ہوم << سرخرو - نوریہ مدثر

سرخرو - نوریہ مدثر

’’مختار! پتر تجھے یاد ہے نا کل تیرے مامے کی دھی کا ویاہ ہے۔ اللہ بخشے پا صدیق اج اپنی دھی کے ہتھ پیلے کر کے کتنا سوکھا ہوتا۔ تھوڑا اور جی لیتا تو خوشیاں دیکھتا ۔۔‘‘
مجھے آتے دیکھ کے جائے نماز پہ بیٹھی اماں نے تسبیح کے گرتے ذانے روک کے کہا۔میرے سامنے کچے صچن میں کنچے کھیلتا مراد اپنے نایازاد مجید سے لڑ رہا تھا۔اور اپلوں پہ توا رکھے روٹی پکاتی نوری کا دھویں سے کھانس کھانس کے برا حال تھا۔
’’جی اماں، مجھے یاد ہے۔رب سوہنے کا شکر ہے کل نبیلہ کے ویاہ کا فرض بھی پورا ہو جانے گا۔اماں ! تو فکر نہ کر تیرا پتر سب کام چنغے سے کرے گا۔۔‘‘
میں نے چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔
اماں آسماں کو تکتی نجانے کیا کیا دعائیں مانگے جا رہی تھی۔روٹی کھانے کے بعدمیں نے سائیکل نکالی اورکام کی راہ لینے سے پہلے میں نے مراد کے منہ میں نوالے ڈالتے نوری کو دیکھا۔اسی دم اس نے نظر اٹھائی اور حیا سے نظر جھکاتے مسکرانے لگی۔حسب معمول ان سب کا پیٹ پالتے سخت سے سخت کام کرتے بھی میرے گرد اماں کی آسماں کو تکتی دعائیں، مراد کی شرارتیں اور نوری کی مسکراتی نظریں طواف کرتی رہی۔اور میں گھر جلدی جانے کے لئے اپنے ہاتھ تیز چلانے لگا۔آخر کل نبیلہ کا ویاہ تھا اور شام کو مجھے سارے انتظام پکے کرنے تھے۔
..............................................
’’ارے وہ جو وہاں اس کونے میں کھڑا ہے ۔۔ہاں وہی۔وہ کھانا کیوں نہیں کھا رہا؟‘‘
’’وہ کسی سے بات نہیں کرتا۔۔بس چپ چاپ کونے میں پڑا رہتا ہے۔پہلے تو ہر وقت شور شرابہ مچائے رکھتا تھا۔۔قسم سے کم بخت سونے ہی نہیں دیتا تھا ہمیں۔۔وہ تو پھر بڑے صاحب نے ڈنڈے لگائے تو بولتی بند ہوئی اس کی۔۔‘‘
’’پر اس نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’او جی شکل سے تو ایسا نئیں لگتا۔پر کہتے ہیں کہ قتل کیا تھا اس نے۔‘‘
رات کا کھانا کھاتے دو قیدی ایک تیسرے قیدی کی بات کر رہے تھے۔آج اس کوٹھڑی میں آنے والا نیا قیدی ہر قیدی کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہا تھا۔ روٹی کی رکابی پکڑے نیا قیدی اس تیسرے قیدی کے پاس گیا جو ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہیں تھا۔
’’لے پت کھانا کھا لے۔۔دب دی روٹی نوں نا نئیں کری دی۔۔‘‘
آگے سے کوئی جواب نہ سن کہ اس نے رکابی مزید آگے سرکائی۔قیدی نے کھانے پہ سرد نگاو ڈالی اور اپنا رخ دیوار کی طرف پھیر لیا۔
’’او پت روٹی سے کیا غصہ کرنا۔روٹی نئیں کھائے گا تو ۔۔تو مر جانے گا۔۔لے کھاناکھا لے۔‘‘نئے قیدی نے اک اور کوشش کی۔
