نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ اور ہر اول دستہ ہوتے ہیں. ان کی خودی صورت فولاد ہوتی ہے. ان کا جوش و خروش اور جذبہ و ولولہ قابل دید ہوتا ہے. تقدیر و تدبیر بدلنے کی صلاحیت اہلیت اور قابلیت رکھتے ہوتے ہیں. آمریت کے خلاف جنگ ہو یا جمہوریت کی بقا کی جنگ،قیام پاکستان کی جد و جہد ہو یا تعمیر و تکمیل پاکستان کی کوئی تحریک... نوجوان طبقہ ہر تحریک کا ہر اول دستہ رہے ہیں. دنیا کی تاریخ کے اوراق سے گرد ہٹا کر اس کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر عظیم رہنما کی نگاہ کا مرکز نوجوان ہی تھے. حضرت اسماعیل جوان تھے. جو باپ کے خواب کی تکمیل کے لیے قربان ہونے کو تیار ہو گئے. باپ سے جدا ہونے والے حضرت یوسف جوان تھے، جو زلیخا کے جال میں نہ پھنسے اور مصر کے تخت پر جا براجمان ہوئے. اسماعیل علیہ السلام کی نگاہ بلند تھی. یوسف علیہ السلام کی نگاہ بلند تھی. میں اس مختصر کالم میں کتنے ہیرے گنواوں جو ستاروں پہ کمند ڈال کے مثال بن گئے. جرات و شجاعت کے پیکر حضرت علی ابن ابی طالب، طارق بن زیاد،خالد بن ولید. حسن و حسین رضی اللہ عنہم یہ اعلی ہستیاں ستاروں پہ کمندیں ڈال کر ہی امر ہوئیں. اب تا قیامت ان کے تذکرے بیان ہوتے رہیں گے.
موجودہ حالات میں جب افق پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں. گھپ اندھیرا مایوسی پھیلا رہا ہے. اخباری خبروں کے مطابق ہر روز بیسیوں افراد خود کشی کو اپنے لیے پسند کر کے موت کو گلے لگا رہے ہیں. عجب عالم ہت کہ حکمرانوں کی بے بسی و بے حسی بھی بہت بڑھ چکی ہے. حالات کی کڑی دھوپ نوجوان کے بدن کو چبھ رہی ہے. ایک بڑی تعداد میں نوجوان طبقہ جہالت، منفی سوچ اور تخریب کے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے. ایسے میں نگاہ ان معدود چند نوجوانوں کی طرف جاتی ہے. جو تعلیم،سائنس،ٹیکنالوجی اور کھیل کے میدانوں میں ستاروں پہ کمند ڈالنے کا کام برق رفتاری و تسلسل سے کر رہے ہیں. میرا پیغام دلدل میں دھنسے ان نوجوانوں کے لیے ہے کہ بقول شاعر اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے. اے نوجوان مایوسی و نا امیدی کا طوق گلے سے اتار پھینک،تعلیم و تربیت کو اپنی حیات کا جامہ بنا. ستاروں پہ کمند تب ڈال، کہ جب تو اپنے عزم و ارادے میں چٹان ہو. یہ دنیا تیری بھی اتنی ہی ہے. جتنی یورپ و امریکہ میں بسنے والے جوان کی ہے. جاپان،فرانس، چین،جرمنی، ترکی اور روس میں بسنے والے جوان کی ہے. دبئی،قطر،ایران اور سعودی عرب کے جوان کی ہے. بس ایک فیصلہ تہمی کو کرنا ہے، کہ پستی یا بلندی؟ ناکامی یا کامیابی؟ مایوسی یا امید؟ بلند ہمتی یا کم نظری؟ اندھیرا یا روشنی؟ تعمیر یا تخریب؟...
فیصلہ اے جوان، اب تیرے اپنے ہی ہاتھ میں ہے. تیری تقدیر تیرے عزم و ارادے سے بدل سکتی ہے. امکانات اور مواقع تیرے منتظر ہیں. ایک مضبوط ارادہ اور ایک پختہ یقین تجھے اوج ثریا تک پہنچا دے گا. بشرطیکہ تو اپنی سوچ کو بدلنے پر آمادہ ہو جائے. خدا، فضا اور ماحول اور دیگر عناصر سب کچھ ایسے میں تیرے لئے سازگار و مددگار ہو جائیں گے.
تو پھر اے اقبال کے شاہیں! تو عزم عالی شان پیدا کر اور ستاروں پہ کمند ڈالنے کے لیے ارادہ تو کر. بقول شاعر، فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں قطار اندر قطار اب بھی..
تبصرہ لکھیے