ہوم << نئے طوفانوں کی آمد کا سندیسہ - فیض اللہ خان

نئے طوفانوں کی آمد کا سندیسہ - فیض اللہ خان

10525943_1543930889188656_8708287563584166301_nیقیناً آپ میں سے بیشتر احباب نے برہان الدین وانی کا تذکرہ آج سے پہلے زیادہ نہیں سنا ہوگا، ویسے ہمارے اپنے مسائل ہی اتنے گھمبیر ہیں کہ وانی و کشمیر کو کیوں اور کون توجہ دے یا یاد رکھے؟
جب ہماری اکثریت شمس الحق افغانی و اشرف ڈار اور علی محمد ڈار جیسے مجاہدین کو نہیں جانتی، پھر ایسے میں وانی تو کل کا بچہ تھا جسے جوان ہوئے بمشکل چند ہی برس گزرے تھے۔۔۔
یہ لگ بھگ ڈیڑھ دو برس پرانی بات ہے کہ سوشل میڈیا پہ بندوقیں سنبھالے کچھ کاری ضرب لگانے والے خوبرو نوجوانوں کی تصاویر پوسٹ کی گئیں۔ بے داغ شباب اور ہند کی غاصب فوج سے پنجہ آزمائی کا عزم رکھنے والے حزب المجاہدین کی نئی نسل کے عسکریت پسندوں کی تصویروں اور ویڈیوز نے کشمیر و ہند میں ہلچل مچادی۔ برہان الدین وانی ان ویڈیوز میں مرکزی حیثیت کا حامل نوجوان تھا، جس کی مختصر گفتگو نے نوجوانوں میں نئی روح پھونک دی۔ وادی میں وانی وانی ہونے لگی۔ پاکستان کے کشمیر سے جڑے حلقوں میں اسے گہری دلچسپی سے دیکھا گیا۔ یہ تمام نوجوان کشمیر سے ہی تعلق رکھتے تھے جو صرف تصاویر ہی نہیں کھنچواتے تھے، بلکہ ہندی افواج کی کھال کھینچنے کا بھی عزم و ارادہ رکھتے تھے۔۔۔
ہندی افواج نے وانی اور ساتھیوں کی تلاش شروع کردی، لیکن کامیابی نہ ملی۔ وانی جیسے تو دلوں کے حکمران ہوتے ہیں۔ سو ہر کشمیری کا گھر وانی کی جائے پناہ قرار پایا۔ اس دوران یہ شیر صفت ہندی افواج پہ جھپٹتے پلٹتے اور پلٹ کر پھر جھپٹتے، موت کا یہ کھیل جاری تھا۔ یہاں تک کے کئی سپاہیوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد گزشتہ دنوں وانی ایک فوجی مقابلے کے بعد اپنی منزل مراد کو پاگئے جس کے لیے وہ بیتاب تھے، بیقرار تھے اور کئی بار خواہش کا اظہار کرچکے۔۔۔
وانی کا جنازہ فقید المثال تھا۔ آزادی کے متوالے اس جذبے سے شریک ہوئے کہ دلی سرکار کے چودہ طبق روشن ہوگئے، یہاں تک کہ سرینگر میں کرفیو لگاکر ہی جان بخشی ہوئی۔۔۔
کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کشمیری ہم سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں؟ جرات و استقامت کے روشن ستارے سید علی گیلانی کو کبھی سنا ہے؟ اس کی روداد قفس پڑھی ہے؟ اس کے علم، عمل اور جدوجہد سے آگاہ ہونے کی کوشش کی؟ اس بوڑھے کی آواز میں نجانے کیاجادو ہے کہ پورے کشمیر میں آزادی کا الاؤ بھڑکادیتا ہے۔ وانی جیسے نوجوان اسی سید گیلانی کے مکتب آزادی کے شاہین ہیں جو پاکستان سے محبت کی آگ دل میں لیے ہند سے ٹکراتے ہیں۔۔۔
کتنی حیرت کی بات ہے نا کہ کشمیری عید ہمارے ساتھ کرتے ہیں۔ کرکٹ میچ ہو تو وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں دھماکے ہوں کشمیری و ترک مغموم ہوجاتے ہیں۔۔۔
اتنی محبت؟ ایسی تو شاید ہم بھی نہ کریں اس دیس سے، جس کی کبھی قدر نہ کی۔۔۔
