانے والی درخواستوں کی سماعت بھی شروع ہواچاہتی ہے ، تاہم قانونی موشگافیاں اکثر اوقات دھماکہ خیز رجائیت کا ساتھ نہیں دیتیں۔ اس تمام ماحول میں آگ بھڑکانے کے لئے ایک چنگاری درکار تھی، جو اس کہانی نے فراہم کردی۔ اس نے جنرل اسٹاف کو انڈیا کی طرف سے درپیش خطرے سے بھی زیادہ برہم کردیا۔ کہانی کی ٹائمنگ ، خاص طور پر جب انڈیا سرحد پار دہشت گردی کی دہائی دے رہا تھا، بھی بہت اہم ہے ۔ پہلے تو سیکرٹری خارجہ کی طرف سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا ذکر، جس کی وجہ ’جہادی پالیسیاں ‘ ہیں، اور پھر جہادی عناصر کی پشت پناہی کی وجہ سے آئی ایس آئی چیف پر تنقید ۔ حیرت ہوتی اگر یہ صورت ِحال اسٹیبلشمنٹ کومشتعل نہ کردیتی۔
سیکرٹری خارجہ تو اپنے آپ کو فارغ سمجھیں۔ اگر وہ کسی واشنگٹن پوسٹنگ کی امید لگائے ہوئے تھے ، تو اُسے بھول جائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ قربانی کے اور بکرے بھی ہوں، لیکن فوجی قیادت کچھ اور بھی چاہے گی۔ کیا؟یہ تو ہم فی الحال نہیں جانتے ۔ اس پر دوآراء ہوسکتی ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا۔ کچھ ایسے دائمی شکرے بھی ہیں جو ہمیشہ امید سے رہتے ہیں کہ فوج کچھ کر گزرے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے ۔ کچھ دوسرے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ موجودہ عالمی ماحول میں، اور جب کہ جنرل راحیل شریف کی مدت تمام ہوا چاہتی ہے، کسی قسم کی براہ ِراست مداخلت خارج ازامکان ہے ۔ ٹرپل ون بریگیڈ کی پیش قدمی سے زیادہ پاکستانی تنگ آچکے ہیں۔ حاصل ہونے والے طویل تجربات کے بعد اس پر کم و بیش قومی اتفاق ِ رائے ہوچکا کہ فوج کے اقتدار سنبھالنے سے حالات مزید خراب ہوجاتے ہیں۔
تاہم اس وقت فوج کا برہم ہونا ہی واحد پیش رفت نہیں ، کچھ اور ہلچل بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ شریف فیملی کے سمندر پار اکائونٹس اور جائیداد کے بارے میں پاناما اسکینڈ ل اپنی جگہ پر موجود ہے ، اور اس کا کریڈٹ عمران خان کے استقلال کو جاتا ہے ۔ اُنھوں نے دور افتادہ دیہات میں بھی اس لفظ کو زبان ِ زدخاص وعام کردیا ۔ یہ اسکینڈل اُنہیں اسلام آباد مارچ کا جواز فراہم کررہا ہے ۔ خطرناک بات یہ ہے کہ موجودہ لانگ مارچ پرامن ماحول میں نہیں ہونے جارہا ، اس وقت حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان ڈان کی کہانی کی وجہ سے تنائو کا تاثر موجود ہے ۔ یہ عمران خان کی پلاننگ نہ تھی، حتیٰ کہ شیخ رشید کے فرشتے بھی خواب نہیں دیکھ سکتے تھے کہ ایسی نعمت ِ غیر مترقبہ ہاتھ لگ جائے گی۔ لیکن اب چونکہ ایسا ہوچکا، اس لئے اسلام آباد مارچ کی دھار تیز تر ہوتی جارہی ہے ، اور حکومت کو کسی حلقے کی طرف سے خیر خواہی کی توقع نہیں۔ اس کے پاس وسائل صرف اسلام آباد اور پنجاب پولیس کی صورت ہوں گے، لیکن ان کے موثر ہونے کا بھرم 2014 ء کے دھرنے چاک کرچکے ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ حکومت کے ترکش میں کوئی تیر نہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نہایت تندہی سے تمام انتظامات کوحتمی شکل دے رہی ہے کیونکہ اس مرتبہ عمران خان نے ہر چیز کو دائو پر لگا دیا ہے ۔ اگر وہ کافی تعداد میں لوگوں کو اسلام آبادلانے میں کامیاب ہوگئے اور اگر دارالحکومت کی طرف آنے والی رابطہ سڑکیں بلاک ہو گئیں تو حکومت کا تختہ الٹنے کا چیلنج پورا ہوجائے گا۔ اگر عمران خان ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ اُن کی حتمی ناکامی ہوگی۔ اس پر اُن کے دشمن اور ناقدین جشن منائیں گے۔
جلد ہی نئے آرمی چیف کی نامزدگی کا مرحلہ بھی قریب ، جبکہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول آرمی چیف اپنی مدت پوری کرکے گھر جانے والے ہیں۔ دوسری طرف شریف برادران ،جن کی سیاسی تاریخ میںخوش قسمتی کا باب نمایاں ہے ، بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ابھی قسمت نے اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا، اور یہ اُن کے دشمن ہیں جو ایک مرتبہ پھر ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ شریف برادران کے حامیوں میں سازش کی تھیوریاں بھانپنے کی خصوصی مہارت ودیعت کی گئی ہے، خاص طور پر جب اُن کے رہنما مشکل حالات سے دوچار ہوں۔ 2014 ء کے دھرنوں کے دوران اُنھوں نے سازش کی دہائی دی تھی، اب بھی بو سونگھ رہے ہیں ۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ پاناما گیٹ آئی ایس آئی کاپلان کردہ نہیں، اور ڈان کی کہانی آئی ایس آئی نہیں بلکہ وزیر ِاعظم کے دفتر کی طرف سے آئی ہے ۔ چاہے آئی ایس آئی جو بھی طاقت رکھتی ہو، وہ عمران خان کے جلسے، جیسا کہ رائے ونڈ میں دیکھنے میں آیا، مینج نہیں کرسکتی ۔ اگر دونومبر کو اسلام آباد کی طرف عوام چلے آئے تو ایسا پی ٹی آئی اور عمران خان کے پیغام کی وجہ سے ہوگا، اس میں کسی کا نادیدہ ہاتھ فعال نہیں ہوسکتا۔
آئی ایس آئی نے نواز شریف کےلئے مسائل پیدا نہیں کیے ہیں۔ لندن فلیٹس اور سمندر پار اکائونٹس سے لے کر ڈان کی کہانی تک وہ اپنے تمام مسائل کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ اور پھر ان کا حل تلاش کرنے کی بجائے وہ توقع کررہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آئے گا ۔ یہ راستہ صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عمران عملی میدان میں قدم رکھنے کی بجائے حسابی موشگافیوں کی بحث میں الجھ جائیں ، اورتاریخ گواہ ہے کہ شریف برادران ایسی موشگافیوں کے ماسٹر ہیں۔ پریس کانفرنس اور ٹی وی ٹاک شوز، جو آج کی پاکستانی سیاست کے لئے سکہ رائج الوقت ہیں، کے الفاظ گھاگ سیاست دانوں کے لئے ویسے ہی ہیں جیسے بطخ کے پروں پر پانی۔ شریف برادران گزشتہ 35 برسوں سے سیاسی اکھاڑے میں ہیں۔ الفاظ سے متاثر ہونے والے شخص کا اس گلی میں کیا کام؟بھٹو اور ان کے خلاف 1977 ء میں جمع ہونے والے پی این اے کے رہنما عوامی سیاست دان تھے، لیکن پھر بعض وجوہ کی بنا کر یہ فن ختم ہوتا گیا۔ عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنھوں نے اس فن کو پھر سے زندہ کردیا ۔ اور یہ بات بھی ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر پٹیشنز لامتناہی وقت کے لئے گردش میں نہیں رہیں گی۔ یہ معمول کے لمحات نہیں ہیں۔ ہم ایک سنجیدہ کارروائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ صرف نجومی اور کاہن ہی بتاسکتے ہیں کہ آنے والے واقعات کیا رخ اختیار کریں گے۔

Comments

Click here to post a comment