لاہور کےاچھرہ کی تنگ گلیوں سے گزر کر جب آپ ذیلدار روڈ پر پہنچیں گے تو ایک الگ تھلگ سیمنٹ کے پلاسٹ والا پرانا مکان نظر آئے گا۔ زنگ آلود گیٹ کھول کر اندر جائیں تو اب بھی ایک لکڑے کے بوسیدہ شوکیس میں آپ کو 1942 کی رینالٹ بینز کا ڈھانچہ نظر آئے گا۔ اس زنگ آلود گلتی سڑتی کار کے بالکل ساتھ ہی دو قبریں بھی ہیں. ایک علامہ عنایت اللہ مشرقی کی اور دوسری ان کی شریک حیات کی۔ یہ کار ایڈولف ہٹلر نے علامہ صاحب کو بطور تحفہ پیش کی تھی۔ ب1942 ماڈل کی رینالٹ بینز کے بارے میں بتاتا چلوں کہ جب نازی فوجوں نے فرانس پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے بہت محدود تعداد میں مرسیڈیز بینز کا اسپیشل ایڈیشن تیار کیا تھا۔ کیونکہ اس کو رینالٹ کی فیکٹری میں تیار کیا گیا تھا اس لئے اس کو رینالٹ بینز کا نام دیا گیا۔ اس لہز سے اس کار کی تاریخی اہمیت اور قدرو قیمت کا اندازہ لگا لیجیے جس کا ہماری کسی حکومت نے قدر نہیں کی اور نہ اس نایاب ورثے کی حفاظت کا کوئی انتظام کیا گیا۔ تصاویر میں آپ نئی رینالٹ اور اس کی موجودہ حالت زار دیکھ سکتے ہیں۔ علامہ مشرقی ایک ایسا جینئس تھا کہ جس کے نام اور کام کو ہماری درسی کتب میں ہونا چاہئے لیکن ہمارے اصل ہیروز کو کوئی نہیں جانتا کہ سچ مچ بھینس کو بھلا بین کی کیا سمجھ۔
خود ہٹلر کے پاس چھ رینالٹ بینز موجود تھیں جبکہ اس نے جنرل رومیل سمیت ڈیڑھ سو افراد کو یہ کاریں بطور تحفہ پیش کی تھیں جن میں سے ایک علامہ مشرقی بھی تھے۔ علامہ کی سائنسی سوجھ بوجھ اور ماہر ریاضیات کی حیثیت سے ان کی خدمات کے اعتراف میں یہ کار پیش کی گئی۔ ان کو انڈیا کے بہترین دماغ کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ 1970 میں بینز کمپنی نے علامہ کی فیملی کو اس کار کے بدلے پانچ لاکھ ڈالر کی پیشکش کی تھی جو علامہ صاحب کی فیملی نے رد کردی۔ اب نئی نسل کو اس بیش قیمت ورثہ کے باعے میں کچھ خبر نہیں کہ یہ کیا حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کار آج بھی اپنی اور اپنے مالک کی بے توقیری پر نوحہ کناں ہے۔ حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کا فرض بنتا ہے کہ اس کار کو قومی و تاریخی ورثہ قرار دے کر اس کی مرمت و رنگ و روغن کروا کر اس کو کسی میوزیم میں محفوظ کیا جائے ورنہ کچھ عرصہ بعد یہ صرف ایک کاٹھ کباڑ کا ڈھیر رہ جائے گی۔ صحافی حضرات اس کی طرف توجہ دیں اور حکومت کی توجہ اس کی جانب مبذول کروائیں۔
