دور حاضر میں کسی بھی حکومت کا چہرہ اس کی کابینہ کے افراد ہوتے ہیں۔ وزرائے باتدبیر ہی سے حکومت کی دور اندیشی، اہداف، عزائم اور اپنے عوام کے لیے اس کے خلوص کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ اقوام کے حکمران اپنی کابینہ کا انتخاب کرتے وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ، وسیع المشرب اور قابل افراد کو پہلی ترجیح میں رکھتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال کینیڈا ہے جہاں عوام نے ایک نوجوان سیاست دان کو بطور وزیر اعظم منتخب کیا اور نو منتخب وزیراعظم نے بعد ازاں مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے افراد پر مشتمل انتہائی متوازن کابینہ تشکیل دی۔
ترقی پذیر ممالک میں منصب وزارت پارٹی یا خاندان کے وفاداروں کو عطا کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مہارت،خلوص، محنت، قابلیت اور علم کو زیادہ خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسے وزارت تعلیم کا ہما ایسے افراد کے سر بٹھایا جاتا ہے جنھیں قرآن مجید کے پاروں کی درست تعداد کا علم بھی نہیں ہوتا۔
پڑوسی ملک بھارت اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوا ہے کہ مسلسل جمہوریت کے نتیجے میں وہاں قدرے بہتر اور ریاست سے مخلص چہرے سامنے آتے رہے ہیں۔ لالو پرساد یادیو ذاتی زندگی میں چاہے مسخرے ہی لگتے ہوں لیکن ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے تین سال کے اندر اندر ریلوے کو بام عروج تک پہنچا دیتے ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے نظریات اور ماضی سے قطع نظر، یہ بات ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ انتہائی زیرک، محنتی اور مسلسل اپنے ملک و قوم کے مفاد کے لیے سرگرداں رہنے والے آدمی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ میں ان کی کارکردگی کا ہی جائزہ لیا جائے تو انھوں نے مسلسل دوروں اور بہترین ڈپلومیسی کے نتیجے میں ایک طرف بھارت کے عالمی منڈیوں کے پروانے حاصل کرلیے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ نہ صرف عالمی طاقتوں بلکہ اسلامی ممالک کو بھی اس بات کا یقین دلانے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے ہیں کہ بھارت انتہائی مظلوم ہے اور پاکستان کی جانب سے مسلسل بھارت میں دراندازی اور دہشت گردی کی پشت پناہی جاری ہے۔
مودی نے حال ہی میں اپنی کابینہ میں چند نئے چہرے متعارف کروائے ہیں۔ کابینہ میں شامل ہونے والے ان افراد کے پورٹ فولیو پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ مودی حکومت عالمی برادری میں بھارت کو نمایاں مقام دلانے کے لیے کتنی جدوجہد کررہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر اس بات کی غمازی بھی کرتا ہے کہ بھارتی عوام جمہوری بلوغت کے دور میں داخل ہوچکے ہیں اور اب تعلیم یافتہ امیدواران کو لوٹوں پہ ترجیح دینے لگے ہیں۔
نئی کابینہ میں اعلی تعلیم یافتہ ارکان پارلیمنٹ کو شامل کیا گیا ہے جن میں وکلا، ایم بی بی ایس ڈاکٹر، پی ایچ ڈی ڈاکٹر، ماہرین تعلیم اور کئی سماجی کارکنان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ وزرا لا گریجویٹ، چار پوسٹ گریجویٹ، پانچ گریجویٹ اور دو انڈر گریجویٹس شامل ہیں۔
آئیے ایک نظر بھارتی کابینہ کے چند نئے چہروں کی تعلیکی اہلیت پہ ڈالتے ہیں۔
پی پی چودھری: پالی سے لوک سبھا کے ممبر پی پی چودھری سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ لوک سبھا میں متاثرکن حاضری پر انھیں دو مرتبہ رتنا ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
وجے گوئیل: بھارتی ریاست راجستھان سے راجیہ سبھا کے ممبر معروف لاء گریجویٹ ہیں۔ وجے گوئیل سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کھیل اور امور نوجواناں کے وزیر تھے۔
ارجن رام میگھوال: لا گریجویٹ ارجن رام بی جے پی کے ٹکٹ پہ لوک سبھا ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ انڈین سول سروس کے ممبر بھی رہ چکے ہیں اور مقامی زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ارجن رام اپنی سادگی کے لیے مشہور ہیں۔ لوک سبھا کے ابتدائی اجلاسوں میں وہ سائیکل پہ آتے رہے ہیں۔
سبھاش رام راو: مسٹر سبھاش رام راو ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور بھارت کے معروف کینسر سرجن ہیں۔ وہ بھارتی کابینہ میں شامل واحد ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔
مہندرا ناتھ پانڈے: ڈاکٹر پانڈے نے انگریزی ادب میں ایم اے اور ہندی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے کے ساتھ ساتھ صحافت میں بھی ایم اے کر رکھا ہے۔
انوپریا سنگھ پٹیل: مس انوپریا سنگھ پٹیل نے ایم بی اے کے ساتھ ساتھ ایم اے سائیکالوجی بھی کیا ہوا ہے۔
سی آر چودھری: سی آر چودھری نے جغرافیہ میں ایم اے کیا۔ یونیورسٹی آف برمنگھم برطانیہ سے دیہی بہبود کے حوالے سے ایک تربیتی کورس کیا۔ وہ راجستھان پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہنے کے ساتھ ساتھ معروف بھارتی یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔
انیل مادھو دیو: انیل دیو ماحولیاتی تبدیلیوں پہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انھوں نے ایم کام کر رکھا ہے۔
ایم جے اکبر: انگریزی ادب کے گریجویٹ ایم جے اکبر بھارت کے معروف لکھاری اور صحافی ہیں۔ وہ مسلم اکثریتی علاقے سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔
بھارت کے ان چند وزرا کی مختصر اہلیت اور کوالیفکیشن پاکستانی سیاسی جماعتوں اور عوام کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔
اگر پاکستانیوں کو بھارتی کابینہ سے سبق سیکھنے کا مشورہ دینے سے پہلے پاکستانی کابینہ کو دیکھ لیا جاتا تو لکھنے والے اور پڑھنے والے اپنے وقت کا بہتر استعمال کر سکتے تھے- پاکستانی کابینہ میں پوسٹ گریجویٹ، الیکٹریکل انجنیئر، مکینیکل انجنیئر، ڈاکٹر، ایم بی اے اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ شامل ہیں-
لہٰذا سیاسی تعصب کے مریضوں اور احساس کمتری کے شکار حضرات کے علاوہ دیگر پاکستانیوں کو بھارتی کابینہ سے موازنہ کر کے فخر ہی محسوس ہوتا ہے