ہوم << شرعی حکم لگانا - عبداللہ کیلانی

شرعی حکم لگانا - عبداللہ کیلانی

دلائل وشواہد کی بنیاد پرکسی مؤقف یا شخصیت کے بارے میں ایسی بات کرنا جو شرعیت میں حکم کا درجہ رکھتی ہو۔شرعی حکم دو طرح سے ہو سکتا ہے۔پہلا یہ کہ کسی مؤقف پر حکم لگانا،اور دوسرا یہ کہ کسی شخصیت پر حکم لگنا۔
1. کسی مؤقف پر شرعی حکم لگانا:
دلائل اور شواہد کی روشنی میں کسی چیز کو حلال، حرام، پاک، ناپاک، مشتبہ وغیرہ قرار دینا۔یا اسی طرح دلائل اور شواہد کی روشنی میں کسی عمل کو سنت ، واجب، فرض، یا مکرہ وغیرہ قرار دینا۔یہ عموماً فقہُ الاسلامی کا موضوع ہے۔بنی اسرائیل نے اللہ کریم کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کیا، حتیٰ کہ وہ دلائل کی بجائے شکوک کی بنیاد پر بھی چیزوں کو حرام کرنے لگے،یہ طریقہ یہود کے اس گروہ کا تھا، جو اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ پرہیزگار ثابت کرنا چاہتے تھے۔،لیکن یوں چیزوں کوحرام ’ثابت‘ کرتے جانے کا یہ خودساختہ سلسلہ ان کے لیے گلے کا طوق بنتا گیا۔پھر ان کو خوش خبری دینے والے نے خوش خبری دی کہ یہ تمہارے گلے کے یہ طوق آخری نبی توڑے گا۔اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی خود ساختہ طور پرکچھ چیزوں کو حرام قرار دیا، اور اس حرمت کو اللہ کریم سے خودساختہ طورپر منسوب کرتے تھے۔جس کا اشارہ سورۂِ انعام میں ہے کہ بتاؤ تمہارے پاس کیا دلیل ہے کہ اللہ کریم نے ان چیزوں کو حرام کیا؟

  1. کسی شخصیت پر یا شخصیتوں کے گروہ پر حکم لگانا:
    کسی شخصیت کے بارے میں دلائل وشواہد کی بنیاد پر یہ کہنا کہ وہ اچھا ہے، برا ہے، عالم ہے، جاہل ہے، ولی ہے، امام ہے، یا دوسری طرف کسی کو کذاب، دجال یا گمراہ وغیرہ قرار دینا۔یہ عموماً علمائے تاریخ اور علمائے رجال کا موضوع ہوتا ہے۔اس میں بہت زیادہ شواہد اور دلائل کی روشنی میں صرف ایک مخصوص اور مقید حکم لگایا جاتا ہے۔مثلاً سو شواہد کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث میں عالم ہے۔یا یہ آدمی فقہُ الاسلامی میں امام ہے۔یعنی اس کے دائرہ علم کو یا امامت کو مقید کیا اور وضاحت کی کہ وہ کس چیز میں امام ہے۔اگر سو شواہد کی بجائے ایک ہی مشاہدے کے بعدفوراً جلد بازی کی جائے اور غلو کیا جائے اور جلدی میں حکم لگا دیا جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہوتا۔کیونکہ اگر ایک مشاہدہ اس کے حق میں ہے تو ممکن ہے باقی ننانوے مشاہدات اور دلائل اس کے خلاف ہوں۔اس لیے حکم لگانے میں صبر ضروری ہے تاکہ تمام مشاہدات سامنے آجائیں۔

عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا کہ وہ بغیر باپ کے معجزانہ طور پر پیدا ہوئے۔اس مشاہدے کی بنیاد پر انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا، حالانکہ ان کی پیدائش اور زندگی کے باقی ننانونےمشاہدات اس کی نفی کررہے تھے، عیسیٰ علیہ السلام کھاتے تھے، پیتے تھے،اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے اور چھپے، آدم کی بیٹی کے پیٹ سے پیدا ہوئے جو خود بھی کھانے پینے کی محتاج تھیں۔قرآن کریم نے اس طرح کی حکم بازی کو غلو یعنی انتہاء پسندی کہا ہے اور اس سے منع کیا ہے۔
اسلام سے قبل اہل کتاب کے کافی فرقے عرب میں موجود تھے، جو نبی اکرم صلی علیہ وسلم کا انتظار کررہے تھے، ان میں سے ہر فرقے کا دعویٰ تھا کہ اللہ کے آخری رسول ہماری تائید کریں گے اور باقی تمام فرقوں کو غلط قرار دیں گے(جیسے آج مسلمانوں کا ہر فرقہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں سمجھتا ہے)۔لیکن جب اللہ کے آخری رسول آئے تو ایسا نہیں ہوا، قرآن کریم نے کسی بھی فرقے کی نام لے کر تائید نہیں کی نہ ہی کسی فرقے کو نام لے کر غلط قرار دیا، البتہ جو فرق حق کے قریب تھے ان کے اچھے اعمال کی تائید ضرور کی : یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ سچائی پر قائم بھی ہیں جو رات کے وقت اللہ کریم کی آیتیں پڑھتے اور اس کے آگے سجدہ کرتے ہیں(آل عمران ۱۱۳)۔ لیکن ان سچے فرقوں کے معروف تاریخی نام ذکر نہیں کیے گئے تاکہ مفہوم عام رہے کہ جو بھی ایسا کرتا ہے وہ ٹھیک ہے، اور تاکہ جانب داری کا الزام نہ آئے، اور تاکہ ہرٹھیک فرقے کا نام لے کر تعریف کرنے سے جو قباحتیں آتی ہیں ان سے بچا جائے، کیونکہ ہر فرقے کی کچھ خامیاں بھی تھیں، نام لے کر تعریف کرنے سے ان خامیوں کی بھی تائید ہوجاتی جو غلط ہے، کیونکہ اس طریقے سے خامیوں کی بھی ساتھ ہی تائید کردینا عصبیت بن جاتی ہے۔
دوسری طرف جو فرقے غلط تھے ان کی مذمت بھی نام لیے بغیر کی گئی:اے مومنوا اگر تم اہل کتاب کے ایک فریق کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں ایمان لانے کے بعد کافر بنادیں گے(آل عمران ۱۰۰)۔گویا قرآن کریم نے ان مصنوعی خودساختہ خوبصورت ناموں پر کوئی شرعی حکم نہیں لگایا بلکہ اعمال اور عقائد پر حکم لگایا، جیسے آیا ہے:ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ میں بھی اہم معاملہ یہی ہے۔بعض لوگوں نے یزید کو’ امام‘ بنا دیا اور امام حسین علیہ السلام کو غلط ثابت کیا کہ وہ کربلا کیوں آئے؟اور انہوں نے یزید کی بیعت کیوں نہ کی اس لیے نعوذباللہ وہ واجب القتل تھے۔ بعض دوسری انتہاء پر چلے گئے، اور اہل بیت علیہم السلام کی اتنی تعریف کی کہ ان کو صاحب الوحی سمجھا اور باقی خلافاء الثلاثہ علیہم السلام کی مذمت کی۔
نعوذباللہ من ذالکما۔
مسلمانوں کے مختلف گروہوں پر اور اسی طرح ائمۂِ اربعہ کا معاملہ، اسی طرح سلف صالحین کا معاملہ، اسی طرح فقہاء اورمحدثین اوردوسرے علوم کے ماہرین اور آخر میں اسی طرح معاصرین پر شرعی حکم بازی میں عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ صبر سے شوہد جمع کرکے مقید ترین حکم لگانا چاہئے۔