والدین کے حقوق کیا ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کا ایک جملہ کا فی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم پر والدین کے کیا حقوق ہیں ؟محمدﷺ نے ایک جملے میں جواب دیا کہ
”تیری جنت اور دوزخ ہیں۔“
اس جملے میں بہت گہرائی ہے یعنی والدین کی خدمت اور ان کی حقوق کی ادائیگی ہی ہمیں جنت تک لے جائے گی اور اگر ہم ان حقوق سے غافل رہے تودوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ کا سامنا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ان ہستیوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے اور انہیں ”اف“ تک نہیں کہنا چاہیے۔ اللہ پاک بتاتے ہیں کہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ نہ کرنا اور ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی۔ پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لیے اپنے بازوپست کر دیتا ہے یعنی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور شفقت والا معاملہ کرنا چاہیے اور ان کی اس طرح کفالت کریں جس طرح انہوں نے بچپن میں ہماری کفالت کی۔ پرندہ جب اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلاتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازوؤں کو پست کر لیتا ہے، اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔
اپنے والد سے اچھا سلوک کرنے کے علاوہ حضور نبی کریم ﷺ نے یہاں تک ہدایت کی ہے کہ یہ بھی نیکی ہے کہ لڑکا اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے۔ اچھے سلوک کرنے کے لیے مخاطب چاہے جو بھی ہوآپ کو خندہ پیشانی سے اور عمدہ طریقے سے پیش آنا چاہیے ۔ایک صحابی کی والدہ کافر تھی، حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیااس سے بھی اچھا سلوک کیا جائے، آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اللہ پاک کہتے ہیں کہ دنیا کے کاموں میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔ وہ اگر غیر مسلم ہو تب بھی وہ آپ کے والدین ہیں، ان کا آپ پر یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آئیں اور ان کاخیال رکھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ یا رسولﷺ میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے فرمایا کہ تمہاری ماں۔ اس صحابی نے پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا کہ تمہاری ماں۔ صحابی نے پھر پوچھا اس کے بعد؟ فرمایا کہ تمہاری ماں۔ صحابی نے پھر سے پوچھا کہ اس کے بعد؟ محمد ﷺ نے جواب دیا پھر تمہارا باپ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے اب تیرا جی چاہے اسے گرا دے اور جی چاہے قائم رکھ۔
ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”خاک آلودہ ہو ناک اس کی، پھر خاک آلودہ ناک اس کی جو اپنے ماں باپ کو بوڑھا پائے دونوں کو یا ان میں سے ایک کو پھر جنت میں نہ جائے۔“ یعنی یہ ایک انہتائی بڑا موقع ہے جنت جانے کا، راستہ پاس ہی ہے لیکن راستہ معلوم ہونے کے باوجودہ جنت حاصل کیوں نہ ہو؟
منور رانا انڈیا کے ایک مشہور شاعر ہیں، انہوں نے ماں کی عظمت پر بہت ہی لاجواب اور قابل ستائش شاعری کی ہے۔ ان کی ایک نظم ”ماں“ یہاں پیش ِخدمت ہے۔
اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا
ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہو گیا
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے.
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے.
بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشاں چھوا
اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھوا
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی.
بلندی دیر تک کس شخص کے حصے میں رہتی ہے.
بہت اونچی عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے.
بہت جی چاہتا ہے قید جہاں سے ہم نکل جائیں
تمہاری یاد بھی لیکن اسی ملبے میں رہتی ہے.
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں ماں سجدے میں رہتی ہے
میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاؤں
ماں سے اس طرح لپٹ جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں
کم سے کم بچوں کے ہونٹوں کی ہنسی کی خاطر
ایسی مٹی میں ملانا کہ کھلونا ہو جاؤں
مجھ کو ہر حال میں بخشے گا اجالا اپنا
چاند رشتےمیں نہیں لگتا ہے ماما اپنا
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹا اپنا
عمر بھر خالی یوں ہی ہم نے مکاں رہنے دیا
تم گئے تو دوسرے کو کل یہاں رہنے دیا
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پر لکھا شبد ماں رہنے دیا
تبصرہ لکھیے