اسی لاہور میں وہ عظیم المرتبت شخص علامہ مشرقی رہتا تھا جسکے بارے میں آئن سٹائن نے کہا کہ یہ ایک جینئس ہے…کہا جاتا ہے کہ علامہ مشرقی نے حساب کا ایک
سوال جو آئن سٹائن کو بھی پریشان کرتا تھا، ایک ڈبیہ پر حل کر دیا تھا… اڈولف ہٹلر بھی اس کی شخصیت سے اتنا متاثر ہواکہ اسے ذاتی طور پر ایک سیاہ ڈیملر لموزین تحفے میں دی اور یہ کار ابھی تک اچھرے میں ایک چھت سے معلق ہے…علامہ مشرقی کی جدوجہد آزادی کی کہانی ہمارے کسی نصاب میں شامل نہیں…تین سو تیرہ خاکسار… جنگ بدرکی یادگار…جب لاہور کے اندربٹی گلی میں پورے انگریز سامراج سے ٹکرائے تھے اس کا ہمارے نصابوں میں کتابوں میں کوئی تذکرہ نہیں‘ صرف تحریک گور کنان کے قصے ہیں‘ ہماری آج کی نسل نہ بھگت سنگھ کی قربانیوں سے واقف ہے اور نہ ہی علامہ مشرقی کی جرأت اور ولولے اور جینئس سے آگاہ ہے…اس لئے کہ …جو کچھ بھی ظہور پذیر ہو جائے اس کا ریکارڈ آئندہ نسلوں تک منتقل نہ کیاجائے تو گویا کچھ بھی ظہور پذیر نہ ہوا تھا۔فورڈ کے کہنے کے مطابق تاریخ واقعی ایک بینک ہے۔
• عالم اسلام کے فرزند....جنہوں نے دنیا کی قوموں کو اجتماعی موت و حیات کے متعلق پیغام اخیر اور تسخیر کائنات کا پروگرام اپنی شہرہ آفاق کتاب” تذکرہ“ (1924) کے ذریعے دیاتو دنیا بھر کے عالم دنگ رہ گئے۔ جس پر 1925ء میں مشروط طور پر ادب کا ”نوبل پرائز“ پیش ہوا کہ اردو ہماری تسلیم شدہ زبان نہیں، کسی یورپی زبان میں اس کا ترجمہ کیا جائے مگر شہرت و دولت سے بے نیاز مصنف نے لینے سے انکار کر دیا۔
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ برسوں پہلے 1924ءمیں علامہ عنایت اللہ مشرقی صاحب کو 36سال کی عمر میں اپنی کتاب ” تذکرہ ” پر نوبل پرائز کے لئے نامزد کیا گیا تھا – لیکن نوبل کمیٹی نے شرط یہ رکھی تھی کہ علامہ صاحب اس کتاب کا کسی یورپی زبان میں ترجمہ کروائیں مگر علامہ مشرقی نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس طرح وہ نوبل پرائز نہ حاصل کر سکے – تذکرہ کتاب میں علامہ صاحب نے قران اور قدرت کے قوانین کا سائنسی تجزیہ کیا ہے – اس کتاب کا ترجمہ نہ کروانے کی ان کی کیا توجیح ہو گی یہ سمجھ نہیں آتی – کیونکہ وہ نہ صرف روایتی ملا نہ تھے بلکہ ان کے بہت خلاف تھے۔
دنیا کے بیس ہزار سائنسدانوں کو ”انسانی مسئلہ“ کے عنوان سے خط لکھ کر دنیاوی ترقی کو بے جان مشینوں کے چنگل سے نکال کر کائنات کو مسخر کرنے ، انسانی زندگی اور اس کی روح کو کنٹرول کرنے اور دیگر کروں میں زندگی کی موجودگی کے آثار کے راز ازروئے قرآن افشاں کر دئیےجس کا ہماری کسی نصابی کتب میں ذکر تک نہیں۔ صد افسوس!!!!
