کیا امریکی صدر کو امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے؟
کمبوڈیا کی حکومت نے حال ہی میں امریکی صدر کو امن کانوبل انعام دینے کے حوالے سے بیان دیا ہے. اس سے پہلے پاکستانی حکومت کی طرف سے ایسا ہی بیان دیا جا چکا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام ملنا چاہیے.
کیونکہ انہوں نے پاک بھارت جنگ رکوانے میں اہم کردار ادا کیا پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک ہیں. ان کے درمیان کشیدگی اور جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا امکان تھا جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا بھر کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا۔ جنگ کو رکوا کر ڈونلڈ ٹرمپ نے دانشمندی کا ثبوت دیا اپنے اس اقدام کا ذکر وہ اپنی تقاریر میں اکثر کرتے دکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاک بھارت جنگ رکوائی اس کے ساتھ ہی وہ اسرائیل، ایران اور کمبوڈیا کی جنگ رکوانے کا بھی ذکر کرتے ہیں. ہماری نظر میں ان کے یہ اقدامات قابل تحسین ہیں وہ امن کے علمبردار ہیں تو ایک نظر کرم غزہ اور کشمیر پر بھی فرما دیں جو امریکی حمایت کے ذیادہ حقدار ہیں ۔
اہل غزہ ایک طویل عرصے سےاسرائیلی چنگیزیت کا شکار ہیں غزہ پر بمباری کر کے اسرائیل نے نہ صرف پورے علاقے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیاہےبلکہ غزہ کے نہتے معصوم شہریوں پر پے در پے حملوں کے ذریعے ان کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں بوڑھے، بچے ،جوان ،عورت میں کوئی تخصیص نہیں رکھی. حتی کہ زخمی اور ہسپتالوں میں زیر علاج مریض بھی اس کی دسترس سے بچے ہوئے نہیں ہیں. ایک طویل عرصے سے غزہ کے عوام پر اسرائیل نے بھوک اور پیاس مسلط کر رکھی ہے. اسرائیلی فوج نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور عوام کو غذا اور پانی کی فراہمی روک کر انہیں بھوکا پیاسا مارنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے.
اس وقت غزہ میں بھوک اور پیاس کا راج ہے .ہر روز تیس چالیس افراد یا تو فائرنگ اور بمباری سے شہید ہورہے ہیں یا غذائی قلت کے سبب مر رہے۔ غذا کی شدید قلت سے قحط کی صورتحال ہے۔ دنیا بھر سے کھانے پینے کا امدادی سامان سرحد پر پہنچ چکا ہے مگر اسرائیلی فوج نے ان سامان سے بھرے ہوئے ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے مرے پر سو دورے جو لوگ امداد لینے کے لیے آتے ہیں ان پر فائرنگ کر کے انہیں مارا جا رہا ہے۔ آئے دن اس قسم کے واقعات میں سینکڑوں افراد شہید ہو رہے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ اسرائیل سے یہودیوں کی غیر قانونی آباد کاری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے.
غزہ کے مجبور اور بے کس عوام کا کوئی پرسان حال نہیں. دنیا بھر میں ان کے حقوق کے لیے عوام مظاہرے کر رہے ہیں مگر اسرائیل کو اس جارحیت اور چنگیزیت سے روکنے والا کوئی نہیں. کیونکہ اسے سپر پاور امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے. امریکی صدر کو باور ہو کہ یہ صورتحال نہ صرف امن کے لیے سخت ترین خطرہ ہے. بلکہ انسانیت کے نام پر بدترین دھبہ ہے اور خود امریکی حکومت اس کی زمہ دار ہے۔ اسرائیل کو اس کے مذموم عزائم سے باز رکھ کر غزہ میں اس کے انسانیت سوز ظلم کو رکوا کر ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف دنیا کے امن بلکہ انسانیت کے لیے بہت بڑا کارنامہ انجام دے سکتے ہیں.
مگر امریکہ کا حال یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے، دوسری طرف اسرائیل کے بھائی بند بھارت نے کشمیر جموں و کشمیر پر ریاست جموں و کشمیر پر جبری قبضہ کر رکھا ہے. کشمیری عوام کی امیدوں اور امنگوں کے خلاف زبردستی کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا ہے اور کشمیری عوام کو احتجاج کا حق بھی حاصل نہیں۔ ظلم اور جبر کا یہ عالم ہےکہ کشمیر میں نو لاکھ کی تعداد میں بھارتی فوج تعینات ہے جو دنیا کے کسی خطے میں فوج کی سب سے بڑی تعداد ہے۔بھارتی فوج کا مقصد کشمیر میں مسلمان آبادی کو ظلم اور جبر کے ذریعے ان کے سیاسی حقوق سے محروم کرنا ہےاور اپنے حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانا ہے۔
پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے کر کشمیری عوام کے لیے مصائب کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا ۔ کشمیری مسلمانوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے۔ بھارتی حکومت نے بھارتی عوام کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے ہیں اس کے ذریعے سے بھارت کشمیر میں مسلمانوں کے تناسب کو کم کرنا چاہتا ہے۔ آئے روز گرفتاریاں ،ماورائے عدالت ہلاکتیں عورتوں کی عصمت دری کے واقعات عوام کے سیاسی اور شہری حقوق کی پامالی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔
اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں مگر بھارت ان کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہےاور انھیں حق ارادیت دینے سے انکاری ہے۔ بھارتی حکومت نے 5اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت میں ضم کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔
کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی بنیاد ہے کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے، کشمیری عوام کو حق خود ارادیت مل جائے ،وہ اپنی پسند کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق کر سکیں تو جنوبی ایشیا میں جنگ کا بہت بڑا خطرہ ٹل جائے، لیکن جب تک یہ مسئلہ موجود ہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات درست نہیں ہو سکتے امریکی صدر یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرا کے خطے میں ایٹمی جنگ کے امکان کو ختم کر سکتے ہیں۔ اس وقت مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ عالمی امن کے لیے بہت بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ میں دنیا بھر کے ممالک نے ان مسائل کو حل کرانے کی کوشش کی مگر بھارت اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی بدولت 70 سال سےزائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ مسئلے جوں کے توں موجود ہیں امریکی صدر بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ امن و امان کے خواہشمند ہیں.
اب اگر وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں تو ان مسائل کو حل کرانے میں اقوام متحدہ کا ساتھ دیں ، بھارت اور اسرائیل کو جارحیت سے روک کر ان مسائل کو حل کرا دیں تو ان کی یہ کوشش دنیا میں امن و امان قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی اور اس صورت میں وہ بجا طور پر نوبل انعام کے حقدار ہوں گے۔
تبصرہ لکھیے