ہوم << شہر کا محافظ - راشد حمزہ

شہر کا محافظ - راشد حمزہ

ایک شام جب تصورات میری عقل پر غالب آگئے تو میں گھر سے نکلا اور شہر کی آبادیوں میں سے ہوتے ہوئے ویرانیوں میں سے ایک ویران کھنڈر پہنچ گیا۔ کھنڈر کے ستون زمین پر آ رہے تھے، چھت اور دیواریں منہدم ہوچکی تھیں، ظاہری حالت سے لگ رہا تھا کہ مہینوں سے غیر آباد تھا، پچھلا دروازہ ساحل سمندر کی طرف کھلتا تھا۔ میں دروازے سے نکل کر ساحل کے قریب جانا چاہتا تھا کہ ایک عجیب و غریب منظر نے میرے قدم روک لیے، کیا دیکھتا ہوں کہ سیڑھیوں پر ایک شخص بیٹھا ہے جس کے کپڑوں سے ذلالت اور آنکھوں سے غربت، مایوسی یاس اور حسرت ٹپک رہی ہے، اس کا بدن ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا نظر آ رہا تھا، اس کی ہتھیلیوں سے تقدیر کی لکیریں مٹ گئی تھیں۔
جب اس شخص کی نگاہیں مجھ سے ملیں تو ان میں کرم طلبی کی شیرینی اور ہمدردی کی بھیک کی سی تلخی دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ آدم بیزار ہے اور مجھ سے دور بھاگ کر سامنے سمندر کی آغوش میں پردہ پوش ہوجانے کا ارادہ باندھ رہا ہے، اس کے بدن میں زندگی کی جتنی قوت باقی تھی، جمع کرکے اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن کمزور اور ناتواں جسم کا بوجھ اس کے مضبوط ارادے اور قوت پر غالب آگیا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا، اس کی نگاہیں دور افق میں غروب ہوتے سورج پر گڑ چکی تھیں، شاید وہ ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنوں سے زندگی کے لیے کچھ حرارت جمع کر رہا تھا یا سورج کے ساتھ اپنے آپ کے ڈوبنے کے منظر کا نظارہ کر رہا تھا یا غروب آفتاب کے ساتھ ان کی کچھ یادیں وابستہ تھیں۔
میں جذبہ انسانیت کی خاطر اس کے پاس بیٹھا تھا جو میرے نفس کی انتہائی پاکیزگیوں میں پرورش پاتا ہے، میرا ضمیر وہاں بیٹھنے پر مجھے برابر ملامت کرتا جا رہا تھا، میری موجودگی میں وہ شخص خاصا بےچین بھی ہو رہا تھا، لیکن جستجوئے شوق نے مجھے ضمیر کا فیصلہ مان کر وہاں سے اٹھ جانے سے باز رکھا، میں نے اسے حوصلہ دیا، ہمت دی اور یقین دلایا کہ میں یہاں آپ کا مذاق اڑانے نہیں آیا ہوں، آپ سے بات کرنے آیا ہوں، تب اس نے ہلکا سا منہ کھولا اور بہت مشکل کے ساتھ کہا:
’’یہاں کی ویرانیوں میں آپ کے سامنے بیٹھا یہ خستہ اور ویران حال شخص اس آباد شہر کا محافظ ہے. جہاں سے آپ تفریح طبع کے لیے نکل آئے ہیں، اس کے بعد اس سے کچھ نہیں کہا جا سکا، آنکھوں میں آنسو کے بڑے بڑے شفاف قطرے تیرنے لگے اور وہ سسکیاں بھرنے لگا.‘‘
یہ سنتے ہی کہ ’’میں اس شہر کا محافظ ہوں‘‘، میرے ذہن میں گزشتہ ہفتے شہر بھر کے اخبارات و رسائل کی وہ شہ سرخیاں دوڑنے لگیں جس پر کالج کی لائیبریری، سٹاپ روم اور شہر کے چائے خانوں میں بہت گرم گرم بحثیں ہوئی تھیں، ان شہ سرخیوں کو پڑھ کر ہر قاری تلملا اٹھا تھا، دو تین دن سب شہر کے حاکم پر غصہ اور شہر کے محافظ پر افسوس کرتے رہے، شہر میں کالج طلبہ نے حاکم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا لیکن پھر سب اپنی معمول کی عادات میں مگن ہوگئے تھے.

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment