ہوم << ہارون الرشید - ایک محبّ وطن صحافی، ایک مینارہِ نور - ہمایوں مجاہد تارڑ

ہارون الرشید - ایک محبّ وطن صحافی، ایک مینارہِ نور - ہمایوں مجاہد تارڑ

humayoon
ہارون الرشید صاحب کے تفصیلی انٹرویو کا ''دلیل'' ویب سائٹ پرجلوہ گر ہونا باعثِ صد انبساط ہے۔ یہ گویا عامرہاشم خاکوانی صاحب کااپنے سینیئرز کے حق میں ایک طرح کا خراج تحسین ٹھہرا جو پیشہ ورانہ دیانت کا مظہر ہے۔ ہارون الرشید صاحب اپنی علمیّت، تجربہ و مشاہدہ اور زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت کی بنا پر صحافتی برادری کے سرخیل اور بلاشبہ دنیائے صحافت کی شان ہیں۔ آپ کا شعری ذوق بھی نہایت اعلیٰ ہے اور شعر فہمی درجہ کمال کو پہنچی ہوئی۔ سحر آگیں نثر کو بہ تسلسل نبھائے چلے جانے والے صاحب اسلوب قلم کار ہیں، جنہیں اللہ نے بے پناہ ریڈرشپ عطا کررکھی ہے۔ آپ کی تحاریر کا نمایاں ترین پہلو اُن میں حبّ اقبالؒ، حبّ اسلام، حبِّ جناح اور حبّ وطن کا چھلک چھلک پڑنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی با لکل واضح ہوتی ہے۔
کسی نے کہا: ”ہارون صاحب ہر دورمیں ایک ممدوح بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ جیسےکبھی اختر عبدالرحمن، کبھی حمیدگل اور کبھی جنرل کیانی۔ فوجی جرنیلوں کی نسبت عمران خان سےوابستہ توقعات شاید پوری نہیں ہوپائیں -کہ حضرت پی ٹی آئی کے کنگ میکر بننا چاہتے تھے۔“
میری رائے میں یہ انداز نظر کی بات ہے۔ زندگی یوں بھی انداز نظر ہی تو ہے۔ شاید اس نگری میں کچھ بھی 'قطعاً غلط یا ”قطعاً“ صحیح نہیں پایا جاتا۔ نیّات اور مقدارِ خلوص ہی پیمانہ ہے جس کا حتمی علم صرف خالقِ حیات کے پاس محفوظ ہے جسے یوم الجزا کے موقع پر ہی ایکسپوژ کیا جائے گا۔ آپ فقط اسی نظر سے دیکھنے پر مصر نہ ہوں تو ایک اانداز نظر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہارون صاحب کی اصل نسبت یا نسبتیں چونکہ اسلام، پاکستان، جناح ؒاور اقبالؒ ہیں، اب انہیں ان کے اپنے فہم کے مطابق ان نسبتوں کی خوشبو جہاں میسّر آئے گی، ان کے تحفظ کا زیادہ تر احساس جس ہستی میں دِکھے گا، اس کی پیروی، اس کی ہم نشینی ان کا واحد اطمینان بن جائے گا۔ یہی ہوتا رہا۔
آپ کو تسلیم کرنا ہو گا کہ مجھ سمیت اس دھرتی پر بے شمار لوگ ہیں جوروس افغان جنگ میں جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبد الرحمن کے کردار و خلوص والے بیانیے پر کامل اعتماد رکھتے ہیں (جنرل ضیاء مرحوم کے دور میں در آنے والی بعض خرابیوں اور ان کے بیشتر دیگر فیصلوں سے قطعِ نظر جن کے ہم بھی اتنے ہی بڑے نقاد ہیں)۔ یہ ہمارا اندازِ نظر ہے۔ امریکی ڈالرز سمیٹنے والا بیانیہ کسی کی نظر میں وقیع ہے تو ہو۔ تو بات انداز نظر یا زاویہِ نگاہ کی ہے۔ جیسے بھٹّو مرحوم بعضوں کی نظر میں فخر ایشیا ہیں توبعض دوسروں کی نظر میں دو چار بڑے کارناموں سے ہٹ کر جنرل ضیاء سے بھی بڑے ڈکٹیٹر، خود پسند، اور لا ابالی انسان وغیرہ (راقم الحروف کی نظر میں بھٹو مرحوم اس اعتبار سے لائقِ احترام ہیں کہ انہوں نے ہمیں تہتّر کا آئین دیا۔ ایٹمی ری ایکٹر کی بنیاد رکھی۔ عوام الناس میں سیاسی شعور پھونکا۔ ہزاروں پاکستانیوں کے لیے بیرون ملک روزگار کمانے کی سبیل کی جس سے بے شمار گھرانوں کی معاشی حالت میں انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ بھٹّو مرحوم سے کچھ فاش غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، شاید جن کی پاداش میں انہیں خدا کی طرف سے گرفت نے آن لیا۔)
موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔بات چلی تھی زاویہ نگاہ سے۔ تو یہ سب اندازِ نظر کی بات ہے۔ اگر آپ کسی کے خلوص کے قائل نہیں تو سب سیاہ دِکھے گا۔ قائل ہیں تو بادی النظر میں کچھ برا نظر آنے والا بھی اصلاً سفید اور اجلا ہی دکھائی دے گا۔ یوں نا چیز کی رائے میں عمران خان کے حوالے سے ہارون صاحب کے رومانس کا سرچشمہ بھی اصل میں پاکستان سے بے پناہ محبت ہی تھا- پاکستان جہاں وہ تبدیلیِ حالات کے دیرینہ خواب کی تعبیراپنی آنکھوں واقع ہوتا دیکھنا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں، اور جہاں پے در پے ناکردہ کار حکمرانوں اور سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ وہ بری طرح اکتا چکے تھے۔ ان میں خلوص و وفا کی کوئی چنگاری نہ پاکر وہ تحریکِ انصاف کی صورت عمران خان ایسے سٹار کو اس میدان میں لے کر اترے، اور ان کے بقول پھر اس تحریک کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی۔ اسے ملک گیر شہرت دلانے، اور خان پر ان کے بطورِ سیاستدان اہالیانِ وطن کے اعتماد کو قائم کرنے میں دامے، درمے، سخنے بے پناہ معاونت مہیّا کی۔ ایک زمین استوار کی۔ تحریر و تقریر سے اس تحریک کے دفاع میں سینہ سپر رہے۔
ہارون صاحب چاہتے تو عرفان صدیقی و دیگران کی مانند ہدیہ و مراعات کے عوض کسی بھی ”بڑے“ سے وابستہ رہ کر چین کی بنسری بجاتے۔ آخر تکلیف کیا تھی؟ کتنا آسان آپشن تھا! لیکن وہی سر پھرا پن۔ خواب دیکھنے اور مثالیے پالنے کی ”خوئے بد“۔ وہی دیوانگی و وارفتگی جو اللہ کی طرف سے تفویض کی جاتی ہے--- محض چند افراد کو تاکہ جناحؒ ایسے خلوص و وفا کے نمایندگان ہر مرحلہِ تاریخ میں خاک نشینوں کے بیچ بسیرا کیے رہیں، اور انہیں ان کی اصل سے جوڑے رکھیں۔ خان صاحب سے وابستگی بھرے اس تمام عرصہ و مدّت میں وہ خان کو تبدیلی کا استعارہ بنائے رہے۔ یہ رومانس آگے چل کر ٹوٹ گیا۔ یہ رومانس اگر ٹوٹا بھی تو اصولی بنیاد پر کہ عمران خان بہرحال 30 اکتوبر کے جلسہ کے بعد- کہ جب حسبِ تمنّا ایک سیلابی قسم کا پبلک رسپانس آگیا تھا- خاصے بدل گئے۔ پلٹ کر دیکھنا بھول گئے کہ وہ خواب و خیال جنہیں ابتداً لیکر چلے تھے، کیا ہوئے؟
خان بعض ایسے مشیروں میں گھر گئے کہ جن کے زیر سایہ تحریک انصاف کا قافلہ ِ عظیم مزید منظم ہو نے کی بجائے انتشار کا شکار رہ کر اپنی طاقت کھو بیٹھا، یا اس سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنے کی امید موہوم ہوتی چلی گئی۔ یہی وہ منظر تھا جو مستقلاً تحریک انصاف کے آسمان پر چھا گیا، اور جسے دیکھ دیکھ ہارون صاحب بالآخر عمران خان اور پی ٹی آئی دونوں سے بیزار ہوگئے۔تنقید کرتے ہیں، لیکن اب بھی گاہے اسی کے حق میں بولتے ہیں۔ یوٹوپیا اور رومانس کا طلسم جب ٹوٹتا ہے تو زخم تو لگتا ہے۔ذرا ساعت بھر کے لیے تصوّر کریں کیا کرتے آپ اگر ان کی جگہ ہوتے؟
بوجوہ راقم الحروف یہ کہنا چاہے گا کہ یہ بھی تو ہارون صاحب کا ایک انداز نظر ہی ہے، جو غلط بھی ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے ہارون الرشید صاحب سے قدرت نے خان اور تحریک کے حق میں جتنا کام لینا تھا، سو لے لیا۔ اب اگلی منزلوں کی مسافتیں طے کرانے کو آسمانوں میں یہی مقسوم ٹھہرا ہو (بشرطیکہ خان صاحب اور ان کے رفقائے کار آسمان والے سے باطنی طور پر جڑے ہوئے ہیں)۔ دعا ہے کہ خان صاحب اپنے حسن نیت کو انہی رفیقان کار کی ہمراہی میں نبھا جائیں اور اہلِ وطن کے حق میں تبدیلی کے خواب کی تعبیر کومجسّم کر دکھائیں۔

Comments

Click here to post a comment

  • بہت خوب ، آپ نے تو ردعمل میں پورا قصیدہ لکھ مارا اور خاکوانی صاحب نے شائع کر ڈالا۔ ہارون الرشید صاحب کی شان بیان کرتے ہوئے آنجناب کا پسندیدہ قول آپ بھول گئے کہ لوگ اپنی غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں ۔ اپنے نظریات کے دفاع میں ہارون الرشید صاحب شاید خود اتنا زور کبھی نہ لگائیں جتنا آپ نے لگا دیا ہے ۔
    بہرحال آپ کی نثری محنت کو داد دینی پڑے گی۔