زیر نظر مضمون کا مقصد ایک سے زیادہ شادیوں سے متعلق چند ایسے عمومی ابہامات کا جائزہ پیش کرنا ہے جنہیں ہمارے یہاں ایک مخصوص معاشرتی تناظر کی وجہ سے گویا ”دلیل“ سمجھ لیا گیا ہے۔ ابتدائے مضمون میں ایک سے زیادہ شادیوں کی بنیادی ضرورت کو اجاگر کرنے کے بعد اشکالات پر تبصرہ کیا جائے گا۔
تعدد ازواج (ایک سے زیادہ شادی) کی ضرورت
یوں تو تعدد ازواج بذات خود شرعا جائز و فطری تقاضا ہے، علمائے کرام نے اس پر بہت سی کتب بھی لکھی ہیں۔ یہاں اسے ایک دوسری جہت سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کی خواہش یہ ہے کہ ہم مارکیٹ سوسائٹی کے ساتھ اسلام کو بھی لے کر چلنا چاہتے ہیں (فی الحال اس ملاپ کو ممکن مان لیتے ہیں)۔ مگر ساتھ ہی متضاد طور پر ایک سے زیادہ شادی نہ قبول کرنے کے معاشرتی رویے کو تبدیل کرنے کےلیے بھی تیار نہیں۔ اب دیکھیے یہ جدید معاشرتی نظم کیونکر تعدد ازواج کا تقاضا کرتا ہے:
1) انفرادیت پسندی پر مبنی اس جدید معاشرتی نظم میں مطلقہ و بیوہ کا پرسان حال کوئی نہیں رہتا۔
2) ان ناگہانی آفتوں سے بچنے کے لیے لوگ اپنی بچیوں کو اعلی تعلیم دلوانے پر مجبور ہو جاتے ہیں (کہ کہیں بچی مطلقہ یا بیوہ نہ ہوجائے، لہذا انہیں اس قابل بناؤ کہ بوقت ضرورت اپنی کفالت کرسکیں)۔ بچی جوں جوں تعلیم کی سیڑھیاں چڑھتی چلی جاتی ہے ”معیاری رشتے“ کا انتظار بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتا بڑی عمر کی کنواری لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو بذات خود بیوہ و مطلقہ کی گویا حریف بن جاتی ہیں۔
3) ساتھ ہی آزادی کے نام پر مخلوط طرز زندگی کو قبولیت عطا کی جاتی ہے نیز آزاد میڈیا کے ذریعے جنسی خواہشات کو بھی فروغ دیا جاتا ہے۔
ایسے میں ایک سے زیادہ شادی پر معاشرتی پابندی کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف ہم ایک مخصوص خواہش کو بڑھاوا بھی دیں گے مگر ساتھ ہی اسے پورا کرنے کا جائز راستہ بھی بند کریں گے۔ چنانچہ یہ تضاد عقل سے بالاتر ہے۔ ایک جائز خواہش کی تکمیل کا جائز راستہ بند کرنے کا نتیجہ لازما خفیہ تعلقات ہی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ پورا عمل گویا خواتین کا چند طرح سے خود اپنے ہی خلاف سازش کرنا ہے:
1) مطلقہ و بیوہ کے لیے زندگی کے راستے مسدود کرنا۔
2) بڑی عمر کی کنواریوں کو ذہنی کوفت میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا۔
3) اپنے شوہر کی جائز خواہش کی تکمیل کے لیے انہیں خود سے بےوفائی پر اکسانا، اور نتیجتا اپنے گھر کو تباہ کرلینا۔
اس پورے غیر معقولانہ عمل کو جواز دینے کےلیے چند دلائل بھی وضع کرلیے گئے ہیں جن کا یہاں اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔
تعدد ازواج اور’عیاشی‘:
تعدد ازواج کے حوالے سے ہمارے یہاں یہ عجیب و غریب معذرت خواہانہ رویہ پایا جاتا ہے کہ اس کی اجازت کو بالعموم ”ناگہانی معاشرتی مسائل کے حل“ کا گویا ایک ”ناپسندیدہ طریقہ“ سمجھا جاتا ہے۔ یعنی دوسری شادی یا تو یتیم کی پرورش کے لیے ہونی چاہیے یا پھر حصول اولاد کے لیے۔ ان مقاصد کے علاوہ اگر کوئی شخص پہلی بیوی کے ساتھ بظاہر خوشگوار زندگی گزارنے کے باوجود دوسری شادی کی خواہش رکھے یا کرلے تو اسے غیر عاقل، ظالم یہاں تک کہ ”عیاش“ گردانا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہ معاشرتی رویے خدا اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات و صحابہ کے طرز عمل سے یکسر مختلف ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کی کثیر اکثریت نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں۔ اگر دوسری شادی کرنا کوئی ایسا ہی برا عمل یا عیاشیانہ مزاج کا اظہار ہوتا تو صحابہ یقینا اس سے احتراز کرتے۔ چنانچہ جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا بذات خود ایک جائز و محمود مقصد ہے، جیسے رسول اللہﷺ نے بیوی سے تکمیل خواہش کو بھی ایک نیکی قرار دیا کہ یہ ایک کبیرہ گناہ سے بچانے کا اہم ذریعہ ہے۔ پھر اگر دوسری شادی جنسی پہلوکے اعتبار سے ”عیاشی“ ہے تو عین یہی عیاشی پہلی شادی میں بھی اسی قدر موجود ہے، تو کیا اس منطق پر اسے بھی غلط کہنا شروع کردیا جائے؟
فطرتا ایک ہی کافی ہے:
بعض لوگ اپنی مخصوص طبع کی بنیاد پر یہ اشکال پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ”مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہے ہی نہیں، ایک ہی اس مقصد کے لیے کافی ہے“۔ مگر ایک فرد کے مخصوص طبعی رجحان (aptitude) کو پوری انسانیت کا رجحان کہنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ اپنے مخصوص طبعی رجحان کی بنیاد پر زیادہ شادیاں کرنے والوں کو عیاش سمجھنا تو ایسا ہی ہے جیسے ایک روٹی سے پیٹ بھر کھانے والا شخص دو یا تین روٹیاں کھانے والوں کو عیاش کہتا پھرے اور پھر ایک سے زیادہ روٹیاں کھانے پر پابندی لگوا دے۔ تو طبعیتوں و ضرورت کا جو تفاوت خوراک کے معاملے میں قبول کیا جاتا ہے وہی رویہ اس مخصوص خواہش میں تفاوت کے لیے کیونکر ناقابل قبول ہے؟ اور اس میں بھلا کیا کوئی شک ہے کہ اس معاملے میں ”بالعموم“ مرد کی خواہش عورت کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے، خصوصا چند بچوں کی ولادت کے بعد تو یہ فرق بہت نمایاں ہوکر واضح ہوجاتا ہے۔
بیوہ و مطلقہ کو اس کا فائدہ نہیں ہوگا:
ایک اور عمومی اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ”اگر دوسری شادی کو عام کیا گیا تو لوگ کنواریوں سے ہی شادی کریں گے، بیوہ و مطلقہ تو پھر بھی بیٹھی ہی رہ جائیں گی“۔ مگر یہ اشکال بھی نہ صرف یہ کہ حقیقت کی دنیا سے دور بلکہ مرد کی فطرت سے انتہائی بدگمانی پر مبنی ہے۔ چنانچہ دنیا میں مختلف مرد عمر کے مختلف حصوں میں دوسری شادی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں (مثلا بعض کی بیوی 40 سال کی عمر کے بعد بیماری کا شکار ہو کر بستر سے لگ جاتی ہے)۔ ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں جہاں لوگ اس وقت میں ایک سگھڑ اور سلیقہ شعار خاتون (اگرچہ وہ بیوہ یا مطلقہ ہی ہو) سے نکاح کو چھوٹی عمر کی کنواری پر ترجیح دیتے ہیں کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال نیز گھر داری بھی کرے۔ اسی طرح بہت سے لوگ نیکی کے جذبے کے تحت بھی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح کر لیتے ہیں (مثلا ہمارے خاندانوں میں یہ عام ہوتا ہے کہ چھوٹا بھائی یتیم بچوں کو سہارا دینے کے لیے بڑے بھائی کی بیوہ سے نکاح کرلیتا ہے، تو آخر وہ بھی مرد ہی ہوتا ہے)۔ چنانچہ یہ اعتراض فرض کر رہا ہے کہ دنیا کے تمام مرد دوسری شادی کے معاملے میں زوجہ کے انتخاب میں یکساں رجحان رکھتے ہیں نیز سب کے حالات بھی یکساں ہیں، لہذا سب مردوں کے انتخاب کا پیمانہ (parameter) بھی ایک ہی ہوگا (جس پر صرف چھوٹی عمر کی کنواری ہی پورا اترے گی)۔ ظاہر ہے یہ دونوں ہی مفروضے لغو ہیں۔ جب ایک راستہ بنتا ہے تو سب کےلیے راہیں کھلتی ہیں، دوسری شادی کے راستے پر پہرے بٹھا کر بیوہ، مطلقہ و بڑی عمر کی کنواریوں کے لیے کوئی راستہ پیدا کرنا ہی محال ہے، سوائے اس کے کہ اس طبقے کو ہمیشہ کے لیے ذہنی کوفت کا شکار ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جائے۔
مرد عدل نہیں کرتے:
تعدد ازواج کے خلاف چند عملی نوعیت کے مسائل کو بھی اس کے خلاف دلیل سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک سب سے زیادہ اچھالا جانے والا مسئلہ یہ ہے کہ ”مشاہدہ بتاتا ہے کہ دوسری شادی کرنے والے شوہر بالعموم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرتے، لہذا دوسری شادی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے“۔
پہلی بات تو یہ کہ ایسے کوئی اعداد و شمار موجود ہی نہیں جس کی بنیاد پر اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے کہ مرد عدل نہیں کرتے، اس کے برعکس بھی بے شمار مثالیں ہمارے یہاں موجود ہیں۔ مگر ایک لمحے کےلیے اس بات کو سچ مان لیتے ہیں کہ امر واقعہ یہی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلا کہ دوسری شادی کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے؟ اس سے یہ نتیجہ کیوں نہ نکالا جائے کہ مردوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کا احساس دلانا چاہیے نیز ان کی ایسی تعلیم و تربیت کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض سے غافل نہ رہیں؟ آخر اس نتیجے میں منطقی طور پر کیا غلطی ہے؟ اگر مخالفین کی اس منطق کو مان لیا جائے تو زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ دیکھیے سی ایس ایس (CSS) کے امتحان میں 5 فیصد سے بھی کم طلبہ کامیاب ہوتے ہیں، بقایا سب فیل ہو جاتے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی طالب علم کو سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھنے ہی نہ دیا جائے کہ خوامخواہ طلبہ کا قیمتی وقت اور والدین کے پیسوں کا ضیاع ہوتا ہے؟ ہمارے پولیس والوں کی اکثریت اپنے کام سے عدل نہیں کر رہی، سول سرونٹ اپنے فرائض کی ادائیگی سے غافل ہیں، جج عدالتوں میں عدل کا خون کر رہے ہیں؛ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو پولیس والا، سول سرونٹ یا جج ہی نہ بننے دیا جائے؟ دوسری بیوی تو درکنار بےشمار لوگ تو پہلی بیوی کے حقوق بھی سلب کر رہے ہیں، تو کیا سرے سے شادی پر ہی پابندی لگادی جائے (کہ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری)؟ آخر وہ کون سی منطق ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ھے کہ ”مرد عدل نہیں کرتے“ کا یہ قضیہ کیا صرف برصغیر کے لیے ہے یا پوری دنیا کے مردوں کے لیے؟ یقینا اس کا تعلق پوری دنیا کے مردوں سے نہیں بلکہ، اگر ہے بھی تو، ہمارے مخصوص علاقے سے ہے کہ کئی ممالک میں ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام ہے اور کسی کے ”پیٹ میں مروڑ“ نہیں اٹھتے نیز ازواج بھی ”سراپا احتجاج“ نہیں ہوتیں۔ تو اگر یہ قضیہ ایک برصغیر کے تناظر میں درست نظر آرہا ہے تو یہ بات صاف بتا رہی ہے کہ اس کی وجہ مرد کی جینیاتی ساخت نہیں بلکہ ہمارے یہاں کے غیر معقول و غیر شرعی معاشرتی رویے و سماجی دباؤ ہیں جن کے تحت مرد کے لیے، اگر وہ چاہے بھی تو، عدل کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔ یہ نکتہ ذرا تفصیل طلب ہے۔
