یہ ایک ایسا سوال ہے ، جس پر سنجیدہ لوگوں کو اپنے خیالات کو دین اسلام اور حکمت و دانش کی روشنی میں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے کہ جو جتنا دین دار ہوتا ہے ، وہ اتنا کوشش کرتا ہے کہ اپنی جنسی خواہشات کے ڈسٹرب ہونے کا ذمہ دار عورت کو سمجھے ، بلکہ اس کا تعلق دین داری سے بھی نہیں ہے ، جو جتنا معاشرے کا سیانا بنتا ہے ، اس کی حکمت و دانائی کا خلاصہ یہی نکلتا ہے عورت کو معاشرے سے غائب کر دیا جائے ۔
یقیناً پردہ اسلام کا حکم ہے ، اللہ کو راضی کرنے اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے ۔ مگر ایک صرف پردے پر اس جنسی ڈسٹرب نفسیات کو ڈال دینا اور اسی کے گرد ساری مشین گھما دینا ، اسلام کی تعلیمات کو نا سمجھنا اور ان کا غلط استعمال کرنا ہے ۔ سب سے پہلے تو آپ رد عمل کی نفسیات سے نکلیں ، تسلی رکھیں ہم ہرگز یہاں لبرلزم کو سپورٹ نہیں کر رہے ، نہ ہی مغربی کلچر کی بے راہ روی کو درست قرار دے رہے ، یقینا وہ اللہ سے بغاوت اور فطرت سے جنگ ہے ، جو ہر صورت رد کر دیے جانے کے قابل ہے ۔مگر ہمیں رد عمل کی نفسیات سے نکل کر سوچنا ہو گا ۔ معاشرے میں ہر باطل فکر صرف اپنی سازشوں کے سبب ہی نہیں پھیلتی، بہت سارا باطل معاشرے میں حق کی درست ترجمانی نہ پائے جانے کے سبب بھی پھیلتا ہے ۔
خیر ہم واپس اپنے سوال پر آتے ہیں کہ کیا واقعی عورت کو پردہ کروانے سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو جائے گا ؟ ۔ پردہ عبادت اور پاکیزگی کا سبب ہے۔ اس پر کوئی اختلاف نہیں ۔ مگر جب ہم اسے واحد مسئلہ اور حل کے طور پر لیتے ہیں اور باقی اسباب پر غور نہیں کرتے تو ہم افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو معاشرے کا کلچر پردے کا مطلب عورت معاشرے میں کہیں نظر نہ آئے لیتا ہے ، اور بعض نصوص جو گھر میں عورت کے رہنے کی فضیلت بیان کرتی ہیں ، ان کی بنیاد پر عورت کے گھر سے نکلنے کے ساتھ معاشرے کے سارے فساد کو جوڑتا ہے جس کی سیرت میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ۔
اسلامی معاشرے میں عورتیں مسجدوں سے لے کر بازار تک ، میدان جنگ سے لے کر میدان دعوت تک ہر جگہ شرعی دائرہ کار میں ایکٹو رہی ہیں ، اسے اس ساری کہانی میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔ مشکل سے ایسی احادیث کو برداشت کیا جاتا ہے ۔ پردے کے حوالے سے چہرے کے پردے پر اہل علم کے اختلاف کو سارے فساد کی جڑ سمجھا جاتا ہے ، اختلاف کرنے والوں کو برے القابات دیے جاتے ہیں ۔
خیر اب ہمیں ان چند اسباب کو ذکر کرتے ہیں جو شہوانی خواہشات کو ڈسٹرب رکھتے ہیں ، جن پر ہمارے ہاں غور نہیں ہوتا ۔ اس میں سب سے اہم بچپن میں ہونے والے وہ جنسی حادثات ہیں جن سے بچے چھوٹی عمر میں سکولوں ، مدرسوں ، گلی محلوں میں گزرتے ہیں جن کے نتیجے میں لڑکپن کے خوبصورت دن جنسی ظلم سہتے یا پھر ظلم ہو جانے کی کسی غلطی کا گلٹ سہتے ہوئے گزرتے ہیں ۔
بچپن کے یہ زخم جو مڈل اور لوئر کلاس کے یہاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں اور رہے ہیں ۔ ان کو بڑے بزرگ ، استاد ، علماء اس طرح ڈیل نہیں کر پاتے کہ جیسا اس موضوع پر توجہ دینے کا حق ہے ۔ یہ زخم ہماری زندگی میں کیسے کیسے زہر گھولتے ہیں ۔ اس کو جاننے ، سیکھنے اور اس کے علاج پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔
جب ان زخموں کا علاج نہیں ہوتا تو تب انہیں معاشرے میں ایک نارمل حادثہ سمجھا جاتا ہے ۔ آہستہ آہستہ یہ حادثے ہمارے معاشرتی تصورات تشکیل کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں ہم اپنے بچوں کی اورر کیئر کے چکر میں کہیں انہیں جائز آزادیوں سے محروم کرتے ہیں ، کہیں اپنی تین چار سالہ معصوم بچیوں کے فیشن والے کپڑوں سے ہمیں گھن اور خوف آتا ہے ، جسے ہم مذہب کے دلائل اور حوالوں سے مزید پیچیدہ کر دیتے ہیں ۔
یقین مانیے ہماری زندگی کے حادثاتہی ہمارے تصورات ، خیالات اور عقائد کی تشکیل کرتے ہیں ، وگرنہ عورت کا وہ تصور جو نبوی معاشرے میں ہمیں نظر آتا ہے ، اسے ہمارے دماغ افورڈ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
جن معاشروں میں ان نفسیاتی امراض کا حل محض عورت کو سخت سے سخت پردہ کروانا نکالا گیا ۔ آپ حیران ہوں گے کہ وہاں قوم لوط کا عمل پروان چڑھا ہے ۔ اور وہاں مسائل مزید پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں ۔ رب تعالیٰ نے اپنی خوبصورت شریعت میں جس نظام کو تشکیل دیا ہے اور جن احکامات کی پاسداری کرنے کی تلقین کی ہے ۔ انہی کو اتنا ہی ماننے میں ہماری بھلائی ہے ، اپنی طرف سے غلو پر مبنی تشریحات اور من مانیاں ہمیں کبھی سکون نہیں دے سکتیں اور نہ ہی اس سختی کے ذریعے مغربی کلچر کا مقابلہ ممکن ہے ۔
خیر یہ آسان نہیں ہے ، مجھے علم ہے ، مگر یہ ایک کاوش ہے کہ کاش کچھ سنجیدہ لوگوں تک یہ آواز پہنچ سکے ، وہ اپنی دو تین سالہ بچیوں کے چھوٹے کپڑوں پر غصے میں آنے کی وجہ سمجھ سکیں ، وہ محض عورتوں کو اپنی ڈسٹرب نفسیات کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے اصل عوامل پر غور کریں ۔ عورتوں پر مسجدوں کے دروازے بند کرنے ، انہیں ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بنانے کی بجائے امراض کی جڑ کو سمجھیں اور اس کے علاج کی طرف توجہ دیں۔ ہم اللہ سے دلوں کی پاکیزگی کا سوال کرتے ہیں ، جس نے مومن مردوں اور مومن عورتوں میں اسلام کی نسبت سے ولاء، نصرت ، خیال کرنے ، سلام کرنے ، اسلامی آداب کی پاسداری کرتے ہوئے ، دین کی سربلندی کے لئے جدوجہد کرنے کے لیے انہیں ایک جماعت بنایا ہے ۔
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(71)
اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے
تبصرہ لکھیے