’’ویسے کون سا زندہ ہوں میں؟مرنے سے بھی بدتر جی رہا ہوں۔۔لے جائو وہ روٹی ۔نہیں کھانااسے۔۔‘‘ قیدی چیخ پڑا۔
’’نہ پت نہ۔۔دب نوں برا لگدا اے۔۔حساب دا کھاتہ خراب نہ کر۔۔‘‘
نیا قیدی آرام سے اسے سمجھائے جا رہا تھا۔
’’اچھا تو جو آسماں مجھ پہ ٹوٹا اس کا حساب کون دے گا؟میرے پیر سے سرکی زمیں کا حساب کہاں ہے؟ بتائو؟جب میری زندگی کا کھاتہ خراب ہورہا تھا تب خدا کہاں تھا۔؟‘‘
اس نے سسکتے ہوئے کہا۔ایسے میں کانسٹیبل نے موٹی سی گالی دی اوراس کی شور نہ مچانے کی بھاری آواز جیل میں گونجنے لگی۔سب قیدی اپنی اپنی چادر کھسکاتے لیٹ گئے یہ دیکھے بنا کو آج یہاں آنے والا نیا قیدی اس سسکتے قیدی کے پاس بیٹھا اپنی انگلیوں پہ کچھ پڑھ رہا تھا۔۔اگلے دن بھی یہی ہوا۔اس نئیقیدی نے خموش قیدی سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہی چیخ چھاڑا شروع ہو گیا۔یہ سلسلہ کئی دن تک چلتا رہا۔نجانے وہ نیا قیدی اس سے کیا چاہتا تھا۔۔پھر کئی روز تک اس کے پاس روٹی کی رکابی لئے کوئی نہیں آیا۔ نیا قیدی بیمار جو تھا۔اس کے دل میں نجانے کیا آئی کہ خود ہی اس نئے قیدی کے پاس آ بیٹھا اور بنا کہے خود ہی اپنی بپتا سنانے لگا۔گہری آنکھوں سے اسے تکتے نئے قیدی کی آنکھیں نم ہوتی چلی گئی۔۔
..............................................
’’پتا ہے دعا مانگتے وقت ہماری نظر آسمان پہ کیوں جاتی ہے۔؟‘‘
پتھر توڑتے میرے ہاتھ رک گئے۔
’’دیکھ انسان نے زمینیں توبانٹ لی ہیں پرابھی تک آسمان نہیں بانٹ پایا۔۔آسمان ابھی تک سب کا سانجھا ہے۔
شاید ہمارا ’’اس ‘‘ کے وعدے پہ کیا جانے والا یقین ہی ہماری نظر وہاں اوپر لے جاتا ہے۔
کہ ہاں وہ دیکھ رہا ہے سب۔جانتا ہے سب۔وہ اپنے وعدے کے خلاف نئیں کرتا ۔‘‘
میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا اور میرے ہاتھ سے ہتھوڑا چھوٹ کے میرے پیر پہ آگرا۔
’’بسم اللہ پت۔ ویکھ کے۔تیرا دھیان کدھر ہے؟اب تیرے حصے کا کام بھی مجھے کرنا پڑے گا۔‘‘
رحمن بابا مجھے اٹھاتے ہوئے کہہ رہے تھے اور آج پہلی بار مجھے اماں کی آسماں کو تکتی وہ دعائیں یاد آ رہی تھی۔
آنسو میری آنکھوں سے بہتے جا رہے تھے۔پیر پہ لگی چوٹ سے کہیں زیادہ تکلیف دل پہ لگی چوٹ سے ہو رہی تھی۔آج اس قید میں ڈیڑھ سال بعد میرا دل اپنے رب کو پہچان رہا تھا۔ٹھیک ڈیڑھ سال پہلے مجھے ناکردہ قتل کے الزام میں جیل میں ڈالا گیا تھا۔میں تو اس شام جلدی گھر آنا چاہتا تھا آخر اس سے اگلی صبح میری بہن نبیلہ کا ویاہ تھا۔