عدل کا معنی حقوق کی فراہمی ہے، کسی معاملے میں قیام عدل کے لیے تین چیزوں کی درستگی ضروری ہے: ایک وہ شخص جس نے حق فراہم کرنا ہے (اس معاملے میں شوہر)، دوسرا وہ جسے حق ملنا ہے (بیوی) اور تیسرا وہ ماحول جس میں یہ دونوں سٹیک ہولڈرز خود کو پاتے ہیں (معاشرتی و ریاستی تعلقات کے تانے بانے)۔ چنانچہ عدل نہ ہو پانے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حق فراہم کرنے والا حق دینے پر راضی نہیں یا اس کا اہل نہیں؛ بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حق دار (بیوی) حق دینے والے (شوہر) کو حق دینے ہی نہیں دے رہا ہو یا اپنے حق سے زیادہ کو اپنا حق سمجھ رہا ہو، اور نتیجتا خود کو جائز حق سے بھی محروم کرنے کا باعث بن رہا ہو۔ اسی طرح عدل کی عدم فراہمی کی وجہ غیر موزوں ماحول بھی ہوسکتا ہے۔ اب غور کیجیے، کیا یہ بات درست نہیں کہ دوسری شادی کے بعد اگر مرد عدل کرنا چاہے بھی تو اس کی پہلی بیوی، اس کے سسرال والے یہاں تک کہ اس کے اپنے ماں باپ ہی اس کی زندگی اجیرن بنا کر سب اس کی راہ میں روڑے اٹکانے لگتے ہیں (اور یہ عمل دوسری شادی کے امکان کی خبر سنتے ہی شروع ہو جاتا ہے)؟ پہلی بیوی جھٹ سے دوسری کے لیے یا اپنے لیے طلاق کا مطالبہ کر ڈالتی یے (کہ یا وہ یا میں)، گھرمیں ایسا ہنگامہ برپا کیے رکھتی ہے کہ شوہر لازما بدگمان ہوکر رہے۔ شوہر کے گھر والے یہاں تک کہ اگر اولاد ذرا جوان ہو تو وہ بھی اس کا سوشل بائیکاٹ کردیتی ہے، اس کا گھر میں آنا ہی ناممکن بنا دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عورت، اس کے اور شوہر کے گھر والوں نیز مرد کی اولاد کا یہ مخاصمانہ رویہ کیا اللہ اور اس کے رسول (ص) کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ اگر ایسے حالات میں چند مرد عدل فراہم نہیں کرپا رہے جہاں خود حقدار اور عمومی ماحول ہی اس عدم فراہمی کے زیادہ ذمہ دار ہوں ایسے میں ”مرد عدل نہیں کرتا“ کی لاٹھی لے کر شوہر کے پیچھے پڑجانا اور پھر اس سے دوسری شادی کا عدم جواز نکال لانا کہاں کی عقلمندی ہے؟
ایک وقت میں دو سے محبت ممکن نہیں
یہ ایک اور دلیل ہے جو عموما خواتین پیش کرتی ہیں؛ اور ان کی دیکھا دیکھی ان کے چند ”ہمدرد“ مرد حضرات بھی دہراتے ہیں۔ یہ دلیل کچھ ”لیلی مجنوں ٹائپ معاشقے والی ذہنیت“ پر مبنی ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ”آخر ایک شوہر ایک وقت میں دوبیویوں سے کیسے محبت کرسکتا ھے؟ چونکہ محبت ایک ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے لہذا شادی بھی ایک ہی ہونی چاہیے، بصورت دیگر عدل کا پیمانہ قائم نہ رہ سکے گا“ (الا یہ کہ کوئی اضطراری کیفیت لاحق ہو)۔
مگر یہ بات سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں، اگر واقعی اس اصول (کہ ایک وقت میں ایک ہی کے ساتھ محبت ممکن ہے) کو درست مان لیا جائے تو پھر بچہ بھی ایک ہی ہونا چاہیے کہ ایک سے زائد سے محبت کیسے ممکن ہے؟ پس اگر ایک مرد ”بیک وقت“ ایک سے زیادہ بچوں سے، ایک سے زیادہ بہن بھائیوں سے، ماں اور باپ (مل کر دو) سے محبت کرسکتا ہے تو آخر بیوی ہی میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ مرد کے دل میں صرف ”ایک ہی گھس“ سکتی ہے؟
