وہ بی ایس سی انجینئرنگ کے پہلے سال میں تھا. یونیورسٹی سے چھٹیاں ہوئیں تو کچھ دن کے لیے وہ گھر لوٹا. یہاں اس کی ملاقات ایسے دوست سے ہوئی جو طبیعت کا سادہ اور دین سے گہرا رکھنے والا آدمی تھی. حال احوال بانٹنے کے بعد دوست کہنے لگا،
”یار! ایک بات کہوں؟ تم ماشاءاللہ کافی ذہین اور سمجھدار ہو، کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم دنیاوی تعلیم کے چکروں میں پڑنے کے بجائے دین کا علم حاصل کرتے. یہ ڈگریاں آخرت میں تمہارے کام نہیں آئیں گی. میں تو کہتا ہوں اب بھی وقت ہے چھوڑو یونیورسٹی اور کسی اچھے مدرسہ میں داخلہ لو..آخرت بھی سنور جائے گی اور دنیا بھی.“
تو کیا میں جو کچھ پڑھ رہا ہوں سب بیکار ہے؟ دوست کی یہ بات سن کر وہ عجیب ذہنی کشمکش کا شکار ہو گیا.
یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ حلال و حرام کی تمیز جاننے کی حد تک دینی تعلیم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ پوری امتِ مسلمہ دنیاوی امور کو ترک کردے اور دین کا علم حاصل کرنے لگے تو کیا خیال ہے، ہمارا یہ نظامِ زندگی برقرار رہ پائے گا؟ جی نہیں! نہ تو یہ ممکن ہے اور نہ ہی شریعت کا مطالبہ.
اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ علمِ دین تمام علوم کا سردار ہے اور اس کو سیکھنے سکھانے والے انتہائی سعادت مند، مگر معاملہ یہ ہے کہ کچھ چیزیں ہم خود سے ہی فرض کر لیتے ہیں مثلاً یہ سمجھنا کہ دنیاوی تعلیم کا حصول سرے سے ہی بےکار اور قابلِ مواخذہ ہے.
خود میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کی نظر میں کسی سرکاری ادارے میں کام کرنا ایسا تھا گویا دنیا کی غلیظ دلدل میں دھنس جانا. ایسا سوچتے ہوئے شاید ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اسلام کا تو امتیاز ہی یہی ہے کہ دیگر مذاہب کی طرح یہ دین اور دنیا کو جدا نہیں رکھتا بلکہ اس کی رو سے معقول گزر بسر اور رزقِ حلال کے حصول کی خاطر اختیار کیے گئے مختلف ذرائع بھی عبادت کے زمرے میں آتے ہیں.
اگر آپ کبھی کسی تبلیغی جماعت کے ساتھ گئے ہوں تو آپ نے یہ دیکھا ہوگا کہ دس بارہ آدمیوں کی جماعت میں سے دو یا تین آدمیوں کا کام محض دوسرے ساتھیوں کی خدمت ہوتا ہے. یہ لوگ کھانا پکانے اور برتن وغیرہ دھونے پر مامور ہوتے ہیں جبکہ باقی حضرات دعوتِ دین کا کام کرتے ہیں. تو کیا خیال ہے اللہ کی راہ میں نکلنے والوں میں سے یہ ”خدمت والے احباب“ اجرِ خداوندی سے محروم ہوں گے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا کیونکہ براہ راست نہ سہی مگر بالواسطہ تو یہ بھی تبلیغ کے کام میں شریک ہوتے ہیں.
بات محض حسنِ نیت کی ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار ان کی نیتوں پر ہے ورنہ تعلیم اور صحت کے میدان میں جان کھپانے والے لوگ مخلوقِ خدا کی زندگی آسان تر بنانے والے انجینئرز، لیبارٹریوں میں مصروف سائنسدان، ملکی نظامِ معیشت، دفاع اور دیگر کارہائے ریاست سرانجام دینے والے لوگ بھی دراصل ”خدمت والے احباب“ ہیں. چنانچہ میرا خیال ہے کہ عصری علوم و فنون کی یہ تمام ڈگریاں بھی آخرت میں کام آسکتی ہیں، اگر ہمارا مقصد صرف ان سے پیسہ کمانا نہ ہو بلکہ رزقِ حلال کے حصول کے ساتھ ساتھ پروردگار کی مخلوق کی بھلائی اور اس کی خدمت بھی ہمارا منشور ہو. البتہ ایک ہوتا ہے مقصد اور ایک ہوتی ہے ضرورت. ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ”مقصدِ حقیقی“ کو ہمیشہ اور ہر حال میں ان ضروریاتِ زندگی پر مقدم رکھیں. اسی میں ہماری فلاح ہے، دنیا کے لحاظ سے بھی آخرت کے لحاظ سے بھی.
تبصرہ لکھیے