اماں ایک کہانی سناتی تھیں.
کسی مضافاتی گاؤں میں ایک گھر تھا. اس گھر میں ایک بڑھیا اور اس کی پالتو بلی رہتے تھے. جس قسم کی روکھی سوکھی بڑھیا کو میسر تھی اسی حساب سے وہ بلی کو بھی روکھی سوکھی کھلاتی تھی. روکھی سوکھی کھانے والی بلی بھی دبلی پتلی ہی تھی.
ایک دن اس پالتو بلی کی ایک موٹی تازی بلی سے ملاقات ہوئی. اس کیلئے یہ بہت حیرانی کی بات تھی کہ کوئی بلی اتنی موٹی بھی ہو سکتی ہے. رسمی میاؤں میاؤں کے بعد اس نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ آخر تم کھاتی کیا ہو اور کہاں سے اتنا میسر آجاتا ہے جو کھا کھا کے اتنی ہٹی کٹی ہوئی پھرتی ہو. موٹی بلی نے ایک ادائے بے نیازی سے کہا کہ اس گاؤں سے کچھ فاصلے پر دارالحکومت ہے. وہاں بادشاہ کے محل میں اپنی رہائش ہے. شاہی باورچی خانے سے اتنا مالِ غنیمت باآسانی میسر آجاتا ہے کہ اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے. اس کے بعد موٹو بلی نے جو مالِ غنیمت کا نقشہ کھینچا تو دبلی بلی کے منہ میں راول ڈیم بن گیا. پھر اس نے پوچھا:- بہن تم نے یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟ کسی کے ہجر میں گھل گھل کے آدھی رہ گئی ہو یا کوئی اور معاملہ ہے؟
دبلی بلی نے دو چار ٹھنڈی ٹھار آہیں بھریں اور مسکین سی صورت بنا کر بولی :- بس کیا بتاؤں. جس گھر میں , میں رہتی ہوں وہاں کی مالکن کو بھی اتنا کھانا نصیب نہیں ہوتا تو مجھے کیسے کھلائے. موٹو بلی نے ایک لمبی سی ھممممم کی اور کہا کہ تم میرے ساتھ شاہی محل میں کیوں نہیں آ جاتی.
اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں.... دبلی بلی الوداع کیلئے بڑھیا کے پاس پہنچی اور کہا:- اچھا بڑی بی! بہت قناعت و توکل کرلیا. اب میں تو چلی شاہی محل کو.
بڑھیا نے کہا:- ہوش کے ناخن لے کلموہی... یہ سب سراب ہے نظر کا فریب ہے. دوسرے کی چپڑی کا سن کر اپنی سوکھی چھوڑ کے بھاگ پڑنا دانشمندی نہیں ہے.
مگر بلی کی آنکھوں میں جو رنگین خواب سجے تھے ان کے سامنے بڑھیا کی یہ بلیک اینڈ وائٹ باتیں کہاں ٹھہرتیں. پس وہ رخصت ہو کر شاہی محل چلی آئی.
موٹو بلی اسے محل میں گھماتی شاہی مطبخ کی طرف لے آئی جہاں پہ رکھے کھانوں کے انبار تو ایک طرف وہاں سے اٹھتی خوشبوئیں ہی دبلی بلی کی آنکھیں خیرہ , کان تیرہ اور دماغ متیرہ کرنے کو کافی تھیں. اسے آؤٹ آف کنٹرول ہوتا دیکھ کر موٹو بلی نے اسے کہنی ماری کہ انسانوں کی طرح ندیدی نہ ہو , بلی کی بچی بن اور ٹھنڈ رکھ. ابھی مالِ غنیمت سمیٹنے کا ٹائم نہیں آیا , اینویں کسی سرجیکل سٹرائیک کی زد میں نہ آجانا. مگر جس نے پہلی بار یہ سب دیکھا تھا اس سے کنٹرول مشکل تھا. بار بار گوشت کے انبار کی طرف لپکتی , اور باورچی کے ہیلپر شیک شیک کر کے بھگا دیتے.
جب بلی کی گھس بیٹھ اور دراندازی میں کمی نہ ہوئی تو شیک شیک کرتے بندے کی برداشت بھی جواب دے گئی اور جا کر تیر کمان لے آیا. موٹو بلی نے آخری بار تنبیہہ کی کہ بلی دی بچی بن انسان نہ بن... بلی پہ اب ان تنبیہوں کا کہاں اثر ہوتا تھا. اس نے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے تحت ایک تیزرفتار لمبی چھلانگ میں گوشت کے دو تین بڑے ٹکڑے لے بھاگنے کا پلان بنا کر جونہی چھلانگ لگائی. تیرکمان والا بھی چوکنا تھا. اس نے تیر کھینچ مارا جو بلی کی ٹانگ چھیدتا پار نکل گیا.
موٹو بلی نے کہا بھاگ ملکھا بھاگ... ہائے ہائے اور رونا پیٹنا کہیں اور کر لیں گے ورنہ یہاں حلال ہو جائے گی.
جان بچی سو لاکھوں پائے... گھسٹتی کراہتی واپس بڑھیا کے پاس پہنچ گئی. بڑھیا نے پرانے تعلقات کا لحاظ کرکے اسے نہ بھگایا بلکہ تیر نکال کر اس کے زخم پر پٹی بھی باندھ دی. البتہ نصیحت کیے بغیر نہ رہ سکی کہ کہا تھا ناں کہ عزت کی روکھی سوکھی ہی بہتر ہے.
اب ایک ایک کرکے سارے بزرگ یاد آ رہے ہیں... خواجہ صاحب نے بھی فرمایا تھا:-
منہ دھوڑ مٹی سر پائیم
سارا ننگ نموذ ونجائیم
کوئی پچھن نہ ویہڑے آیا
ہتھوں الٹا عالم کھلدا
کوئی محرم راز نہ ملدا
علامہ اقبال کی بات بھی اب سمجھ آئی ہے...
اے طائرِ لاہوتی , اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مکدی گل اے ہے کہ....
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
تبصرہ لکھیے