اس بابت شریعت کا یہ مطالبہ نہیں کہ ”دلی رجحان“ بھی سو فیصد مساوی ہو (کہ یہ ناممکن اور ناقابل عمل ہے، نہ صرف بیویوں کے معاملے میں بلکہ بچوں کے معاملے میں بھی)۔ شرع کا تقاضا یہ ہے ایک شوہر پر اپنی بیوی کے جو ”قانونی حقوق“ ہیں (مثلا بقدر ضرورت نان نفقہ کی فراہمی، بیماری کی صورت میں علاج و دلجوئی نیز مناسب وقت دینا وغیرہ) ان میں فرق نہیں کرنا چاہیے، اور ان معاملات میں ایسی کوئی بات نہیں جن میں ایک صاحب استطاعت شخص کے لیے عدل کرنا ناممکن ہو۔
جذبہ رقابت بھی خدا نے ہی رکھا ہے نیز یہ فطری ہے
اس سارے عمل کو جواز دینے کے لیے خواتین ایک دلیل یہ بھی دیتی ہیں کہ ”خدا نے ہی جذبہ رقابت اس کے دل میں ڈالا ہے جس کی بنا پر وہ دوسری عورت کو برداشت نہیں کرتی“۔ یقینا خدا نے انسان کے اندر اچھے اور برے ہر دو طرح کے میلانات رکھے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان میں سے ہر جذبے کی آبیاری کو زندگی کا مقصد بھی بنا لیا جائے۔ جو جذبہ برا ہے یا جو جذبہ حد اعتدال (خدا کی تعلیمات) سے باہر اپنا اظہار کرنا چاہ رہا ہو، اس کے تزکیے کی ضرورت ہے کہ بصورت دیگر جذبات کا ایسا اظہار خود انسان ہی کے لیے بے شمار مسائل کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔
اس مقام پر یہ بھی کہاجاتا ہے کہ”پہلی بیوی دوسری سے رقابت محسوس کرتی ہے اور یہ رقابت ایک فطری بات ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔“ مگر کسی جذباتی کیفیت کو محسوس کرنا اور اس کے بےلگام اظہار کو جائز سمجھنا نیز اسے اخذ احکامات کی بنیاد سمجھنا دو الگ باتیں ہیں۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے بھائی بہن کی پیدائش کے بعد بڑا بچہ ان سے نفرت کرنے لگتا ہے (کہ اماں ابا کی توجہ بٹ گئی) مگر کوئی اس بنیاد پر یہ نتیجہ نہیں نکالتا کہ ”دوسرا بچہ پہلے بچے پر ظلم ہے لہذا اسے ہونا ہی نہیں چاہیے“، بلکہ اس مقام پر یہی کہاجاتا ہے کہ ”بچے کی تربیت کریں، اسے دل بڑا کرنے کی ترغیب دیں وغیرہ وغیرہ“۔ پس یہی منطق یہاں بھی اپلائی ہوتی ہے۔
جدیدیت زدہ لوگ بالخصوص اور ہمارے معاشرے کے عام لوگ بالعموم کہتے ہیں کہ ”تعدد ازواج کی بات کرنے والے روایت پسند مذہبی لوگ عورت کے جذبات کی قدر ہی نہیں کرتے کیونکہ عورت ان کے نزدیک انسان نہیں بلکہ مرد کے استعمال کی ایک چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دوسری شادی کی وجہ سے پہلی بیوی کی پہنچنے والی رنجش کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے“۔
اصولی بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ شریعت میں بلکہ دنیا کے کسی بھی نظم معاشرت میں کسی عمل کے جائز یا ناجائز ہونے کی یہ کوئی حتمی بنیاد نہیں ہوتی کہ اس کے نتیجے میں کسی بھی شخص کو امکانی طور پر کسی قسم کی رنجش یا دکھ تو نہیں پہنچے گا۔ اگر یہ اصول مان لیا جائے تو نکاح کے بعد لڑکی کی لڑکے کے ساتھ رخصتی بلکہ نکاح ہی کے عمل پر پابندی لگادینی چاہیے۔ آخر دنیا میں وہ کون سے ماں باپ ہیں جنھیں اپنی ناز و نعم میں پلی بیٹی کسی کے حوالے کرتے رنجش نہیں ہوتی؟ اور دنیا کی وہ کون سی لڑکی ہے جسے اپنا گھر چھوڑ کر پرائے گھر جاتے رنجش نہیں ہوتی؟ اور لڑکے کی ماں، جس نے اپنے لاڈلے کو پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے، کیا اسے اپنا بیٹا کسی کے ساتھ شیئر کرتے کوئی رنجش نہیں ہوتی؟ تو اس سارے عمل کا مطلب کیا یہ سمجھا جائے کہ لوگ شادی کے عمل سے ”رنجور“ ان لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے، نیز یہ انھیں خواہشات پورا کرنے کا آلہ سمجھ رہے ہیں؟
اسکول، کالج و یونیورسٹیوں میں کتنے ہی طلبہ ہر سال فیل ہو جاتے ہیں، تو کیا انہیں کوئی رنجش نہیں ہوتی؟ کیا نوکری کے انٹرویو کے بعد نوکری نہ ملنے والے امیدوار کو کوئی رنجش نہیں ہو رہی ہوتی؟ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اساتذہ فیل ہونے والے طلبہ کو انسان نہیں سمجھتے نیز انٹرویو کرنے والی کمپنیاں رد کیے جانے والے امیدواروں کو انسان نہیں سمجھتیں؟ کیا لوگوں کی رنجش کی وجہ سے اس سارے عمل کو روک دیا جائے؟ یہ نت نئی اور مہنگی قسم کی گاڑیاں جو ہر طرف رواں دواں ہیں، کیا امیروں کو انھیں استعمال کرتا دیکھ کر غرباء کو رنجش نہیں ہوتی؟ یہ مہنگے کھانوں کے ریسٹورانٹس اور عالی شان گھر کیا کسی کے ارمانوں کا خون نہیں کرتے؟ تو کیا مطلب، یہ گاڑیاں چلانے والے اور ان ریسٹورانٹس میں کھانے والے لوگ ان غریبوں کو انسان نہیں سمجھتے؟ کیا کسی علاقے میں گاڑیوں کی تیز رفتار آمد ورفت کو ممکن بنانے کے لیے ایک ہائی وے بن جانے سے پیدل چلنے والوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی (کہ انہیں اب بلا وجہ پیدل پل پر چڑھ کر سڑک کراس کرنا پڑتی ہے)۔ ذرا سوچتے جائیے، یہ عمل کہاں تک جا سکتا ہے۔
الغرض کسی عمل کے جائز یا ناجائز ہونے کی یہ سرے سے کوئی دلیل نہیں کہ اس سے امکانی طور پر کسی کو رنجش ہو سکتی ہے، اگر یہ اصول مان لیا گیا تو زندگی محال ہوجائے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسانی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں، ان میں سے بعض بعض پر فوقیت رکھتے ہیں۔ بسا اوقات کسی اہم تر مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی کم اہم شے کو قربان کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہی معاملہ تعدد ازواج کا ہے۔ چنانچہ شرع نے ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی کہ اس سے پہلی بیوی یا اس کے ماں باپ کو کسی قسم کی رنجش پہنچنے کا امکان ہے ہی نہیں بلکہ اس بنیاد پر دی ہے کہ دیگر بہت سے معاشرتی مسائل کا حل اس رنجش سے زیادہ لائق التفات ہے۔
یاد رہنا چاہیے کہ شرع میں جذبات کوئی ماخذ شریعت نہیں، جس طرح انسان کے بدن و ذہن کا احکامات خداوندی کے تابع ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح جذبات بھی خدا کی مخلوق ہیں اور انہیں بھی اس دائرے کے اندر ہی رہنا ہے۔ یقینا اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی کہ اس سے عورت کو کسی قسم کی رنجش ہونے کا امکان ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اس لیے دی ہے کہ یہ اجازت دیگر بہت سے ایسے معاشرتی مسائل کا حل ہے جو اس قلبی رنجش سے زیادہ لائق التفات ہیں۔ لہذا اس معاملے میں خواتین سے بہرحال یہی اپیل رہے گی کہ ”وہ اپنا دل بڑا کریں“۔
تبصرہ لکھیے