ہوم << بلاول بھٹو اور پاکستان کے نوجوان ووٹرز - محمود شفیع بھٹی

بلاول بھٹو اور پاکستان کے نوجوان ووٹرز - محمود شفیع بھٹی

محمود شفیع پاکستان پیپلزپارٹی خود کو جمہوری روایات اور اخلاقیات کی امین جماعت کہتی ہے۔ اس جماعت کا نام عوام سے محبت اور عوامی سیاست سے تعلق کی وجہ سے پیپلزپارٹی رکھا گیا لیکن یہ جماعت اپنے قیام کے چند ماہ بعد ہی عوامی ڈگر سے ہٹ گئی۔ قومیانے کے نام پر سیاسی انتقام شروع کردیا گیا جس کے اثرات آج بھی ہماری صنعت پر ہیں۔ ذوالفقار بھٹو صاحب جو اپنے دوٹوک مؤقف کی وجہ مشہور تھے اور ان کا اصل ہتھیار ان کا طرز خطابت اور عوامی انداز تھا، ان کی قابلیت پر تو کوئی شک نہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ میں کس کس نے حصہ ڈالا تھا۔ پیپلز پارٹی کی روح کی تو اس وقت موت ہوگئی تھی جب بھٹو صاحب کی موجودگی میں اس جماعت میں کثیر تعداد میں وڈیرے جمع ہوگئے تھے اور سیاسی فیصلے بھی ان کی منشاء کے مطابق ہونے لگے تھے۔
محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی جماعت کو بام عروج تک پہنچایا لیکن بی بی بھی جاگیرداروں کی اجارہ داری اور ان کی ہٹ دھرمی سے مجبور تھیں۔ محترمہ کی شہادت کے بعد جہاں پارٹی کرپشن کا گڑھ بنی وہاں غیر نظریاتی لوگوں کی بھی بھرمار ہوئی جس سے پارٹی کا وہ جیالا جس نے ضیاء دور میں کوڑے کھائے تھے، متنفر ہوکر ساتھ چھوڑ گیا۔ موجودہ پارٹی اور بھٹو کی پارٹی میں بہت فرق ہے۔ آج کے نظریات صرف جی حضوری پر قائم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس جماعت کو ضیاء کی آمریت نہ ختم کرسکی، زرداری نے اس کو ختم کر دیا۔ آج جہاں پی پی کا امیدوار کھڑا ہوتا ہے اس کی ضمانت ضبط ہو جاتی ہے۔ عوام نے اس جماعت سے کیا منہ موڑا اس کی بنیادی حیثیت ہی ختم ہوگئی۔ آج یہ جماعت سیاسی طور پر ایک علامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پیپلز پارٹی آج پنجاب میں سوائے پریس کانفرنس کے کہیں کھڑی نظر نہیں آتی۔ پنجاب کے ووٹرز کا یہ خاصا رہا ہے کہ وہ تیسری قوت کی طرف نہیں جاتے۔ پنجاب میں آج صرف ن لیگ اور تحریک انصاف کےدرمیان مقابلہ ہے۔bilawal-bhutto-zardari بلاول بھٹو جو نوجوان، پڑھے لکھے اور سمجھدار بھی ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کا نوجوان ووٹر ان کو جگہ دے گا؟ بلاول کی سیاسی ملاقاتیں اور پریس کانفرنسز سے کیا یہ نوجوان مطمئن ہوگا؟ آج عوام صرف ن لیگ اور عمران خان کی جانب دیکھ رہی ہے۔ بلاول جن سیاسی قائدین سے ملاقاتیں فرما رہے ہیں، کیا ان کو عوام پذیرائی دیتی ہے؟ بلاول غدار وطن لوگوں کو انکل کہہ رہا ہے، اس ملک کا وہ نوجوان جو عمران خان کی وجہ سے شعور یافتہ ہوا، کیا وہ اس طرح کے طرزعمل سے متاثر ہوگا؟
گزشتہ کچھ عرصے سے پیپلزپارٹی میں ٹھہراؤ آگیا تھا لیکن بلاول کی بچگانہ سیاست اور عمران خان کے دوٹوک مؤقف کی وجہ سے پی پی کا گراف پہلے سے زیادہ نیچے جا چکا ہے۔ پاکستان کا وہ نوجوان جس کو موروثیت سے نفرت ہے، کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے، سیاست میں برابری چاہتا ہے اور لیڈر تک اپنا مؤقف پہچانا چاہتا ہے، وہ کیسے محترم بلاول کی جماعت سے متاثر ہوگا، جس میں اس کی دادا کی عمر کے لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہوکر اس کی ہر غلط بات کو بھی سراہ رہے ہوں، کرپشن کو جمہوریت سے تشبیہ دے رہے ہوں اور ایک بچے کو اپنا لیڈر کہہ رہے ہوں۔ اس جماعت سے کس طرح نوجوان متاثر ہوگا؟
پاکستان کا نوجوان ووٹر آج بھی عمران خان کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے کیونکہ یہاں ان کو امید ہے، تمنا ہے۔ بلاول اگر پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے رضاکارانہ طور پر چئیرمین شپ سے استعفی دیں اور کسی نظریاتی بندے کو معاملات سونپیں۔ دوسری بات بلاول اپنا طرزعمل جمہوری کریں اور پارٹی الیکشن کروائیں۔ پارٹی کے نعروں سے جئے بھٹو وغیرہ ختم کریں کیونکہ نوجوان نسل کو بھٹو سے کیا لینا دینا؟ پارٹی کے تنظیمی معاملات میں دخل اندازی ختم کریں اور میرٹ کو بنیاد بنائیں۔ عمران خان طرز پر اپنے وزراء شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم اور دیگران بشمول زرداری صاحب احتساب کے عمل سے گزاریں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ پیپلز پارٹی بھی سنجیدہ ہے۔

Comments

Click here to post a comment