ہر روز کی طرح آج بھی سورج اپنی آب و تاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں سے دنیا کو منور کرنے لگا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی سے راضی ہوتا ہے تو اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اور پھر نوازتا ہی چلا جاتا ہے۔ انھی خوش نصیب لوگوں میں ایک گھر (جہاں کے رہنے والے بہت ہی سادہ طبع اور خوش مزاج تھے) مراد نظامی کا تھا جنہیں لوگ میاں مراد کے نام سے جانتے تھے۔ یہ 14اکتوبر 1963ء کا دن تھا جب اللہ رب العزت نے میاں مراد کو بیٹے جیسی نعمت سے نوازا۔ چھ بہن بھائیوں کے بعد آنے والا یہ بچہ سب کے چہروں پر مسکراہٹ اور گھر میں خوشیوں کی آمد کی وجہ بنا۔ اہل و عیال سے مشورہ کے بعد اس آنے والے ننھے مہمان کا نام اللہ داد رکھا گیا۔ نظامی چونکہ ان کا خاندانی نام تھا اس لیے مکمل نام اللہ داد نظامی رکھا گیا۔ ایک پسماندہ علاقہ جہاں پکی سڑکیں تھیں نہ ٹرانسپورٹ کا نظام، پانی بجلی کی وہ سہولیات تھیں کہ جنہیں بہت بہتر کہا جائے نہ تعلیمی اداروں کی صورت حال بہت شاندار۔ ایسے علاقہ میں میاں مراد نظامی اپنا زرعی ادویات، کھاد اور کھل بنولہ کا کام بہت مناسب انداز میں چلا رہے تھے۔ آپ تقسیم ہند سے پہلے ہی سے اس علاقے کے باسی تھے۔ اس علاقہ کو قصبہ جھوک نوازکہا جاتا ہے جو کہ ضلع وہاڑی میں آتا ہے۔
گھر میں ہر طرف جہاں بیٹے کی آمد کی خوشیاں تھیں وہیں اس کے پیدائشی طور پر پولیو جیسی موذی مرض میں مبتلا ہونے کی پریشانی بھی بہت تھی۔ تاہم والدین کی ہمت اور بہن بھائیوں کی حوصلہ افزائی سے یہ بچہ زندگی کے مراحل طے کرتا گیا اور آٹھویں جماعت تک باقاعدہ سکول بھی جاتا رہا۔ اللہ جب کسی انسان سے کوئی جسمانی صلاحیت لیتا ہے تو اس کے بدلے اسے بہترین صلاحیتوں سے نوازتا بھی ہے، کچھ یہی معاملہ اللہ داد کے ساتھ بھی ہوا، اللہ نے بچپن سے ہی انہیں بہترین عادات و اطوار اور نیک طبیعت کا حامل انسان بنایا۔ مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعد اللہ داد اپنی چلنے پھرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے اور پھر وہ کبھی چلنے کے قابل نہ ہو سکے لیکن اللہ کے اس بندے کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا اور انہوں نے خود کو معذوری کی زندگی گزارنے والو ں میں شامل کرنے کے بجائے اپنی زندگی کو نئے انداز سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی اس بیماری کو اپنی پڑھائی میں رکاوٹ نہ بننے دیا اور میٹرک کے امتحان کی تیاری کرنے لگے اور 1980ء میں امتیازی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ کا داخلہ بھجوا دیا۔ اپنی تما م تر خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ نوجوان جسے ظاہری طور پر لوگ پیدائشی پولیو کا شکار اور بستر پر پڑا ایک مریض تصور کرتے تھے، 1985ء میں اپنی گریجوایشن کی ڈگری لے کر سب کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔
1987ء میں یہ نوجوان جہاں مختلف کتب اور شخصیات کے بارے مطالعہ کرتا ہے وہیں سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی سوچ اور فکر کو بھی پڑھتا ہے اور پھر گویا ان کی سوچ اور فکر کو صحیح معنوں میں سمجھ کر جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار کر لیتا ہے۔ ظاہری طور پر ایک اپاہج اور دوسروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے والے انسان نے اپنی زندگی کو جس انداز میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا، یقینازندگی کو بھی اس انداز اور اس سوچ پر رشک آتا ہوگا۔ بستر پر پڑے اس نوجوان نے سب سے پہلے بچوں کی تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان کے لیے’’ادارہ ٔتقریبات اطفال‘‘ قائم کیا جس کے تحت سکول جانے والے بچوں کے لیے مختلف قسم کی ادبی و سماجی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس ادارے کے علاوہ جھوک نواز میں ہی ’’بلال اسلامک سنٹر‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے تحت ’’مجلس ِ فکر و تدبیر‘‘ عمل میں آئی اور اب تک اس کے تحت بارہ مختلف مجالس کا اہتمام بھی کیا جا چکا ہے۔ ان مجالس میں ملک کے نامور دانشور، علمائے کرام اور عوام کی اکثریت شریک ہوتی تھی۔ اس مجلس کا دورانیہ تین دن کا ہوتا جس کے تمام تر انتظامات یہی اپاہج اور سہارے کا محتاج وراثتی پولیو کا شکار نوجوان کرتا تھا اور سینکڑوں لوگوں کی رہائش اور کھانے کا بھی خوبصورت اہتمام اس کی صلاحیتوں کا نمونہ تھا۔ ان مجالس کے اندر عمومی موضوعات کے علاوہ امت کو درپیش چیلنجز اور ان کے حل اور امکانات کی دنیا پر کھل کر جرح و تنقید کی جاتی تھی۔ سلیقے سے اپنی بات کرنا، دوسروں کی بات کو غور سے سننا اور تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بدرجہ اتم عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے اپنے علاقہ کو قرآن کے نور سے منور کرنے کے لیے ’’مجلس تفہیم و تدریس القرآن‘‘ بھی قائم کیا جس کے تحت بلال اسلامک سنٹر میں قرآنی عربی سکھلانے اور اور قرآن فہمی کو عام کرنے کے لیے اب تک 20 مختلف کلاسز کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔ سینکڑوں لوگوں نے شرکت کرکے قرآنی تعلیمات سے اپنے دل و دماغ کو معطر کیا۔ انہوں نے عوامی خدمت سنٹر کی بنیاد رکھی جس کے تحت 200 سے زائد غریب خاندانوں کی بیٹیوں کے نکاح کا انتظام کیا گیا۔ اسی کے تحت ایک دستکاری سنٹر کی بنیاد رکھی جس میں اپنے علاقے کی بچیوں کو سلائی کڑھائی اور ساتھ ہی دینی تعلیمات کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ان کے علاوہ مختلف میڈیکل کیمپس، آنکھوں کے مفت آپریشن کے کیمپس، علاج معالجے کے لیے لوگوں کا بیرون شہر سفر کے دوران رہائش اور کھانے پینے کا انتظام بھی اللہ داد نظامی نے اپنی ذمہ داریوں میں شامل کر رکھا تھا۔ پسماندگی اور وسائل کی کمی کے باوجود علاقے میں صاف اور تازہ پانی کے لیے ہینڈ پمپس لگوائے۔
زندگی کا یہ عالم کہ ہر اسلامی مہینے کے 13,14,15 تین دن کے روزے رکھنا ان کا معمول تھا، جسمانی معذوری کے باوجود رمضان کے مہینے میں باجماعت نماز تراویح کا اہتمام کرنا اس شخصیت کا خاصا تھا ۔آپ کی کل عمر تقریباً 53 سال تھی جس میں سے 15 سال کم و بیش آپ چلنے پھرنے کے قابل رہے، بقیہ 38 سالوں میں جتنا کام ایک معذور اور اپاہج انسان نے کیا، وہ بہت ہی کم اور عزیمت و حوصلے والے لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ یہی کام بہت سے وسائل رکھنے والے، ہاتھ اور پائوں رکھنے والے کرنا تو دور سوچ بھی نہ سکے۔ راہ حق کا یہ مسافر اپنے حصے کا کام مکمل کرنے کے بعد 10ستمبر 2016ء بروز ہفتہ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا جہاں سب کو جانا ہے لیکن اے کاش! کہ سب کا نامۂ اعمال ان کی طرح کا ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی سعادت بھری زندگی کو قبول فرمائے۔ آمین
(نصراللہ گورایہ اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلی ہیں)
تبصرہ لکھیے