ہوم << فاؤل لینگویج : معظم معین

فاؤل لینگویج : معظم معین

آئے دن ہمارے پیارے سیکولرز ایسے گل کھلاتے رہتے ہیں کہ بندہ دیکھتا رہ جاتا ہے کہ یہ ہوا کیا ہے؟؟؟ تازہ ترین شگوفہ ایک اعلی ترین کاروباری اسکول نے کھلایا ہے جب انھوں نے اپنے اسکول میں ایک سرکلر جاری کیا جس میں وہ کہتے ہیں خبردار کسی نے ہمارے اسکول کی حدود میں "فاؤل لینگویج" بولی۔ ہم لبرل ہوتے ہیں اور لبرل ازم کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے اپنی جڑوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور غیروں کی جڑوں میں اپنے بوٹے اگانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لئے ان کے ہاں فاؤل لینگویج بولنا منع ہے۔ اور یہ فاؤل لینگویج کیا ہوتی ہے؟ یہ گالم گلوچ ہوتی ہے۔۔۔ یہ جگت بازی ہوتی ہے۔۔۔ یہ اوباش لوگوں کی زبان ہوتی ہے۔۔۔۔یہ پنجابی ہوتی ہے۔۔۔۔
کسی نے درست ہی کہا ہے کہ کچھ قومیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس معاملے میں وہ خود کفیل ہوتی ہیں۔ جو اپنی بنیاد، اپنی زبان اور اپنی ثقافت پر شرمندگی کا اشتہار ہوتی ہیں۔ دشمن کا مقصد بھی آپ کو آپ کے وجود اور آپ کی تہذیب و تمدن کو مٹانا ہوتا ہے جب آپ خود ہی اپنی پہچان اور تمدن کو مٹانے والے بن جائیں تو پھر دشمن کا کام خاصا آسان ہو جاتا ہے۔
آج بابا بلھے شاہ زندہ ہوتے۔۔۔ شاہ حسین، بابا فرید زندہ ہوتے۔۔۔ وارث شاہ ہوتا تو ہم اس سے پوچھتے کہ
آج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول
پوچھتے کہ یہ ہمیں کون سی فاؤل لینگویج سکھا گیا ہے کہ جس کے اپنے بولنے والے اپنی زبان پر شرمندگی کا شکار ہیں۔
بابا بلھے شاہ سے پوچھتے کہ اس نے کیوں کہا کہ
علموں بس کریں او یار
اکو الف تیرے درکار
اور اس کے جانشین واقعی اکو الف سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اور وہ اکو "الف" انگریزی کا تھا۔ انگریزی کے عشق میں ڈوب کر ان کی وہی کیفیت ہو چکی جو اسی نے کہا تھا کہ
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدّو نی مینوں دھیدو رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی
تو اسی طرح وہ نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے آباؤ اجداد کا حسب نسب جان سکے اس کے لئے اب پابندی ہے کہ کوئی یہ "فاؤل بولی" نہ بولے سب وہ زبان بولیں کہ پیٹر کہلائیں ولیم اور جانسن کہلائیں۔۔۔ سکندر ایلیگزینڈر اور قطرینہ کیٹ رینا کہلائے۔۔۔
آج بھی اکثر و بیشتر یہ مضحکہ خیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو زبردستی انگریزی کے الفاظ رٹا رہے ہوتے ہیں
"چلو بچو انکل سے شیک ہینڈ کرو"
"بے بی آپ ٹی ڈرنک کر لو"
ماں باپ کو "ہے موم!" اور "ہے ڈیڈ!" کہہ کر پکارنے والے اس پنجابی کو فاؤل ہی کہیں گے جو کہتی ہے کہ
بھائی بھائیاں دے درد ونڈیندے بھائی بھائیاں دیاں بانواں
باپ سراں دے تاج محمد ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
اپنے بولنے والوں کو ماواں ٹھنڈیاں چھاواں کا سبق سکھانے والے بولی اب فاؤل کہلائے گی۔
سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جب کہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہند کو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
سیکولرز کے قبلہ برطانیہ میں پنجابی چوتھے نمبر پر بولی جانیوالی زبان ہے جبکہ کینیڈا میں تیسرے نمبر پر استعمال کی جانے والی زبان پنجابی ہے۔ دنیا میں استعمال ہونے والی زبانوں میں اس کا نمبر دسواں ہے۔
اندازوں کے مطابق اس وقت دنیا میں چار سے چھے ہزار تک زبانیں پائی جاتے ہیں۔ زبانوں کے اس تنوع کو اللہ تعالی نی اپنی نشانی قرار دیا ہے۔ زبان کسی قوم کی تہذیب و تمدن کی اصل آئینہ دار ہوتی ہے۔ غیرت مند قومیں اپنی زبان پر فخر کرتی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انگریز کے غیر معمولی وفادار اپنے کلچر سے زیادہ انگریزی تہذیب و تمدن کے دلدادہ ہیں۔ تہذیبوں کی کشمکش کے اس دور میں ہر کسی کو اپنی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے اور اس کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک کی دیگر تمام زبانوں کی طرح پنجابی زبان اپنے اندر بے شمار معنویت اور زرخیز تمدن رکھتی ہے، حکمت بھرا ادب رکھتی ہے۔ عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنی تہذیب اور ثقافت پر فخر کرتے ہیں جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
پر کون سمجھائے انگریز کے چھوڑے ہوئے وفاداروں کو یہ باتیں کہ جب معاشرے میں قابلیت کا واحد معیار آقاؤں کی زبان جاننا ہی رہ گیا ہو۔ کیا کریں کہ یہ باتیں خاص لوگوں کی ہیں جس بارے میاں محمد بخش نے کہہ رکھا ہے
عاماں بے اخلاصاں اندر خاصاں دی گل کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی