ہوم << سکوک کا باندر کلہ اور میڈیا کے استرےباز - رضوان الرحمن رضی

سکوک کا باندر کلہ اور میڈیا کے استرےباز - رضوان الرحمن رضی

رضوان رضی گذشتہ دنوں پاکستان کے ایک ٹی وی پر نظر پڑی جس میں ایک صاحب اس امر کا رونا روتے پائے جا رہے تھے کہ حکومت پاکستان نے اب ریڈیو پاکستان کی عمارت، موٹروے اور دوسری اہم ملکی قیمتی اثاثوں کے عوض قرض لینا شروع کر دیا ہے اور اس طرح یہ حکومت پورا ملک بیچ دے گی اور آخرکار جس طرح ایسٹ انڈیا نے برصغیر پر قبضہ کیا تھا اسی طرح عین ممکن ہے کہ قرض دینے والے ممالک اور ادارے جن سے یہ قرض لیا جا رہا ہے وہ بھی پاکستان کے ان اثاثوں پر قبضہ کر لیں۔ بس پھر کیا تھا سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا اور ریاست پر تبریٰ بازی اور چاند ماری کا آغاز ہو گیا۔
خاکسار گزشتہ ایک دہائی سے یونیورسٹی کی سطح پر ’کاروباری صحافت‘ کا مضمون پڑھا رہا ہے۔ یہ مضمون ہماری تجویز پر ہی ہماری آبائی مادرِ علمی (جامعہ پنجاب) میں متعارف ہوا اور اب تک کئی صحافی یہ مضمون اپنی صحافت کی ڈگری کے لازمی حصے کے طور پر پڑھ کر عملی زندگی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن اس وقت ہمارے میڈیا کی موجودہ صورتِ حال دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید ہم نے ان دس سالوں میں جھک ہی ماری ہے۔
ہمارے ابلاغی منظرنامے میں ٹیلی ویژن کی آمد نے جہاں دوسرے رحجانات کو جنم دیا ہے، وہاں یہ قباحت بھی درآئی ہے جس کے تحت صحافیوں کے شعبہ ہائے تخصیص ختم کر دیے گئے ہیں۔ تین شفٹوں میں کام کرنے والے اس شعبے میں جب بھی کوئی قابلِ رپورٹ واقعہ یا خبر آتی ہے تو جو بھی صحافی ڈیوٹی پر دستیاب ہوتا ہے، وہ اس کو کرنے چل پڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے جب اس کو اس شعبے کے الف ب کا بھی نہیں پتہ تو پھر وہی کچھ ہوگا جو اب ہورہا ہے۔ ہرصحافی کو ہر شعبے کا ماہر بنانے کا نتیجہ نکلا ہے کہ کوئی صحافی کسی شعبے کی بنیادی شدبد حاصل نہیں کر پاتا ہے اور ملکی اور قومی مفادات کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہتا ہے جو اب ہورہا ہے یعنی ’’کھلواڑ‘‘۔ اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستانی صحافت اپنی اعتباریت کے نچلے ترین درجے تک پہنچ چکی ہے۔
اقتصادی صحافت ہمیشہ سے ہی ایک تخصیصی شعبہ رہی ہے اور کبھی بھی کسی سیاسی عامی صحافی کو اس میں منہ مارنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے کو ہمیشہ ہی طبقہ اشرافیہ کی صحافت کہا جاتا ہے اور اس شعبے میں تخصیص کا حامل رپورٹر اپنی پوری ٹیم میں امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔
پاکستان کا ایک پورا مالیاتی نظام ہے جو بین الاقوامی مالِ زر سے منسلک ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان اس کا مرکزی نکتہ ہے۔ وفاق میں سٹیٹ بینک کو وہی حیثیت ہے جو گھر میں حساب کتاب رکھنے والی امی یا دادی کو ہوتی ہے۔ سٹیٹ بینک ریاست کے تمام مالی، معاشی اور اقتصادی معاملات پر نظر رکھتا ہے اور اباجی (یعنی حکومت) کو بتاتا رہتا ہے کہ گھر میں کتنے پیسے بچ گئے ہیں اور ادھار کس سے پکڑنا ہے اور کس نے نہیں اور اگر ’’منے‘‘ کی سمیسٹر فیس آن پڑی ہے تو وہ کہاں سے ادا ہو گی؟
