اٹھارہ سالہ نیلی آنکھوں والا نوجوان ارشد خان آگیا اور چھا گیا کے مصداق سوشل میڈیا ہی کیا الیکٹرانک میڈیا کا بھی شہزادہ بنا ہوا ہے، اور تمام چینلز نے ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے. ایک کمپنی نے تو ایک ماڈل کے طور پر ان سےمعاہدہ بھی کر لیا۔ جس طرح اس ان پڑھ، غریب اور سیدھے سادے پٹھان پہ قسمت کی دیوی یعنی میڈیا مہربان ہوا، اسے اٹھایا، چمکایا اور شہرت اور دولت کے سراب کے پیچھے لگا دیا، اس سے غور و فکر کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔
ہندوستان ہی کیا پاکستان اور آگے بڑھ کر پختون نوجوان لڑکیوں کا اس نیلی آنکھوں والے خوبرو نوجوان میں بےباکانہ دلچسپی لینا، اس کےساتھ سیلفیاں بنانا، تصاویر کھینچنا، خوابوں کا شہزادہ ٹھہرانا اور شادی تک کی پیشکش کر ڈالنا، اور وہ بھی میڈیا کے ذریعے، ہمارے معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک جھلک ہے، اور یہ سوال شدت سے سامنے آیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل خاص کر نوجوان لڑکیاں کس ڈگر پر نکل پڑی ہیں؟
اسی طرح بہت بڑے پیمانے پر فوری طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے اس نوجوان کو جس ”باعزت“ اور ”بلند“ مقام پر دیکھنا چاہا اور اس کےلیے باقاعدہ چنا بھی، وہ ہے شوبز کی دنیا۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نوجوان نسل کے رجحانات، خواہشات اور ترجیحات کیا ہیں؟ ایک مسلمان معاشرے میں ماڈلز، فنکاروں اور اداکاروں کو ”ہیروز“ کے طور پر دیکھنا اور انھیں آئیڈیل ٹھہرانا بھی کوئی نیک شگون نہیں۔
یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ ارشد خان نہ صرف انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، صرف 14 سال کی عمر میں محنت مزدوری کرنے پر مجبورا، بلکہ تعلیم کی نعمت سے بھی محروم ہے۔ اس طرح کے لاکھوں بچے غربت کے مارے ہوئے ہیں اور کھیل کود اور پڑھنے کی عمر میں رزق تلاش کرنے اور زندگی کی گاڑی چلانے کی جانگسل جدوجہد پر مجبور ہیں. ایک جانب امراء کی عیاشیاں اور اللے تللے ہیں اور دوسری جانب غریبوں کی حسرت بھری پرمشقت زندگی ہے۔ یہ طبقاتی اور استحصالی نظام اور رویے معاشرے کی تباہی کا موجب بنتے ہیں اور ان کا خاتمہ کیے بغیر خوشحالی اور ترقی پانا دیوانے کا خواب ہے۔
ایک اور نہایت اہم، قابل تشویش اور آنکھیں کھولنے والا پہلو میڈیا کا انتہا پسندانہ کردار ہے۔ معاشرے کے رنگ کو بدلنا ،اس کےمعیارات کے پیمانوں کو تبدیل کرنا، ترجیحات کو بےترتیب کرنا اور فکر و نظر کو متاثر کرنا میڈیا کے مکروہ افعال و اثرات ہیں۔ ارشدخان کے کردار اور واقعے کے تناظر میں میڈیا کے اس طریقہ واردات کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک گمنام اور ان پڑھ نوجوان کو اٹھایا اور معاشرے کے اعصاب پر سوار کر دیا گیا حالانکہ ایسے خوبصورت، سمارٹ اور تعلیم یافتہ نوجوان تو ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں مگر کسی کو گمنامی کی اتاہ گہرائیوں سے نکال کر شہرت کی بلندیوں تک پہنچانا میڈیائی ڈرامے کا کمال ہے۔
کل پرسوں کی بات ہے کہ میڈیا کے ذریعے ہی جعلی ڈائری لکھنے والی ایک گمنام گل مکئی کو کس طرح ملالہ کا روپ دلا کر ”بین الاقوامی شخصیت“ بنا دیا گیا۔ انھیں اقوام متحدہ کے فلور پہ ویسے تو نہیں لا کھڑا کیا گیا۔ بات ذرا تلخ ہے مگر ہے عیاں حقیقت کہ کس طرح جناب عمران خان صاحب کو امیدوں، آرزوؤں، خواہشوں، ارمانوں اور سہانے مسقبل کا سمبل منوایا گیا؟
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کس طرح اس گرے سڑے نظام اور مفاد پرست، خودغرض اور ناکام ترین سیاستدانوں کے خلاف بنے ہوئے ماحول کو ہائی جیک کرایا گیا اور پانامہ لیکس کے ڈسے بھوکے عوام کے ہاتھوں میں نیلی آنکھوں والی خوبصورت گڑیا تھما کر انھیں ورغلایا اور سلایا گیا؟
خلاصہ یہ ہے کہ میڈیا معلومات پہنچانے والا ایک آلہ نہیں رہا بلکہ ایک ہتھیار بن گیا ہے جسے بہت ہوشیاری، چالاکی، عیاری اور مکاری کے ساتھ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے