ہوم << دانشور کسے کہتے ہیں؟ آصف محمود

دانشور کسے کہتے ہیں؟ آصف محمود

آصف محمود بہت دنوں سے ایک سوال کی دستک سن رہا ہوں۔سوال یہ ہے: دانشور کسے کہتے ہیں؟ ہمارے ہاں دانش کے نام پر یاجوج ماجوج کے جو لشکری سرِ شام ٹی وی چینلز پرسماج کو سینگوں پر لے لیتے ہیں یا صبح دم اخبارات کے صفحات پر کالم کی صورت میں دست سوال دراز کرتے پائے جاتے ہیں، کیا ان کے نام دانشور کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟ خیالِ خاطراحباب سے قلم بوجھل ہونے کا احتمال نہ ہوتا تو میں سیدھا سادا سوال کرتا، کیا نیم خواندہ ادیب اور صحافی کو دانشور کہا جا سکتا ہے؟
دنیا بھر میں مختلف شعبہ جات کے مختلف ماہرین موجود ہیں۔ آپ امریکہ اور برطانیہ کی مثال لے لیں۔ یہاں آپ کو ہر شعبہ کے الگ الگ ماہرین ملیں گے۔ کوئی مشرق وسطیٰ کے امور پر دسترس رکھتا ہوگا تو کسی کو جنوبی ایشیاء کے معاملات کا ماہر سمجھا جاتا ہوگا۔ کچھ لوگ انتہا پسندی پر اتھارٹی ہوں گے تو کئی حضرات دہشت گردی کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہوں گے۔ کسی نے امور خارجہ کی تفہیم میں زندگی گزار دی ہوگی تو کوئی سماج کے داخلی معاملات پر دسترس رکھتا ہوگا۔ کوئی معیشت کی نزاکتوں کا ماہر ہوگا تو کوئی سماجی ایشوز پر مغز ماری کر رہا ہوگا۔ یہاں کی یونیورسٹیاں دانش کے مراکز میں تبدیل ہو چکی ہیں جہاں اہلِ دانش متعلقہ شعبوں میں علم و تحقیق میں مصروف ہوتے ہیں۔ اہلِ دانش نے وہاں اپنے اپنے متعلقہ شعبوں میں عمریں کھپا دی ہیں اور اس طویل ریاضت کے بعد جب یہ پروفیسرز اور ڈاکٹرز رائے دیتے ہیں تو اس رائے میں ایک جہانِ معنی پو شیدہ ہوتا ہے۔ ان ممالک میں آپ کو مختلف اقسام کے تحقیقی ادارے ملیں گے۔ کوئی ادارہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خدوخال پر غور و فکر کر رہا ہوگا، کسی کے پیش نظر معاشی چیلنجز ہوں گے، کہیں ماہرین اگلے عشرے میں درپیش تزویراتی چیلنجز سے نبٹنے کے لے سر جوڑے بیٹھے ہوں گے تو کہیں اس بات پر غور ہو رہا ہوگا کہ مسلم دنیا میں اپنے لیے مزید امکانات کیسے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ان اداروں میں ہونے والی تحقیق سے نہ صرف وہاں کا میڈیا فیض یاب ہوتا ہے بلکہ وہاں کی حکومتیں بھی پالیسی سازی کے لیے ان اہلِ دانش سے رہنمائی حاصل کرتی پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ ان کے ٹی وی چینلز یا اخبارات دیکھ لیں آپ کو متنوع موضوعات پر ایسا ایسا ’’ایکسپرٹ اوپینین‘‘ ملے گا کہ ایک خوشگوار حیرت ہوگی۔ مکالمے کی ایک فضا میں وہاں اہل دانش دلائل کے ساتھ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے پائے جائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کرنٹ افیئرز کا شعبہ ابھی گلیمرائز نہیں ہوا۔ اس میں داخل ہونے کے لیے اضافی اور ’ہم نصابی سر گرمیاں‘ نہیں، متعلقہ شعبے کی مہارت ہی کافی ہے۔
لیکن پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ یہاں ہر اس آدمی کے ساتھ دانشور کا سابقہ لگ چکا ہے جس نے ایک افسانہ، دو نظمیں اور تین کالم لکھ رکھے ہوں یا دو چار ٹاک شوز میں میزبانی کر چکا ہو، چنانچہ احباب کا تعارف یوں بھی ہوتا ہے’’معروف ادیب، محقق، کالم نگار، دانشور‘‘، بس یوں سمجھیے کہ حبیب جالب کا طنزیہ تخیل ہمارے سماج میں مجسم ہو گیا ہے اور قلم سے ازاربند ڈالتے ڈالتے جس نے دو لکیریں کھینچ دیں یا سکرین پر بیٹھ کر واہی تباہی کہہ لی وہ دانشور بن گیا۔ ہمارے ہاں ’’ایکسپرٹ اوپینین‘‘ کا رواج ہی نہیں۔ مذہبی مسئلہ ہو، فقہی معاملہ ہو، معاشی نقطہ درپیش ہو، کوئی تزویراتی بحث ہو رہی ہو، دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو، چند اینکرز اور کالم نگار آپ کو اس پر بلا تکان بولتے نظر آئیں گے۔ یہی اس ملک میں اب ’دانشور‘ ہیں۔ ان میں سے آپ کو ایسا شاید ہی ملے جو کہے کہ بھائی مجھے اس شعبے کا علم نہیں، آپ کسی متعلقہ آدمی سے بات کر لو۔ ایسا کرنا تو ان کی شان کے خلاف ہے۔ چنانچہ یہ آپ کو فارن پالیسی بھی بنا کر دیں گے، بجٹ بھی تیار کر کے دیں گے، احتساب کا فارمولا بھی آپ ان سے لیں، خطے کی تزویراتی کشمکش کا حل ان کی جیب میں پڑا ہے، کرکٹ کے کپتان کو دینے کے لیے بھی ان کے پاس کئی’ماہرانہ مشورے‘ موجود ہیں۔ پہاڑی بکرے جس طرح ہر جھاڑی میں منہ مارتے یہ آپ کو ہر موضوع پر رہنمائی کرتے ملیں گے۔ پوری جہالت اور سارے خبطِ عظمت کے ساتھ۔
باقی رہ گئے اہلِ دانش اور متعلقہ شعبوں کے ماہرین، ڈاکٹرز، پروفیسرز وغیرہ تو ان کی کسی کو کیا ضرورت ہے؟ جب رونق میلا لگانے کے لیے شیخ رشید صاحب اپنے علم، تحقیق، مہارت اور تجربے کے ساتھ ٹی وی چینلز کو ہر وقت دستیاب ہوں تو کارپوریٹ میڈیا کو کیا پڑی ہے کسی موضوع پر وہ سنجیدہ علمی گفتگو کرتا پھرے۔ صاحب کی زنبیل میں دنیا کے ہر موضوع پر رہنمائی موجود ہے۔ شاید ان کی یہی خوبیاں اور کمالات دیکھتے ہوئے ایک نجی ٹی وی نے انہیں اینکر کی پیش کش کر دی تا کہ ان اہل علم حضرات کی صف میں ایک اور محقق اور سینئر تجزیہ نگار کا اضافہ ہو جائے۔ ویسے ہمارے سماج میں سینئر تجزیہ نگار ہونے کا تعلق کسی کے علمی مرتبے سے نہیں بلکہ اس اتفاق سے ہے کہ ان کے والدہ اور والدہ محترمہ دوسروں سے بہت پہلے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے تھے۔ وہی بات جو مرزا غالب نے بچپن میں ایک بوڑھے سے کہی، جب گلی میں کھیلتے ہوئے ایک عمر رسیدہ آدمی نے غالب کو ڈانٹا کہ بزرگوں کا حیا کیا کرو، غالب نے مسکرا کر کہا: بڑے میاں بوڑھے ہو گئے ہو، بزرگ نہیں۔ بڑے میاں کی شکایت پر جب گھر میں مرزا کی طلبی ہوئی تو کہنے لگے: میں نے نہیں، یہ تو شیخ سعدی نے کہا تھا ’بزرگی بہ عقل نہ بہ سال‘، میں نے تو صرف دہرایا ہے۔
ہمارا معاشرہ سنجیدگی اور علمی رویوں سے بہت دور جا رہا ہے۔ پہلے علمائے کرام کا جلیل القدر منصب جب عام مولویوں کے ہاتھ آیا تو لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے انہیں نے سماج کو فکری طور پر آلودہ کر دیا۔ اب ابلاغ کے جدید طریقے ان بقلم خود قسم کے ’دانشوروں‘ کے ہاتھ لگے ہیں تو انہوں نے دانش کے نام پر اخبارات میں اور ٹی وی سکرینوں پر جو ’سر بازار می رقصم‘ شروع کر رکھا ہے، اس کے تصور سے بسا اوقات متلی ہونے لگتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ حکومتوں کو جب مشاورت اور مکالمے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ بھی انہی کالم نگاروں اور اینکر پرسنوں کو دانشور سمجھ کر مدعو کرتی ہے۔ اب اگر مشاورت کا علمی معیار یہ ہے تو پالیسیاں کیسی بنیں گی؟ ویسی ہی بنیں گی ناں جیسی اب تک بنتی آئی ہیں۔ اور ان کے نتیجے میں قوم کا آملیٹ بنتا رہے گا۔
ہمیں اگر ایک سنجیدہ اور بالغ نظر سماج تشکیل دینا ہے تو ہمیں علمی رویوں کی قدر اور مکالمے کے کلچر کا احیاء کرنا ہوگا۔ چونکہ اس وقت ابلاغ کا مؤثر ترین ذریعہ ٹی وی چینلز اور ان کے ٹاک شوز ہیں اس لیے ان شوز کا مزاج بدلنا بہت ضروری ہے۔ ابھی تک ان شوز میں جو کچھ ہو رہا ہے، ایک نیم خواندہ سماج میں اس سے ایک تماشا ضرور لگ جاتا ہے اور ریٹنگ بڑھ جاتی ہے لیکن علم کی دنیا میں ان رویوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ یونیورسٹیوں سے ہمیں ایسے حقیقی اہلِ علم کو آگے لانا ہوگا جنہوں نے علم و تحقیق میں عمریں گزار دیں اور ان سے رہنمائی لینی ہوگی۔ بہت تماشا ہو گیا۔ اب ڈگڈگی بند کیجیے۔ ہمیں سنجیدہ، علمی، باوقار اور بامقصد مباحث کی ضرورت ہے۔