پہلی قسط پڑھیں
دوسری قسط پڑھیں
کالم نگاری
میں نے پہلا کالم 1970ء میں لکھا۔ ان دنوں وفاق میں رپورٹر تھا۔ بسنت کے موقع پر چھ بچے چھتوں سے گر کر زخمی ہوئے۔ میں انہیں دیکھنے گیا۔ واپس آ کر خبر لکھنی شروع کی تو کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ یہ تو کالم لکھ دیا ہے۔ وہ کالم جمیل اطہر صاحب نے چھاپ دیا۔ مولانا مودودی جماعت کی امارت سے سبکدوش ہوئے تو میں نے دوسراکالم لکھا۔ ان دنوں چھ ،آٹھ مہینے کے بعد ایسے کسی انسپائرنگ واقعہ پر میں کالم لکھ دیتا۔ مدتوں سمجھتا رہا کہ میں فطری رائٹر نہیں ہوں۔ کسی واقع سے انسپائریشن کے بغیر میرے لئے لکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ 2001ء کے بعد آہستہ آہستہ اور پھر 2006ء میں یقین ہو گیا کہ اچھے برے سے قطع نظر، میں لکھ بہرحال سکتا ہوں۔ میں نے طویل عرصے تک بڑے بڑے کرب میں لکھا۔ مجھ میں شدت احساس بہت ہے۔ کئی بار لکھتے ہوئے میرے اوپر رقت طاری ہو جاتی۔ کالم کے فارمیٹ اور الفاظ کے مناسب ہونے کی بھی بڑی فکر رہتی ہے۔ میرے خیال میں کالم کا فارمیٹ پرفیکٹ ہونا چاہئے… کسی اچھے سلے سوٹ کی طرح۔
میں مدتوں منو بھائی سے متاثر رہا کہ وہ فارمیٹ سے انحراف نہیں کرتے۔ پہلے میں بڑے ہیجان اور دباؤ میں لکھا کرتا تھا۔ پروفیسر احمد رفیق سے ملنے کے بعد انکشاف ہوا کہ ہیجان اچھی چیز نہیں۔ بندے کونارمل لکھنا چاہئے۔ پروفیسر سے ملنے کے بعد احساس کی شدت تو باقی ہے مگر اس کی اذیت کم ہو گئی ۔آج کل تو بعض اوقات چالیس منٹ میں کالم لکھنا پڑ جاتا ہے۔ مشتاق یوسفی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کتنی دیر میں کالم لکھ لیتے ہو۔ میں نے جواب دیا تو وہ بڑے حیران ہوئے۔ میں نے کہا کہ ڈیڈلائن کا دباؤ آپ پر ہو تو آپ بھی اتنی دیر میں لکھ لیں گے۔ عالی رضوی میرے استادوں میں سے ہیں۔ ان سے سیکھا کہ کبھی ادنیٰ لفظ نہیں لکھنا چاہئے،اسی طرح بازار کی زبان اور بول چال کی زبان میں کیا فرق ہے؟میں نے ہمیشہ کالم لکھتے وقت یہ سوچا کہ میری ماں اسے پڑھ سکے۔ ایک آدھ بار ہی ایسا ہو گا کہ اپنا لکھا پڑھ کر شرمندگی ہوئی ۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھے۔ ایک اخبار میں مہینوں میرے کالم نہیں چھپے مگر تنخواہ ملتی رہی۔
میں نے فاتح کیوں لکھی؟
جنرل اختر عبدالرحمن پر لکھی کتاب ’’فاتح‘‘ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔ دراصل ان دنوں میں اخبار نویسی سے اکتا گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ مغربی رائٹروں کی طرح چند سال کتابیں لکھ کر کماؤں۔ وہاں تو رائٹر کئی ملین ڈالر کما لیتے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ چلو مناسب گزار اوقات ہو جائے۔ اختر عبدالرحمن پر کتاب لکھنے کا بنیادی تھیم یہ تھا کہ ایک یتیم بچے کو ٹریبیوٹ پیش کیا جائے جس نے اچھی تربیت اور محنت سے ترقی کی اعلیٰ ترین منزلیں طے کیں۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ پوری کتاب ٹریبیوٹ میں لکھ دی۔ اگر جنرل مرحوم کی زندگی کے کمزور حصوں پر لکھ دیتا تو خفت نہ اٹھانی پڑتی۔ یہ قطعاً غلط ہے کہ ہمایوں اختر یا ان کے بھائیوں نے مجھے یہ کتاب لکھنے کے پیسے دیئے۔ وہ تو اس کتاب کے لئے راضی ہی نہیں تھے۔ میں نے انہیں اس پر قائل کیا۔ جب میں نے کتاب لکھی تو یہ خیال تھا کہ ہزار دو ہزار بک جائے گی۔ ویسے میرا ہدف چار ہزار کا تھا کہ اس طرح 90 ہزار کے قریب رائلٹی مل جائے گی۔ ان دنوں سینئر اخبار نویس کی تنخواہ بھی سات آٹھ ہزار تھی۔ میں نے سوچا رائلٹی سے ایک سال گزار لوں گا۔ پھرکسی اور کتاب کا سوچا جائے گا۔ اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ ’’فاتح‘‘ ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہو گی۔ میں نے اختر عبدالرحمن کے بیٹوں سے وعدہ کیا کہ کتاب کی نصف رائلٹی انہیں دوں گا۔ میرا ان سے معاہدہ ہوا کہ وہ مجھے ریسرچ کی خاطر کئے جانے والے سفر وغیرہ کا خرچ دیں گے اور چونکہ میں نوکری چھوڑ کر اس پر کام کر رہا تھا اس لئے انہوں نے بارہ ہزار روپے مہینہ دینے کی پیش کش بھی کی ۔بعد میں اس کتاب نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ چند مہینوں میں 35 ہزار کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ مجھے پانچ لاکھ رائلٹی ملی۔ میں نے غازی خان کو نصف رائلٹی دی مگر اس نے انکار کر دیا۔ میں نے بحث کی مگر ناکام رہا۔ غالباً پیسے کی محبت بھی غالب آ گئی ہو گی۔ اللہ جانتا ہے کہ مجھے دل سے خوشی نہیں ہوئی تھی۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ان بھائیوں سے دور ہی رہوں، اس پر عمل پیرا رہا۔ مجھے خاموش مجاہد ترجمہ کرنے کے لئے بھی کہا گیا مگر میں نے انکار کر دیا۔ فاتح برصغیر کی سب سے زیادہ چھپنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس پر معروف لبرل جریدے نیوز لائن نے تین صفحے کا تفصیلی تبصرہ شائع کیا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ کبھی ممکن ہوا تو اسے دوبارہ لکھوںگا۔ اسی بار اس میں جنرل اختر کے کمزور حصے بھی شائع کروں گا تاکہ عدم توازن ختم ہو جائے۔ ویسے اس پر Regret نہیں کرتا۔ غلطی سے سبق سیکھنا چاہئے، جو میں نے سیکھا ہے۔ یہاں پر لوگ آمروں کے قصے لکھتے اور اس پر اکڑ کر چلتے ہیں۔ میں نے تو ایک مرحوم جنرل پر کتاب لکھی۔
شخصیات جن کے اثرات پڑے
مولانا امین احسن اصلاحی ہارون صاحب کے ماموں کے دوست تھے ۔ہارون الرشید ان کے علم وفضل کے بڑے معترف ہیں ۔وہ کہتے ہیں ،’’مولانا اصلاحی کا ٹیلنٹ ،حسن تحریر،اور پوٹینشل مولانا مودودی سے زیادہ تھا۔ ان کے اساتذہ بھی مولانا مودودی کے اساتذہ سے بہتر تھے ۔ بدقسمتی سے اصلاحی صاحب میں خودپسندی بہت تھی ۔اسلام میں تصوف کی روایت کا وہ بالکل ادراک نہ کر سکے ۔اپنے اساتذہ خصوصاً حمید الدین فراہی کے اسیر رہے۔ یہی حال جاوید احمد غامدی کا ہے ۔ غامدی صاحب بڑے اچھے اور نیک طینت انسان ہیں ۔وہ بڑے خوش ذوق، اظہار پر قدرت رکھنے والے صاحب مطالعہ دانش ور ہیں ۔ ان کے مالی معاملات بڑے شفاف رہے، مگر وہ بھی اصلاحی صاحب کی طرح اپنے مکتب فکر کے اسیر ہوگئے ۔ پھر خبط عظمت بھی بہت ہے ۔
اپنی تمام زندگی سیاست اور سیاست دانوں پر لکھنے والے ہارون صاحب کی نظر میں کوئی سیاستدان جچا نہیں ۔ کہتے ہیں کہ قائداعظم کے بعد کوئی جچ بھی کیسے سکتا ہے ۔ان کے خیال میں،’’ بھٹو صاحب عظیم نیشنلسٹ ،بے پناہ ذہین شخص تھے ،مگر ان میں خبط عظمت بہت تھا ۔ان کو تاریخ کے دوام میں زندہ رہنے کا شوق تھا ،حالانکہ یہ سوچ ہی غلط ہے ۔‘‘جنرل ضیا الحق کا سیاسی فہم انہیں نارسا لگتا ہے ،جنہیں افغان جہاد کے مضمرات کا اندازہ ہی نہ ہوسکا ۔ویسے ہارون صاحب کے خیال میں جنرل ضیا ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود اخلاقی اعتبارسے بھٹو سے بہتر تھے ،ان کے دامن پر بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کا دھبہ نہ ہوتا تو ان کا امیج اور بھی بہتر ہوتا۔ سیاست دانوںمیں وہ شیرباز مزاری کی اصول پسندی کے مداح ہیں،جنہوں نے ہارون صاحب کو یہ سکھایا کہ کوئی شخص مکمل طور پر غلط یا درست نہیں ہوتا ،اس لئے ایشو ٹو ایشو رائے دینی چاہیے۔
ہارون الرشید کہتے ہیں کہ وہ ایک زمانے تک کالم شام کو لکھ لیتے ،پھر نصف شب کے قریب اسے دوبارہ پڑھتے اور بسا اوقات اسے دوبارہ لکھتے ۔ اب تو وہ قلم برداشتہ بھی لکھ لیتے ہیں، مگر ان کے خیال میں ایک بار لکھ کر اس پر نظر ثانی ضرور کرنی چاہیے۔ وہ بڑے رشک سے زہیر بن ابی سلمہ کا ذکر کرتے ہیں ،جو ان کے خیال میں عربی کے سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ زہیر اپنی نظم ایک سال تک کسی کو نہیں دکھاتے تھے ۔ میر انیس ایک ماہ تک ایسا کرتے ، جبکہ مشتاق یوسفی لکھ کر گویا تحریر کو پال میں ڈال دیتے ہیں ،مگر اخبار میں ڈیڈ لائن کا دبائو ہارون صاحب کو ایسا نہیں کرنے دیتا۔ وہ کہتے ہیں کہ وقت ملے تو یہی کوشش کرتا ہوں کہ حسن بیان اور مضبوط دلائل کے ساتھ پرتاثیر کالم لکھا جائے ۔
سردار شیربازی کی بہترین بات. . . کوئی شخص مکمل طور پر غلط یا درست نہیں ہوتا ،اس لئے ایشو ٹو ایشو رائے دینی چاہیے
ہارون الرشید صاحب کا تفصیلی انٹرویو اچھا لگا. ان کی زندگی کے کئ گوشے وا ہوئے. انکے طرز تحریر میں خطیبانہ آہنگ کا تو میں گرویدہ ہوں کہ اس حوالے سے ابوالکلام, شورش جیسے لوگوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے تا ہم بعض اوقات ناگوار حد تک بڑھی ہوئی مبالغہ آرائی ہضم نہیں ہو پاتی. تعریف و توصیف میں تو عقیدت کی جلوہ سامانی کہ کر جان چھڑائ جا سکتی ہے تاہم قدح و مذمت میں مبالغہ تو نہ صرف معروضیت کو مجروح کرتا ہے بلکہ تعصب کی آمیزش تجزیہ تک کو گہنا دیتی ہے.. شخصی خاکہ نگاری میں تو انکے قلم کی جو لانیاں دیکھنے کی ہو تی ہیں تاہم ناپسندیدہ شخصیات کا ذکر تعصب کی زہر ناکی سے بھجا ہوتا ہے.. مثلاً طاہر القادری وغیرہ کو شعبد ہ بازی کی کم از کم گالی تو ہر کالم میں دینے سے نہیں چوکتے.