ہوم << مقروض قوم کا جشن آزادی - حمیراعلیم

مقروض قوم کا جشن آزادی - حمیراعلیم

پاکستانی ہر سال 14 اگست کو اپنا یوم آزادی قومی ترانے ملی نغمے گا کر، سرکاری پروگرام، آتش بازی، سبز و سفید کپڑے، بیجز، ٹوپیوں اور چہرے پر پرچم پینٹنگ کر کے  بھرپور جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔اگر آپ کا کوئی رشتے دار اربوں روپے کا مقروض ہومگر مزید قرض لے کر ہر ایونٹ اور دن کو ایسے شاہانہ انداز میں منائے جیسے کوئی بادشاہ مناتا ہے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟؟؟

یقینا بے وقوف کہ پہلے ہی مقروض ہے اور اوپر سے اور قرضے لے کر تقریبات پر فضول خرچی کر رہا ہے۔تو جناب جب آپ ہر دن کسی یادگار، جشن، عرس، ڈے کے طور پر مناتے ہوئے لاکھوں اڑا دیتے ہیں تو یہ خیال کیوں نہیں آتا؟
عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی رپورٹز کے مطابق جون 2025 تک ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم تقریباً125 بلین ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ صرف پچھلے مالی سال (2024–25) میں قرضوں میں اضافہ 10% سے زیادہ رہا۔  صارفین اور چھوٹے کاروباری افراد بھی ملک کے اندرونی قرضوں میں جکڑے جا رہے ہیں تنخواہ دار طبقہ سے لےکر کسان تک  پرقرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔

یہ ٹوٹل قومی قرضےاگر سالانہ آزادی کے جشن پر ہونے والے اخراجات کے مقابلے میں رکھیں تو یہ بذاتِ خود ایک مذاق دکھائی دیتا ہے۔  2024 کےجشنِ آزادی کے دوران لائٹنگ، آتش بازی، شوز، کنسرٹس پر ایک خطیر رقم روپے خرچ کی گئی اگر ایک دن کے جشن کی بجائے یہی رقم کسی غریب کو گھر بنانے، قرض اتارنے یا کاروبار شروع کرنے کے لیے دے دی جاتی توفائدہ ہوتا۔ عظیم کام ہوتا۔صرف ایک دن کی رنگینی پر ممکنہ طور پر خطیر رقم پاکستان کی معیشت سے نکالی گئی۔ایک ایسی معیشت جس کا ہر سال جنرل بجٹ تقریباً 20 ٹریلین (2 ہزار ارب روپے) بنتا ہے۔ پھر 125 بلین ڈالر کے قرضے کی ذمہ داری کون لے گا؟

عوام اور مستقبل کی نسلیں۔جب حالات مشکل ہوتے ہیں تو گھر کے تمام افراد مل جل کر اپنے اخراجات کم کر کے گزارہ کرتے ہیں۔ایسے ہی ہم سب کو اپنے ضروری اخراجات پر بھی کنٹرول کرنا ہو گا کجا کہ ایک دن جشن منانے پر لاکھوں لگا دئیے جائیں۔جشن آزادی محض ایک روایتی دن نہیں بلکہ ایک موقع ہے اپنے ماضی، حال اور مستقبل پر غور کرنے کا۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ ملک قربانیوں سے حاصل ہوا۔ اور اب اس کی حفاظت، ترقی، اور خوشحالی کی ذمہ داری ہم سب کی ہے۔اگرچہ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ لیکن اس کا اظہار قوم کی تعمیر، خدمت خلق، ایمانِ عمل اور اسلامی تصورات کی روشنی میں ہونا چاہیے۔

اگر جشن آزادی منانا اتنا ہی اہم ہے تو بحیثیت مسلمان شرعی اخلاقی حدود میں رہ کر اسراف سے بچتے ہوئے ویسے منایا جائے جیسے فتح مکہ منائی گئی تھی۔شکرانے کے نوافل ادا کر کے صدقہ خیرات کر کے۔ہر شہری اپنا کردار دیانتداری سے ادا کرے خواہ اپنی جاب ایمانداری سے کرنا ہو یا ٹیکس ادا کرن یا دوسروں کے حقوق ادا کرنا۔نوجوان ملکی تعمیری و ترقی کے لیے تعلیم حاصل کریں،  ہنر سیکھیں۔ہر سال 14 اگست کو نئے لباس اور جھنڈیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے کیا جائے کہ ہم ملک کو بہتر بنانے کے لیے کیا کردار ادا کریں گے. بیماری یا سیلاب کی صورت میں بڑھ چڑھ کر صدقہ و عطیات، یتیم بچوں کی کفالت، ضرورت مندوں کی مدد، ملکی تعمیر و ترقی کے اداروں میں رضاکارانہ خدمات، ماحولیات، تعمیراتی منصوبے، اسکولز یا پبلک سہولیات کے قیام میں عملی شمولیت یہ سب ایک حقیقی جشنِ آزادی کی تعبیر ہیں۔    

