ہمارے ہاں جن رسومات کو زبردستی شادی کا حصہ بنادیا گیا ہے، ان میں سے ایک رسم منگنی کی بھی ہے۔ منگنی عرف عام میں وعدہ نکاح کو کہتے ہیں جس کی اسلام میں اجازت ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 235 میں اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:
”اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو۔“
یعنی اسلام میں نکاح کا پیغام دینے کی اجازت ہے بلکہ پیغام کے بعد ایک دوسرے کو ایک نظر دیکھ لینے کی بھی اجازت ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انھوں نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔‘‘
لیکن ہمارے ہاں اسے پیغام اور وعدہ سے بڑھا کر ایک رسم کی شکل دے دی گئی ہے۔ سونے کی انگوٹھی، زیوارت اور تحفے تحائف پر اتنی رقم خرچ کی جاتی ہے جس سے کسی غریب کی بیٹی کی شادی ہو جائے۔ لڑکی لڑکے کا ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا، تصاویر بننا، تحفے تحائف دینا اور مرد و عورت کی مخلوط تقریب۔ یہ سب وہ کام ہیں جن کی شریعت میں بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا تو بہت ہی غلط کام ہے کیونکہ شادی سے پہلے مرد عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور نامحرم ہیں اور نامحرم کو چھونا سخت گناہ ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ کسی وجہ سے رشتہ ٹوٹ جائے تو منگنی پر بنائی ہوئی تصاویر کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے، جاننے کی نہیں لیکن یہاں منگنی کے بعد ایک دوسرے سے رابطہ رکھا جاتا ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیا جائے، ملنا ملانا نہ بھی ہو تو بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنا عام سی بات ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے اور شادی کے بعد زندگی خوشگوار گزرتی ہے۔ حالانکہ یورپی ممالک میں شادی سے پہلے ایک دوسرے سے ملنا ملانا عام سی بات ہے وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ کر شادی کرتے ہیں لیکن پھر بھی بہت کم جوڑے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی پوری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ گزاریں ورنہ اکثر کی چند سال بعد ہی طلاق ہوجاتی ہے۔
ہمارے ہاں دو بڑے طبقے ہیں، ایک ان والدین کا جو اولاد کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے اور لڑکے لڑکی کی رائے لینا پسند ہی نہیں کرتے اور اپنی مرضی کے فیصلے ان پر ٹھونستے ہیں۔ دوسری طرف ان بچوں کا جو والدین کی رائے لینا ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ شادی سے پہلے ہی کبھی شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں اور کبھی سیر و تفریح کے لیے۔ والدین بےچارے پوچھنے کی جرات تک نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ دو انتہائیں ہیں، اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔
آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ نکاح کے پیغام کے بعد دونوں گھرانے کھانے یا چائے پر کسی جگہ اکھٹے ہوجائیں، وہاں سب کی موجودگی میں لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں گے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ مگر افسوس ایسا بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں یا تو بالکل بھی دیکھنے نہیں دیا جاتا یا پھر مکمل آزادی دے دی جاتی ہے کہ جیسے مرضی گھومیں پھریں، باتیں کریں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ سنت کے مطابق کریں کیونکہ اللہ نے سنت میں آسانی اور سکون رکھا ہے۔ جس قدر ہماری زندگی سنتوں سے مزیں ہوتی جائے گی اتنا ہی ہماری زندگی میں سکون آتا جائے گا اور ہماری زندگیاں آسان ہوتی جائیں گی کیونکہ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت پر چلنا بہت آسان ہوتا ہے۔
تبصرہ لکھیے