علامہ عنایت مشرقی صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے – ایک بہت بڑے ریاضی دان کے علاوہ وہ سیاسی ، سماجی اور مذہبی سکالر بھی تھے – انگلستان میں اپنی تعلیم کے دوران کیمبرج یونیورسٹی میں ان کی دوستی سر جین جونز اور سر نیوٹن جیسے بڑے سائنسدانوں سے ہوئی – جنہیں علامہ صاحب نے اسلام اور اپنے پیغمبر صلعم کے بارے
میں آگاہ کیا – اور شنید ہے انہوں نے اسلامی کتب کے مطالعہ کے بعد علامہ صاحب سے جنگ کے دوران قید ہونے والی خواتین سے سلوک پر سوال اٹھایا – جس پر علامہ بہت پریشان ہوے اور کچھ عرصہ تعلیمی سلسلے کو منقطع کر کے قران اور حدیث کے مطالعہ میں اپنے آپ کو غرق کر لیا – اس کے بعد ہی انہوں نے تذکرہ اور ملا کا غلط مذہب نامی کتب لکھیں – اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ حدیثوں میں جنگی قیدی خواتین سے جس سلوک کا ذکر ملتا ہے کہ انہیں اپنی مرضی سے استعمال کیا جا سکتا ہے. قران میں ایسے سلوک کا enayatذکر ہر گز نہیں ہے – اللہ نے تو صاف کہا ہے کہ قیدی خواتین کو جزیہ لے کر دشمنوں کے حوالے کر دیں – اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکاری ہوں تو صلح رحمی کرتے ہوے بغیر جزیہ کے دشمن کو ان کی خواتین واپس کر دیں ۔ ہمارے سیدی مودودی صاحب نے اپنی تفسیر میں حدیث والے ورژن کو ہی مستند لکھا ہے اور اس سلوک کی انتہائی بھیانک شکل کا مظاہرہ آجکل داعش کے جنگی جنونی کر رہے ہیں۔
علامہ مشرقی صاحب صرف 25سال کی عمر میں کالج پرنسپل بن گئے تھے اور 29 سال کی عمر میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکریٹری بن گے تھے – بعد میں انہیں کئی بڑے عہدے آفر ہوے جیسے افغانستان کی سفارت مگر انہوں نے ایسی کسی آفر کو قبول نہیں کیا بلکہ سرکاری ملازمت چھوڑ کر 1930ءمیں خاکسار تحریک کی داغ بیل ڈالی – اس تحریک کا بنیادی مقصد غریب عوام کی بلاتفریق مذہب و فرقہ خدمت کرنا تھا – اس تحریک کیلئے کئی دفعہ وہ جیل بھی گئے۔ وہ انڈیا کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے اور اسے انگریزوں کی سازش قرار دیتے تھے – علامہ مشرقی نے 1956ءمیں منٹو پارک میں پیش گوئی کی تھی کہ اگر مشرقی پاکستان کے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو یہ علیحدہ ہو جائے گا اور ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔
• پاکستان کے وہ رہنما....جن کی نماز جنازہ میں دس لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کر کے ان کے عمل و کردارکی صداقت پر اپنی مہرثبت کی۔ • پاکستان کے پہلے رہنما ....جن کو بعد از مرگ حضوری باغ (بادشاہی مسجد لاہور) کے وسیع و عریض مقام پر قائدین خاکسار تحریک کوحکومت کی جانب سے تدفین کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اپنے عظیم المرتبت قائد کی وصیت منظر عام پر لاکر امت مسلمہ اور ملت پاکستانیہ کو حیرت زدہ کر دیا کہ”مرحوم کی تدفین، ان کی اپنی زرخرید زمین ذیلدار روڈ، اچھرہ لاہور میں ہو اور اس پر گھنٹہ گھر تعمیر کر کے تحریر کیا جائے کہ ”جو قوم وقت کی قدر نہیں کرتی تباہ ہو جاتی ہے“ ۔ جہاں پر چھولداری میں بیٹھ کرآپ نے ”خاکسارتحریک“ کو عا لمگیر سطح پر چلایا اور اسی مقام پر ہی پیوند خاک ہوکر اپنی خودداری ثابت کر دی۔
• مقام غور و فکر ہے کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے ساتھ ۱۹۴۷ءسے لے کر اب تک حکمرانوں ، ارباب تعلیم و صحافت، تاریخ نویسوں، کالم نگاروں، محققوں، قومی رہنماﺅں اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا متعصبانہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر نوجوان نسل سے انہیں کیوں بے خبر رکھا جا رہا ہے؟ جس کا واضح ثبوت یہی ہے کہ ابھی تک ”باقیات فرنگی سامراج“ کاخاتمہ نہیں ہو سکا؟ جو ہم سب کےلئے لمحہ فکریہ ہے!
تبصرہ لکھیے