ہوم << کیا کارپوریٹ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلا سکتا ہے؟ آصف محمود

کیا کارپوریٹ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلا سکتا ہے؟ آصف محمود

آصف محمود ایک ایسے وقت میں جس سماج کی پور پور لہو ہو چکی ہے، اپنے ناتراشیدہ میڈیا کی شوخیاں دیکھتا ہوں تو ایک سوال دامن گیر ہو جاتا ہے: کیا کارپوریٹ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جا سکتا ہے؟
ابھی کل کی بات لگتی ہے کوئٹہ لہو میں نہا گیا۔ اداسی کی لہر تھی جو وجود میں اتر گئی۔ کیا اہلِ سیاست، کیا اہلِ مذہب سب کو میں نے اداس دیکھا۔ دن امیدو یاس کی ملی جلی کیفیات میں گزر گیا۔ پھرسائے ڈھلنا شروع ہوئے اور مارگلہ کے دامن میں شام اتر آئی۔ ٹی وی آن کیا کہ کیا چل رہا ہے، اہلِ دانش کیا مضامین باندھ رہے ہیں، وہاں مگر وہ طوفانِ بدتمیزی تھا کہ چند ہی لمحوں میں سماعتیں چٹختی محسوس ہوئیں اور پھر ابلیس یاد آیا۔ یاد کیا آیا پوری شدت سے یاد آیا۔ میں رات گئے سوچتا رہا اس وقت ابلیس کیا کر رہا ہو گا۔ اگر وہ پاکستانی چینلز دیکھ رہا ہے تو لازماگنگنا بھی رہا ہو گا: ’’باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک۔‘‘
سماج سکتے کی کیفیت میں تھا لیکن چینلز پر مسخرہ پن جاری تھا۔ ادھر ادھر سے بھانڈ اکٹھے کر کے بٹھاے گئے تھے جو معاشرے کی نفسیاتی کیفیات سے لاتعلق ہو کر جگتیں مار رہے تھے اور بغلیں بجا رہے تھے۔ میک اپ ذدہ سپاٹ قسم کے روبوٹ چہرے، بلاوجہ کی بتیسیاں، مصنوعی قہقہے،سفلانہ فیشن کی جملہ بے ہودگی، مطالعے اور تحقیق کے ذوق سے محروم اینکر جو حاملہ گیدڑ کی طرح چیخیں مارتے ہیں اور اسے اپنا بانکپن سمجھتے ہیں۔ جو اس بات سے یکسر بےنیاز تھے کہ وہ اس عالم میں مسخرہ پن جاری رکھے ہوئے ہیں جب کوئٹہ اپنے مقتولوں کی تدفین میں مصروف ہے۔ برس بیت گے امام الہند نے کہا تھا: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آج محسوس ہوتا ہے صحافت کا سینہ بھی دل سے خالی ہو چکا ہے۔ سینے میں دل نہیں رہے، آنکھوں سے حیا اور وضع اٹھ گئی، اب صرف ڈگڈگیاں بجتی ہیں۔
ایک چینل پر رپورٹ چل رہی تھی، کوئٹہ کچہری میں لاشے بکھرے تھے، وکالت کا چند روز قبل آغاز کرنے والی ایک بیٹی بھی لقمہ اجل بن گئی، اس کا دکھی باپ اور خون روتی ماں، دل لہو سے بھر گئے۔ دل سے آہ نکل گئی لیکن کارپوریٹ میڈیا ایک لمحے میں نئی جست بھر چکا تھا۔ سکرین پر اب تھرکتے جسم تھے اور بوس و کنار کرتے روشن خیال خواتین و حضرات۔ دیکھنے والے ابھی قتل عام کے سکتے میں تھے اور چینل ایک اور قلانچ بھر کر ایک نیا بے ہودہ منظر دکھا رہا تھا۔ یہ مناظر دیکھے تو متلی سی ہونے لگی۔ کراہت آنے لگی۔ میں سوچنے لگا ہماری کچھ روایات اور اقدار ہوتی تھیں وہ کیا ہوئیں؟ آج بھی پڑوس میں لاشہ پڑا ہو تو محلے میں قہقہہ نہیں گونجتا۔ ہم تو جذبات و احساسات کا احترام کرنے والے لوگ تھے۔ ہمارے ہاں جنازہ جا رہا ہو تو لوگ اپنی سواری روک کر اس سے اتر کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حادثات ہمارے ہاں معمول بن گئے۔ بلاشبہ میڈیا نے اپنے مختلف پروگرامز تو دکھانے ہیں وہ ان کو روکنا شروع کر دے تو حادثہ تو روز ہو رہا ہے، وہ کب تک ان کو روکے رکھے۔ لیکن جس روز حادثہ کی نوعیت ایسی ہو کہ پورا سماج سکتے کی کیفیت میں ہو، کم از کم اس روز تو ایسے پروگرامز سے اجتناب کیا جا سکتا ہے جو دل آزاری کا باعث بنیں۔
ہمارے ارباب صحافت کی بےشرمی کا عالم یہ ہے کہ اخبارات کا اوپر والا آدھا صفحہ مذہب کے لیے مختص ہوتا ہے اور اس میں پردے کے شرعی احکامات بتائے جاتے ہیں تو نیچے بپاشا باسو کے بوس و کنار اور کرینہ کپور کے زیرو سائز کے فضائل میں نصف صفحہ مختص ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے: کارپوریٹ میڈیا کی اپنی ضروریات ہیں۔ اسے آپ سے، آپ کی روایات سے، آپ کی اقدار سے، آپ کے احساسات سے، آپ کے دکھ درد سے، آپ کے جذبات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اس کا اولین مقصد اپنے کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ مفاد کرینہ کے زیرو سائز کی تشہیر سے پورا ہو یا ودیا بالن کے کسی نئے معاشقے کی تفصیل سے، اسے ہر قیمت میں اس مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ کہیں سے کسی پراجیکٹ کے لیے دھن برسنا شروع ہو جائے تو میڈیا کو اس پراجیکٹ کی شان نزول سے کوئی واسطہ نہیں، اسے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ مطالبہ کرنے والے کی تجوری کا سائز کیا ہے۔ اگر وہ تجوری اتنی بھاری بھر کم ہو کہ کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کر سکے تو پھر میڈیا کو بالعموم ’فروعی‘ باتوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ پوری دل جمعی سے نئے ٹاسک پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے۔
یہ کارپوریٹ میڈیا کے کمالات ہیں کہ وہ عامر لیا قت حسین جیسے کردار کو عالم دین کہہ کر متعارف کراتا ہے۔ مذہب تک کو اس میڈیا نے کمرشلائز کر دیا ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آتا ہے تو میڈیا اس مہنیے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسے ایک تہوار کا رنگ دے دیتا ہے کیونکہ یہ اس کے کارپوریٹ مفادات کا تقاضا ہوتا ہے۔ رمضان اللّٰہ اور اس کے بندے کے تعلق کو از سر نو استوار کرنے کے اہتمام کا نام ہے۔ اعتکاف کا فلسفہ کیا ہے؟ یہی کہ بندہ دنیا سے ایک طرف ہو کر یہ دن اپنے اللہ کے لیے وقف کر دے، لیکن کارپوریٹ میڈیا آخری عشرے کے تقدس کو عید کی تیاریوں کے نام پر پامال کر دیتا ہے۔ یہ مختلف مذہبی ایام کی مناسبت سے اپنا کارپوریٹ کلچر بدلتا رہتا ہے۔ اسے ان ایام سے کچھ نہیں لینا، اسے ان ایام سے صرف اپنا کارپوریٹ مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔
اب سماج کو سوچنا ہوگا کہ کیا آزادی صحافت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنی جملہ اقدار اور روایات سمیت میڈیا کے چند ناتراشیدہ احباب کے ہاں رہن رکھ دیا جائے؟ پورا معاشرہ میڈیا کے ہاتھوں لاشعوری طور پر پسپائی اختیار کر رہا ہے اور یہ ایک انتہائی بیمار نفسیات کا حامل رویہ ہے۔ ایک زندہ معاشرے میں میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ایک زندہ معاشرہ اپنی جملہ اکائیوں کی نفی کر کے سب کچھ میڈیا کے قدموں میں نہیں ڈال سکتا۔ بہت خطرناک رویے ہماری دہلیز پر دستک دے رہے ہیں، ہمیں فکری بلوغت کا ثبوت دینا ہوگا۔ اہلِ دانش کسی بھی سوسائٹی کا اہم ترین جزو ہوتے ہیں۔ آج یہ اہم ترین طبقہ پسپا ہو چکا ہے۔ اب میڈیا خود ’ اہلِ دانش‘ بن چکا ہے۔ میڈیا نے دانشور کی ایک نئی تعریف وضع کر لی ہے۔ اب دانشور صرف وہ ہے جو کالم لکھتا ہے یا ٹاک شو کا میزبان ہے، اس کی علمی قابلیت، اس کی تحقیق، اس کا متعلقہ شعبے میں تجربہ، یہ سب قصہ ماضی ہو چکا۔ اب معیشت ہو یا امور خارجہ، متعلقہ شعبوں کے ماہرین، پروفیسرز، ڈاکٹرز کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ میڈیا کے اپنے ’’سینئر تجزیہ نگار‘‘ ہیں جو دنیا کے تمام امور کے ماہر ہیں۔ یہ آپ کو بتائیں گے کرکٹ کیسے کھیلتے ہیں، یہی آپ کی رہنمائی کریں گے کہ بلا سود معیشت کی بنیاد کیسے رکھی جائے گی، یہی آپ کو سمجھائیں گے کہ امریکہ سے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ قلم سے ازار بند ڈالتے ڈالتے جس نے دو کالم اور تین نظمیں لکھ لیں وہ محقق، ادیب اور دانشور بن گیا۔ اب وہ تیسرے درجے کے اخبار میں چوتھے درجے کے اسلوب میں کالم لکھ کر اوبامہ کو بھی مشورے دیتا پایا جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔
میڈیا کے بارے میں سماج کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اگر معاشرے کی فکری طور پر موت واقع نہیں ہو چکی تواس سوال پر ابھی سے غور کر لینا چاہیے۔ سوال وہی ہے: کیا کارپوریٹ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہلا سکتا ہے؟

Comments

Click here to post a comment