کبھی کبھی ہماری زندگی میں خلا در آتا ہے. خدا معلوم یہ خلا کہاں سے آتا ہے.
کیا یہ پہلے سے موجود ہوتا ہے اور موقع ملتے ہی پھیل کر ہماری تمام زندگی پر محیط ہو جاتا ہے یا ہم اسے خرید کر لاتے ہیں؟ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس خلا کا تجربہ ہم سب کرتے ہیں، جلد یا بدیر، ہم سب اس تجربہ سے گزرتے ہیں، کچھ جلد اس خلا سے باہر نکل آتے ہیں اور کچھ اسی خلا میں چکراتے اپنی باقی ماندہ زندگی بےمقصد گزار دیتے ہیں.
یہ خلا ہمیں اکثر اس وقت محسوس ہوتا ہے جب ہم اپنی منزل پا لیتے ہیں. جیت کی خوشی مناتے مناتے ہمیں ایک دم خالی پن محسوس ہونے لگتا ہے. پھر سوالیہ خیالات ذہن کو پراگندہ کرتے ہیں .
بس یہی تھا
یہی دوڑ تھی
اسی جیت کے لیے یہ تھکن اور یہ خواری مول لی تھی
پھر وہ جیت وہ منزل بے معنی ہو جاتی ہے
ہر مبارکباد پھیکی پڑ جاتی ہے
ڈھول تاشے نفیریاں بانسری کے سر، بے ہنگم شور میں بدل جاتے ہیں
زندگی کا پر مشقت دور اچھا اور بامعنی دکھنے لگتا ہے
کچھ حاصل کرنے کی خواہش, کچھ پا لینے کی تڑپ ہی دراصل زندگی ہے. اور اس کا حصول موت سے بھی برے خالی پن سے روشناس کرواتا ہے.
خوابوں کی تکمیل ایک خلا پیدا کرتی ہے، اس خلا کو پورا کرنے کے لیے انسان دیوانہ وار دوڑنے لگتا ہے لیکن ایک پروانے کی طرح جل جاتا ہے یا اپنے مدار میں چکراتا رہ جاتا ہے.
اس کا حل یہ ہے کہ شکر کرنا سیکھ لیں، جہاں ہیں جس حال میں بھی ہیں، شکر ادا کرنا شروع کر دیں ورنہ یہی شکر کرنا بہت مشکل سے سیکھنا پڑے گا.
ایک دن جب شکر کرنا سیکھ لیں گے تو اطمینان آپ کو اپنی آغوش میں میٹھی لوری اور سکھ کی تھپکیاں دینے لگے گا. سکون کی چادر آپ پر اوڑھا دی جائے گی.
بس شکر شرط ہے.
الحمدللہ رب العالمین کنجی ہے.
تبصرہ لکھیے