یا جیسے شاہ محمود قریشی ہی پی ٹی آئی میں ساری خرابیوں کی جڑ ... بعض اوقات ناپسندیدگی کی دلیل بھی بھونڈی ہو تی ہے بالخصوص اگر وہ عارف دوراں کی فکر سے مستنیر ہو. ..موصوف کا تصوف سے تعلق بھی فوجی افسران سے تعلقات کا پیش خیمہ محسوس ہو تا ہے نہ کہ کسی شعوری کوشش کا نتیجہ... جماعت اسلامی کے باقیات الصالحین سے تعلق اور فوجی حلقوں سے قربت کے باعث 90 کی دہائ تک وہ مولانا اللہ یار خان چکڑالوی اور اکرم اعوان کے گرویدہ رہے..کیا یہ محض حسن اتفاق ہے کہ ان بزرگوں کی مشیخت کے چرچے افواج پاکستان سے وابستہ بعض حلقوں میں زیادہ رہے ..رواں صدی کے شروع سے صوفی دانشور احمد رفیق اختر کی مدحت طرازی فریضہ مذہبی سمجھ کر ادا کر ہے ہیں ..اگر ناچیز کو شوخ چشمی اور کم سوادی کا خطرہ نہ ہوتا تو ذاتی مشاہدہ کی بنا پر ' عارف دوراں ' کی آراء کو معرض بحث میں لاتا.. خیر پھر سہی....ہارون صاحب عربی و فارسی ادب کے اقتباسات سے تحریروں کو مزین کر تے ہیں تا ہم میراخدشہ ہے کہ یہ بھی ان زبانوں کے تراجم کا فیض ہے نہ کہ براہ راست مطالعہ کی برکات یا ان زبانوں کا اچھا ذوق. ..بس اتنا ہی کہ سکتا ہوں ...ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ.
زبردست ھے جناب ۔۔ اس سے ھمیں لکھنے والوں کو سمجھنے میں آسانی ھوتی ھے اور شخصیت کا اندازہ ھوتا ھے ۔۔۔
آگے بھی اس سلسلے کو جاری رکھیں ۔
ہارون الرشید صاحب عربی اور فارسی کے اشعار و امثال کا جو استعمال کرتے ہیں اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ ان کو عربی اتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اج کل تراجم کی بہتات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہ عربی پڑھ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پیش ایسا کرتے ہیں کہ جیسے عربی کے بڑے ماہر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی ان کی اردو کمال کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شورش کاشمیری سے بڑا متاثر ہے لیکن کھلے دل سے اس کا اعتراف کم کرتے ہیں
ہارون صاحب کی انشاء پردازی کمال کی ہے۔ بات کہنے کا ڈھنگ اور سلیقہ ان میں ہے۔ وہ اردو کے معروف کالم نگار ہیں ۔ میلانِ طبع ہے یا پیشے کا اثر ان کی تحاریر میں شخصیات کی تعریف و تحسین کا رنگ جھلکتا ہے ۔ مگر افسوس اچھی تحریر لکھنے والے جب ٹی وی پر نمودار ہوتے ہیں تو تحریری شائستگی اور بانکپن گفتار میں ماند پڑ جاتا ہے