چوتھی طرز کی پیکار ( فورتھ جنریشن وار) میں قلم کو شمشیر اور دلیل کو سپر کی صورت کر کے اترنے تک ذہن و دل میں کئی مراحل تہہ ہوئے، کتنے ہی موسم بیتے، کئی زاویے نظر میں رہے اور مختلف خیالات شعور نے مقبول اور نامقبول کیے۔ مثلا لکھا کیوں جائے؟ کتنے ہی اخبار ہر روز کاغذی اور برقی پیرہن میں قاری کو میسر ہوتے ہیں۔ ان گنت لکھنے والوں کے درمیاں میرا لکھنا کیا معانی رکھے گا اور جب نہ تو کوئی تکمیلِ ذات کا مقصدپیشِ نظر اور نہ ہی تسکین انا کا کوئی پہلو مطلوب، اور نہ ہی میرا رزق بہت سے لکھاریوں کی طرح ایسے روزگار مثلا وکالت، تدریس یا کسی بیرونی امداد پر چلنے والی سماجی تنظیم کی ملازمت سے وابستہ ہے، جہاں صاحبِ قلم ہونا شخصی لیاقت کا اضافی وصف شمار ہوتا ہے اور ترقی و شہرت کے زینے طے کرنے کے معاون بھی، تویہ الجھن کہ اس مشقت کا حاصل کیا ہے۔
دیگر اسباب کے علاوہ خام ارادے کو پختہ فیصلے میں بدلنے کی وجہ پچھلے دنوں کے دوران شہید جنرل محمد ضیاالحق کی برسی پر جدیدیت، روشن خیالی اور جمہوریت پر اجارہ داری کے دعویدار طبقے کا انتہائی غیر شائستہ اور لغو اظہارِخیال بنا، جس سے ان افراد کے فکری رجحان اور نسب کا پتہ ملتا تھا۔ یہ بات اور ہے کہ جب سے حالات نے کروٹ لی ہے تو بہت سے لوگوں نے، جنہیں اپنے لکھے اور کہے پر مستند ہونے کا گمان اور ناز ہے، ذرائع ابلاغ پر شہید کے عسکری و خارجہ امور کے تدبر اور شجاعت کو اْس جنگ کے حوالے سے یاد کیا ہے، جس کی فتح، شہید نے بپا ہونے سے قبل ہی الفاظ کے توپخانے سے ایسی جوہری دھمکی کو داغ کر چھین لی تھی، جس کی دھمک سےسب سے بڑی جمہوریہ کا پردھان منتری تنکے کی طرح لرز اْٹھا تھا۔ بقولِ ممتاز راشد
چراغ لے کے ہمیں لوگ ڈھونڈنے نکلے
ہمارے بعد وفاؤں کا احترام ہوا
شہید جنرل محمد ضیاالحق اْن علامتی اہداف میں سے ایک ہیں جن کی تضحیک کی آڑ میں خود ساختہ وسیع المشرب دانش کے علمبردار اپنے سینے کی آگ ٹھنڈی کرتے ہیں۔ یہ یلغار گذشتہ پندرہ بیس برس سے بےضمیری اور جہل کے اونچے مناصب پر فائز افراد کی جانب سے اخبارات و جرائد میں جاری ہے۔ کبھی حضرت قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے 11 اگست کی تقریر کی من چاہی تشریح کا شوشہ چھوڑ دیا، کبھی جوگندر ناتھ منڈل اور سر ظفراللہ کی بطور وزیر تقریری کوثبوت کہہ دیا، جب چاہا مغرب کے سائنسی اداروں کا دینی مدارس سے تقابل کر کے تمسخر کا سامان کر لیا، کبھی 1965ء کی جنگ کا ذکر چھیڑ کر ہمارے مفتوح ہونے کااعلان کرتے ہیں، اور کبھی انسانی حقوق کا نعرہ بلند کر کے توہین رسالت اور امتناع قادیانیت کو تنگ نظری اور رجعت پسندی کی علامت قرار دے کر ان کی تنسیخ کا مطالبہ بلند کرتے ہیں۔ جب سے سماجی روابط کے دریچوں (سوشل ویب سائٹس) سے واسطہ پڑا ہے تو اس طبقہ گمراہاں کے نت نئےسوالات اور انکشافات نظر سے گزرتے ہیں جن کی عبارت کا سرچشمہ سرحد پار سے ملتا ہے۔ ان کےخود تراشیدہ سچ کےمطابق سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم بدکردار، غاصب اور لٹیرے تھے۔ ان کے دعوٰی کے مطابق پاکستان کی تاریخ موہنجوداڑو سے جنم لیتی ہے نہ کہ ”712ء کے حادثے سے“۔ یہ حضرات ابھی تک اورنگ زیب عالمگیر اور دارہ شکوہ کے معاملے کو لے کر نوحہ گری میں بھی مصروف ملتے ہیں اور اب مجددالف ثانی کی تحریک نشاۃ ثانیہ کے بخیے ادھیڑنے کے درپے ہیں۔
غنیم، جو نظریہ پاکستان اور ہر اس تصور، شخصیت اور مظہر جو عام پاکستانی کے لیے مشعل راہ ہے، کو اپنی تعصبانہ تنقید کے نشانے پر لیے ہوئے ہے، کا جائزہ لیں تو عجیب و غریب صف بندی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر ہراول میں دانشوری، صحافت اور محقق کی دستار لگائے بھاڑے کے سپاہی بظاہر امن اور انسانی حقوق کا پرچار کرنےکی آڑ میں اپنے آقاؤں کی آشاؤں کی تکمیل کے لیے ملیں گے تو یمین میں بائیں بازو کے سیاسی و فکری یتیم، جام و مینا کے رسیا اور ہم جنسیت کےحوالےسے ترمیم آئین کے تمنائی نظر آئیں گے۔ میسرہ الحادی و باطل مذہبی عقائد والے راندہ درگاہ اور ایسے بےچہرہ لوگوں پر مشتمل ہے جن کا مذہب، شہریت اور انفرادی شناخت تو ایک طرف جنس تک نامعلوم ہے کیونکہ مرد پردے کے پیچھے سے گفتگو نہیں کرتے۔ قلب میں ایک گرگٹ صفت مخلوق جو بیک وقت حسینیت، سوشلزم، اقلیتی حقوق اور جمہوریت کی بالادستی کے علم اٹھائے ہوئے منطق اور دلائل کے رجز پڑھتی ملتی ہے۔ عقب میں اکثریت میں وہ لوگ جنہوں نے اگلی صفوں میں پائے جانے والے اپنے استادوں اور آجروں یا سینئر ہم پیشہ ساتھیوں پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے ہوتے ہیں؛ ان کا حاصل اپنے ممدوح کی خوشنودی ہوتا ہے یا اپنے آپ کو مستقبل کے دانشور تسلیم کروانے کے سلسلے کی ابتدا کرنا ہوتا ہے۔ اس سارے ٹولے کا مقصد حیات صرف دشنام بکنا، غلط یا یکطرفہ تاریخی حقائق پر اپنے مؤقف کی تصویر کشی کرنا اور اعتدال و اصلاح پسندی کے نام کی کھوکھلی عمارت کو نظریہ پاکستان اور اسلامی اصولوں کے مدفن پر تعمیر کرنا ہے ۔
اس طبقے کے سرخیلوں میں سے ایک نامبارک تاریخ داں اگر یہ بھاشن دیتے ہیں کہ سیکولرازم پاکستان کے لیے وقت کی ضرورت ہے مگرحضرت قائداعظم کا حوالہ استعمال نہ کریں کیونکہ اُن کی تقریروں میں اسلامی سوچ کا عنصر بھی موجود ہے تو دوسری طرف اک کم رو دانشور، جنہیں یہ دکھ کہ حاکمیت اعلٰی اللہ کی ملکیت کیسے ہو سکتی ہے؟ انسانی حقوق اور قائد کے پاکستان کے نام پر تواتر سے قرارداد مقاصد اور دوسری آئینی ترمیم کے خلاف فطرت ہونے کے اپنے کریہہ مؤقف کا اعادہ کرتے ہیں۔ کسی نے یا تو انہیں سمجھایا نہیں یا ان کے دل و دماغ پر باطل قوتوں کے ہاں ذہن رہن رکھنے کے سبب حاکم اعلی نے مہر ثبت کر دی ہے کیونکہ رب العالمین کی حاکمیت تو اٹل ہے اور صرف اس امر کا اعتراف ہی دستورکے کاغذی پلندے کو آئین پاکستان کے نام سے معتبر کرتا ہے ورنہ ذات باری اس انسانی تائید سے ماورا اور بے نیاز ہے۔ کہیں سے یہ راگ بھی الاپا جاتا ہے کہ قائداعظم نے اسلام کا نام بطور سیاسی ہتھیار استعمال کیا تھا، تو کہیں پر ایک سابق چیف جسٹس کے سپوت اپنے غیر رضامند چورن کو چائے خانے نام کی دکان سے بیچ رہے ہیں اور ان کا ایک چیلا، جسے ٹیچی ٹیچی والے مجہول کے پیروکاروں کے کا غم بڑا ستاتا ہے؛ اس بحث میں ہلکان پایا جاتا ہے کہ تپ دق کی مرض سے کھوکھلےوالے 76 سالہ قائداعظم نے دورہ قلات میں کس برانڈ کی مے کو شرف پسندیدگی بخشا تھا۔ ایک مشہور تگڑمِ نابکاراں کے اہم رکن کی وسعت خیالی ہمیشہ سے ایسے موضوعات تک محدود رہی ہے جن سے وطن عزیز میں منفی عناصر کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ان رواداری کے مبلغوں کے ہاں کی تمثیلوں میں، تقریروں میں، تحریروں میں بھگت سنگھ، سرحدی گاندھی، دارا، راجہ داہر کو جائز توقیری مقام نہ ملنے کا واویلا تو ملے گا مگر کبھی شہید رائے احمد خاں کھرل یا شہید سید صبغت اللہ شاہ راشدی کا تذکرہ نہیں۔
مندرجہ بالا تفصیل سے آسانی سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بیانیے کی بحث اب مکالمے کی سطح سے بلند ہو کر تصادم کا روپ دھار گئی ہے تو اب قلم کو کمان کرنا عین عبادت اور آئین اسلام کی رو سے لازم ہے۔ ان شاءاللہ مستقبل میں اپنی استطاعت کے مطابق اس قلمی جہاد میں اپنا کردار نبھاؤں گا۔ اور عدو کے سورماؤں کے نام ایک شعر جو جون ایلیا نے اپنی کسی فرضی یا اصلی مخاطب کو کہا تھا
آپ، وہ ، جی،مگر ، یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتی
آپ لوگ بھی روشن خیالی، جمہوریت، سیکولر ازم ، الحاد، سوشلزم، زنانہ و اقلیتی حقوق کے نقاب اپنے چہرے سے اتار پھینکیے اور اپنے فکری جدِ امجد کی طرح باطل کے ایک جھنڈے کے تلے مقابلے پر اتر آئیے تاکہ بیانیے کا معرکہ کسی فیصلہ کن نتیجے پر منتج ہو سکے۔
تبصرہ لکھیے