کشمیر سے عشق میرے رگ و پے میں ہے۔ کئی پیارے دوست وہاں ردائے خاک اوڑھے سوتے ہیں۔ 2000ء میں وادی نیلم شادرہ اور مظفر آباد میں گزارا وقت ہمیشہ کے لیے ذہن میں جگہ بنا گیا ہے۔ وہ بھیگتی شام نہیں بھولتی جب دریائے نیلم کے کنارے لکڑی کے مکان میں دوستوں کے ساتھ رکے تھے۔۔۔
یہ وہی کشمیری ہیں جنہیں ایک زمانے میں بزدلی کے طعنے دئیے جاتے تھے۔ آج جہاد آزادی کی شاہراہ پہ یوں گامزن ہیں کہ تاریخ پہ نظر رکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں داب لیتے ہیں۔۔۔
ہند نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دی، کشمیری سلجھے و تعلیم یافتہ ہیں، اچھا روزگار یا کاروبار کرتے ہیں۔ بظاہر ہند میں انہیں کوئی مشکلات نہیں اور اگر وہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم وادی میں لہرانا ترک کردیں تو ہندی حکمران ان کے پیر دھو دھو کر پینے کو تیار ہیں، لیکن کیا کیجیے کہ جذبہ عشق و مستی نے انہیں پاکستان کا دیوانہ بنارکھا ہے۔ باجود اس کے کہ ہم بدعنوان ہیں، سست ہیں، ترقی معکوس کا شکار ہیں، تعلیمی کارکردگی قابل افسوس ہے، معاشی ناہمواری کا سفر مدت سے مقدر ہے، لیکن ان دیوانوں کی محبت کا کیا کریں؟ جو ہر پل مملکت خداداد پاکستان پہ مرمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔۔۔
پاکستان کا پرچم، سرینگر کی گولیوں سے اٹی گلیوں میں ہندی افواج کے سامنے لہرانا گویا ان کا جنوں ہے جس کی قیمت لہو کا خراج دے کر ادا کرنے کے باوجود جنوں جنوں ہی رہا، کم نا ہوا۔۔۔
عالمی دباؤ برداشت سے باہر ہوا تو پاکستان نے کشمیریوں کی مدد سے ہاتھ اٹھالیا اور یہ تب ہوا جب ایک لاکھ کشمیری جانیں قرباں کرچکے، لاکھوں زخمی و لاپتا ہوئے۔ بیوہ عورتیں و یتیم بچے کشمیری معاشرے میں نمایاں ہوئے اور ایک خون آلود تاریخ رقم ہوچکی۔۔۔
آزادی کا یہ جوش ہند کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے کو تیار ہے۔ تحریک کی پشت سے پاکستان کے پیچھے ہٹنے کے بعد ہند مطمئن تھا کہ اب اس کا خاتمہ دنوں کی بات ہے، مگر یہ دن یوں طویل ہوئے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ کشمیر کے باسیوں نے اپنے خون سے وہ شمع روشن کی ہے کہ اسے بجھانا ان کے بس ہی میں نہیں رہا اور یہی وہ آزادی کا عشق ہے جو اپنی منزل مقصود تک ضرور پہنچے گا۔۔۔
سید مودودی کے مکتب کے فیض یافتہ وانی جیسے شیر دل ماتھے پہ کلمہ طیبہ کی پٹی سجائے ہندو پاک کو پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان سے ان کی محبت زمین کی نہیں بلکہ نظریئے کی بنیاد پہ ہے۔ عظمتوں والے رب ذوالجلال کی قسم! اس نظریئے کو کوئی اسلامی یا غیر اسلامی طاغوت شکست نہیں دے سکتا۔۔۔
کیا سید علی گیلانی کے نعرے پاکستان سے رشتہ کیا، لا الہ الا اللہ کے سوز نے آپ کے قلب کو پاش پاش نہیں کیا؟؟
سرگوشیاں کرتے ہمالہ کے کہسار، سلگتے چناروں سے کہہ رہے ہیں کہ اس دھرتی کے فرزندوں کا جذبہ، ہند کی ظلمت سے سورج کو رہائی دلا کر ہی رہے گا۔۔۔
بحر ہندو خلیج بنگال کا اضطراب نئے طوفانوں کی آمد کا سندیسہ لایا ہے، ہے کوئی اس پیغام کو سمجھنے والا؟

Comments

Click here to post a comment