    اگر جشن ضروری ہے تو سرکاری سطح پر سادگی اور شفافیت کے ساتھ یہ دن منایا جا سکتا ہے۔نمائشی آتش بازی اور مہنگے کنسرٹس کی بجائے شکرانے کی سماجی محافل،عوامی خدمت یا فلاح و بہبود کے پروگرامز،سول سوسائٹی اور عوام کے لیے اسمال بزنس کےاسٹالز، واک،رمضان کی طرح نفل، صدقے، مختصر دعائیں، علم و حکمت کے مشاعرے، معذور بچوں کے سکولوں میں پروگرامز اور سرکاری افسران اور سول سوسائٹی کے ساتھ ہنر سکھانے کے پروگرام وغیرہ منعقد کیے جائیں ۔آزادی کے دن سڑکوں پر بنا سائلنسر کے موٹر بائیکس چلا کر،شراب نوشی کر کےشور و شرابے، کنسرٹس سے معاشی نقصان، اخلاقی ابہام اور سماجی بے امنی پیدا ہوتی ہے۔

کیا یہی آزادی کامقصد ہے؟
یا یہ سب ایک عارضی لذت اور وقتی خوشی کا سامان ہے؟

اگر جشن کی روشنی، لائٹنگ اور آتش بازی پر لاکھوں روپے ضائع ہو سکتے ہیں تو ملک کی سڑکوں، نالوں، اسکولوں، اسپتالوں، صحت کی سہولیات، پنشنز، یتیموں اور بیواوں کے حقوق پر کیوں خرچ نہ کریں؟کیا ہمیں ایک سال میں تقریباً 800 ارب روپے قرض بڑھا کر ہر دن گرانٹوں کا سہارا لے کر، قرضوں کے ساتھ اپنا سر جکڑ کر رہنا منظور ہےصرف اس لیے  کہ ہم ایک دن خوشی منا سکیں؟

نہیں۔پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے حقیقی آزادی ہے:بین الاقوامی آزادی (بیرونی قرضوں سے رہائی؛ پورے قرضوں سے نجات)سماجی آزادی (غربت، جہالت، صحت کی کمی سے نجات)اخلاقی آزادی (شہوانیت، شراب، بے راہ روی، حرام  سے مکمل بچاو) اور یہ صرف ایک دن تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ پورا سال  سرکاری و نجی سطح پر ایسے منصوبے تشکیل دئیے جائیں کہ ہر ضلع میں ایک دن یا ہفتے میں یکم از کم سال میں چند دن ہر شخص یتیم خانے، مساجد، نالوں، تعلیمی اداروں، پنشنرز کی بہبود، دیہی وشہری انفراسٹرکچر میں ہاتھ بٹائے۔

بچوں کو تاریخی معلومات دیں،پاکستان کے ہیروز کی زندگیوں سے روشناس کروائے، آلودگی کی خلاف مہم چلائی جائے، صفائی مہم، شجرکاری کی جائے، ویسٹ ڈسپوزل، پانی کے بحران پر قابو پایا جائے۔روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں ۔جشنِ آزادی صرف ایک دن کی لائٹنگ، آتش بازی، پرچم لہرانے یا کنسرٹس کا نام نہیں۔یہ وہ دن ہے جب پاکستان کے بانیوں، محنت کشوں، علماء اور شہداء نے اپنی جانیں قربان کر کے یہ سرزمین آزاد کرائی۔اگر آپ نیا سکول، ایک صحت کیمپ، یتیم بچے، مستحق گھرانہ کے لیے کھانا یا گھر مہیا کرسکتے ہیں تو ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی مدد ہےصرف چند گھنٹے کی روشنی نہیں۔

آئیے یہ عہد کریں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی مقدور بھر ملکی ترقی کے لیے کام کرے گا۔تبھی حقیقی جشن منانے کا مزہ آئے گا۔آئیے اس سال جشن آزادی منائیں مگر شعور کے ساتھ، ذمہ داری کے ساتھ، اور اس نیت کے ساتھ کہ ہم اس وطن کو وہ بنائیں گے جو قائد اعظم اور اقبال کا خواب تھا۔

Comments

Avatar photo

حمیرا علیم

حمیراعلیم کالم نویس، بلاگر اور کہانی کار ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی، اسلامی اور دیگر موضوعات پر لکھتی ہیں۔ گہرا مشاہدہ رکھتی ہیں، ان کی تحریر دردمندی اور انسان دوستی کا احساس لیے ہوئے ماحول اور گردوپیش کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ ایک انٹرنیشنل دعوی تنظیم کے ساتھ بطور رضاکار وابستہ ہیں اور کئی لوگوں کے قبول اسلام کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔ کہانیوں کا مجموعہ "حسین خواب محبت کا" زیرطبع ہے

Click here to post a comment