پر مجھے کیا خبر تھی کہ میرے نصیب میں جیل کی سیاہی لکھ دی گئی ہے۔اس پہلی رات میں یہاں بہت تڑپا تھا۔اس کے بعد والی کالی راتوں کا کرب بھی کچھ کم نہیں تھا۔سنوائی پہ سنوائی، پیشی پہ پیشی ہوتی گئی اور انصاف چند نوٹوں کے انبار تلے مسکراتا رہا۔میری رہائی کی منتظر میری اماں اپنی سانسوں سے رہائی پا گئی پر مجھے اس مقدس چہرے کو آخری بار دیکھنے کے لئے بھی رہا نہ کیا گیا۔جس کے روشن کل کا یقین تھا اسی بیٹے کا آج بھی تاریکی میں گم گیا۔اور وہ جس کے پلکوں پہ سجے خواب پورے کرنا کا میرا وعدہ تھا اسے سہاگن ہوتے بھی بیوگی کی چادر اوڑھنا پڑی۔بس تبھی میں خدا سمیت سبھی سے الگ ہو گیا۔
ڈیڑھ سال تک میں مرتا رہا۔پھر یہاں میرے مقدر کی سیاہی دور کرنے کے لئے رحمن نے عبدارحمن کو بھیجا۔رحمن بابا کا جرم بھی میرے جیسا تھا۔اپنے گائوں کے چوہدری کے نکمے بیٹے کو امتحان میں فیل کرنے کی پاداش میںیہاں ڈال دیا گیا۔ہم دونوں کا دکھ ایک تھا پر فرق بس اتنا تھا کہ ان کا والی وارث ، آگے پیچھے رونے والا کوئی نہ تھا اور میرے ساتھ پل پل مرنے کے لئے پورا خاندان تھا۔آج رحمن بابا نے پتھر توڑتے عجب بات کہی تھی۔
اور اس کے وعدے پہ کامل یقین ہی اس نظر کو اوپر اٹھاتا ہے۔
اور اس کے وعدے پہ کامل یقین ہی اس نظر کو اوپر اٹھاتا ہے۔
اور اس کے وعدے پہ کامل یقین ہی اس نظر کو اوپر اٹھاتا ہے۔
اللہ۔۔اللہ۔۔۔اللہ۔۔میرارب۔۔میرے رب کا وعدہ ہے۔۔وہ ہر مظلوم کے ساتھ ہے۔۔وہ اپنے وعدے کے خلاف نئیں کرتا۔۔میرا رب ۔۔اللہ۔۔اللہ۔۔
آنکھوں سا بہتا پانی دل کی تال سے آ ملا تھا۔مجھ پہ وارد ہوئی آگہی کی گونج اقرار رب العرش العظیم کرتی زباں سے جاری تھی۔آج میری روح اپنے عہد الست کو پہچانی تھی۔اس دن کے بعد میرے دل میں سکون کا دریا گہراہوتاچلا گیا۔میرا اپنے رب کے وعدے پہ یقین بڑھتا چلا گیا ۔رحمن بابا کو جیل کے کچے احاطے میں دفن کرتے بھی میرا طواف کرب جاری تھا۔
اور آج ٹھیک انیس سال بعد میں اس جہاں میں سرخروئی کے مقام پہ فائز ہوا ہوں جسے میں نجانے کب کا پیچھا چھوڑ آیاتھا۔
میرا دامن پاک کرنے والے رب العرش العظیم کی گونج چارسو پھیلی ہے۔۔۔مجھے مجھ سے کئے وعدے کی نویدسنائی دی جا ری ہے۔میرے اوراق جنوں پہ سجے سرخروئی کے تارے میرے گرد روشنیوں کا ہالہ بنائے ہیں۔
آج زمین پہ میرے بے گناہ ہونے کی دہائی جا رہی ہے۔مملکت خداداد کی بڑی عدالت کے بڑے منصب اعلی کے نگران چیخ چیخ کے میری بے گناہی کا اعلان کررہے ہیں۔میرے گھر پہ پھر سے کہرام بپا ہے۔ کیونکہ آج ان کے مختار کا دامن پاک ہوا ہے پر ان کا مختار ان کے پاس نہیں۔وہ تو دو سال پہلے ہی اپنے رب کے وعدے پہ کامل یقین رکھے اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔
آج میں اس جہاں میں بھی سرخرو ہوا ہوں جسے میں نجانے کب کا پیچھے چھوڑ آیا تھا۔

Comments

Click here to post a comment