جہاں تک ریاست کے روزمرہ مالی معاملات چلانے کی بات ہے تو مرکزی بینک ہر دوسرے یا تیسرے ہفتے سرمایہ کاری بینکوں سے قلیل مدتی سے لے کر طویل مدتی تک، ہر سطح کے قرض لیتا ہے۔ یہ قرض اربوں روپے میں ہوتے ہیں جو سرکاری اور غیر سرکاری بینک سٹیٹ بینک کے ذریعے ریاست کو دیتے ہیں، اور یہ کام کوئی یونہی ایک معمول میں چلتا رہتا ہے خواہ وفاق میں جیسی بھی فوجی، سیاسی، نیم سیاسی یا نیم فوجی حکومت برسرِ اقتدار ہو۔ جب ٹیکسوں کی مد میں وصولیاں ہوتی ہیں تو سرکار ان رقوم کو ادا کر کے اس قرض کو واپس کر دیتی ہیں اور یوں گلشن کا کاروبار بغیر کسی تعطل کے چلتا رہتا ہے۔
سٹیٹ بینک جو قرض ان ملکی اور غیر ملکی بینکوں سے لیتا ہے، اس کے عوض ان کو جو دستاویز دیتا ہے اس کو ’بانڈ‘ کہا جاتا ہے اور اس بانڈ پر ادا کی جانے والی شرح منافع ہی پوری بینکنگ کی صنعت کا شرحِ منافع طے کرنے کا بنیادی معیار قرار پاتی ہے۔ اس وقت امریکہ کی بانڈ مارکیٹ میں سعودی عرب نے سوا سو ارب ڈالر کے لگ بھگ جبکہ چین نے تین ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ بانڈز اور ان پر ادا ہونے والا شرحِ منافع کسی بھی ریاست کی مالیاتی اعتباریت کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے مزید تیکنیکی محاسن اور تفصیلات پر روشنی اس لیے نہیں ڈالیں گے کہ ایک عام قاری کے لیے اس کی اہمیت و افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس وقت دنیا میں جہاں جہاں بھی زری نظام رو بہ عمل ہے (اور ہر جگہ یہی نظام ہے) وہاں پر یہی طریق کار تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ روبہ عمل ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران مشرقِ بعید کے کرنسی بحران سے لے کر امریکہ کے رئیل اسٹیٹ بحران تک مالیاتی نظام کے لال بجھکڑوں کو یہ بات سوجھی کہ محض کاغذ پر چھاپی گئی کرنسی کے لین دین سے یہ معاملات اسی طرح پھر تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں لہٰذا کوئی اور سلسلہ کیا جائے۔ تحقیق کے بعد انہیں پتہ چلا کہ اسلامی نظام مالیات میں’’سکوک‘‘ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے اگر یہ کام کیا جائے تو معاملات کافی حد تک محفوظ ہوں گے کیوں کہ اس ذریعے سے قرض حاصل کرنے والے ادارے ، تنظیم یا ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قرض کی رقم کے برابر اپنے اثاثوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اور یوں اس وقت ’سکوک‘ امریکہ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ذریعہ ہو گیا ہے۔
چوں کہ اس طرح کا کوئی بھی بانڈ کسی بھی ریاست کی مالیاتی اعتباریت کا مظہر ہوتا ہے اس لیے ہر ریاست وقتاً فوقتاً ایسے بانڈز عالمی مالیاتی منڈیوں میں فروخت کرتی رہتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے شوقین حضرات نے بھلے گھر نہ بھی بیچنا ہو لیکن ہر دو تین سال بعد اپنے پراپرٹی ڈیلر سے گھر کی قیمت ضرور لگواتے رہتے ہیں۔
پاکستان نے کافی سالوں کے بعد عالمی منڈی میں ایک ارب ڈالر مالیت کا ایک سکوک بانڈ بیچا ہے۔ یہ بانڈ ساڑھے چھ فی صد کی شرحِ منافع کے بجائے ملکی تاریخ کے سب سے کم ترین سطح یعنی ساڑھے پانچ فیصد پر بیچا گیا ہے۔ اصل میں اولاً پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ساڑھے چھ فیصد پر پچاس کروڑ ڈالر عالمی منڈی سے قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ خاکسار جیسے ناقدین سمیت بہت سے لوگوں کاخیال تھا کہ بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے باعث شاید یہ وقت ایسے بانڈ کی فروخت کے لیے مناسب نہیں۔ لیکن اسحاق ڈار صاحب بضد رہے۔ اور جب صرف پچاس کروڑ روپے کے مقابلے میں دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی پیش کشیں موصول ہوئیں تو اسحاق ڈار صاحب کی ’’نیت‘‘ بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پچاس کروڑ کے بجائے ایک ارب ڈالر کاقرض لیں گے اور وہ بھی ایک فی صد کم شرحِ منافع یعنی ساڑھے پانچ فی صد پر، جس نے قرض دینا ہے دو جس نے نہیں دینا نہ دو۔ دنیا کے 124 سرمایہ کاروں نے اس بانڈ میں حصہ ڈالنے کے لیے اپنے ارادے کا اظہار کیا جن میں سے نوے ایسے مالیاتی ادارے تھے جن کی کسی سودے میں شرکت میں عالمی خبر ہوجایا کرتی ہے۔ یہ ایک کھلا پیغام ہے کہ دنیا بھر کے نجی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ شرح سود کو ایک فی صد کم کرنے کے باوجود صرف بیس کروڑ ڈالر کے سرمایہ کاروں نے ہی اپنی پیش کشوں سے مراجعت اختیار کی، جبکہ باقی وہیں پر رہے کہ ہمیں پاکستان کو قرض دینا ’قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے‘۔
ایسے میں کچھ میڈیائی باندر جن کے ہاتھ میں استرا آ گیا ہوا ہے، وہ بازار میں نکل آئے کہ ’نواز حکومت ہمارے اثاثے رہن رکھ رہی ہے‘ اور اب فلاں فلاں اور فلاں چیزیں بھی رہن رکھی جائیں گی حالاں کہ ان کو ’’رہن‘‘ اور ’’گارنٹی‘‘ کے فرق کا پتہ ہی نہیں۔ اور ان کی باندر بازیوں کو کچھ اور حضرات سوشل میڈیا پر لے دوڑے۔ ارے بابا کسی شعبے کو تو اپنی استرابازی سے بخش دو، یہ آپ کی عقل و فہم میں آنے والی چیز ہی نہیں ہے۔ لیکن ان کا کیا ہے کل کو یہ بھی کہہ دیں گے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ایٹم بم کیسے چلتا ہے اور کیا یہ محفوظ ہاتھوں میں ہے بھی کہ نہیں؟
ان حضرات سے ایک ہی گذارش ہے کہ اللہ کا خوف کریں، اور ملک کے اہم اور نازک معاملات کے ساتھ ’’باندر کلا‘‘ نہ کھیلیں۔ سٹیٹ بینک کی مالیت کے خاتمے کا مطلب ہے کہ خاکم بدہن ملک کی مالی اعتباریت کا خاتمہ، اور ملک کی مالی اعتباریت کا خاتمہ ہو گیا تو پھر کسی بھارت کو یا امریکہ پر ہم پر ایک گولی چلانے کی ضرورت نہیں ہو گی، ہمارے ملک کے نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہیں ہوگا۔ اللہ کرے یہ دن کبھی نہ آئے اور ان شاء اللہ کبھی نہیں آئے گا۔

Comments

Click here to post a comment