18 سال قبل ایران میں اپنے سات روزہ قیام میں میری ایک مجہول سی رائے بنی تھی جو آج بھی وہی ہے۔ ایران کو بادشاہت سے تو نجات مل گئی لیکن رضا شاہ پہلوی کا رائج کردہ مغربی طرز حیات پوری رعنائیوں کے ساتھ وہاں موجود ہے۔ اب ایران پر آیت اللہ حضرات کی آہنی گرفت کی مثال ماضی کے سوویت یونین کی سی ہے۔
فرق یہ ہے کہ باشندگان یونین موقع نکال کر مغربی ملکوں کو بھاگ جاتے تھے۔ ایران میں ایسا نہیں ہے۔ سوویت عوام اشتراکیت اور اپنی حکومت دونوں سے نالاں تھے۔ ایرانی عوام آیت اللہ رجیم کے اپنے ایجاد کردہ "اسلامی" اطوار حکمرانی سے نالاں ہیں نہ کہ اسلام سے۔ انہوں نے امام خمینی کا خوب ساتھ دیا تھا لیکن اسلام کے بالجبر نفاذ نے ان میں بتدریج وہ منفی رد عمل پیدا کیا جو ماضی کے مغربی طرز زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس منفی سوچ کے اندر موساد نے پھندے لگا کر جاسوسی کا موثر تانا بانا بچھا لیا جس نے حالیہ جنگ میں صف اول کی جوہری و عسکری ایرانی قیادت ختم کر دی. شہنشاہیت ایران میں اگر ایک انتہا تھی تو آیت اللہ حضرات یکسر دوسری دنیا کے لوگ ہیں۔
ریاستی امور پر گرفت مضبوط کر کے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ عوام واقعتاً ان کے گرویدہ ہیں۔ اوباما کے دور میں ایران پر عاید پابندیاں ہٹنے کی خبر آئی تو ایرانی لڑکے لڑکیوں نے رات بھر تہران کی سڑکوں پر جشن منایا۔ اس لیے نہیں کہ معاشی مصائب اور تفکرات ختم ہوں گے، بلکہ اس لیے کہ اب ہمارے یہاں امریکی میکڈونلڈ قائم ہوں گے اور جینز آئیں گی، امریکی چاکلیٹ کھانے کو ملیں گی۔ حزب اختلاف کی طاقت پارلیمان کے ساتھ ساتھ انہی میلوں ٹھیلوں سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ سات دنوں میں تلاش کے باوجود مجھے مذہبی لباس میں ایک شخص نظر نہیں آیا۔
آیت اللہ حضرات سے اپنی فکری قربت کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کی سیاسی مہم جوئیاں ان گنت ہیں۔ اس کیفیت میں یہ لوگ یمن، لبنان، عراق، بحرین، شام اور دیگر پڑوسی ممالک میں اپنا مسلکی انقلاب کیوں کر برآمد کر پاتے۔ ان لوگوں نے تو یہاں تک حد کر دی کہ پڑوس میں 85 فیصد شیعہ ملک آذربائجان سے مسیحی آرمینیا کی خون ریز جنگ ہوئی تو یہ لوگ آرمینیا کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے شام میں ایک اقلیت کی مدد سے اپنی پراکسی قائم کی۔ پراکسی کے تحلیل ہوتے ہی وہی ٹولہ اب اسرائیلی سرپرستی میں غالب اکثریتی حکومت سے جنگ کر رہا ہے۔ آیت اللہ حضرات سے اپنی فکری قربت کے باوجود کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کی سیاسی مہم جوئیاں ان گنت ہیں۔
اس کیفیت میں یہ لوگ یمن، لبنان، عراق، بحرین، شام اور دیگر پڑوسی ممالک میں اپنا مسلکی انقلاب کیوں کر برآمد کر پاتے۔ ان لوگوں نے تو یہاں تک حد کر دی کہ پڑوس میں 85 فیصد شیعہ ملک آذربائجان سے مسیحی آرمینیا کی خون ریز جنگ ہوئی تو یہ لوگ آرمینیا کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے شام میں ایک اقلیت کی مدد سے اپنی پراکسی قائم کی۔ پراکسی کے تحلیل ہوتے ہی وہی ٹولہ اب اسرائیلی سرپرستی میں غالب اکثریتی حکومت سے جنگ کر رہا ہے۔معطر ہوا کا ایک جھونکا اسلام آباد میں متعین ایرانی سفیر کی جانب سے آیا ہے۔
فرماتے ہیں:
"ایران, پاکستان, سعودی عرب اور ترکیہ مل کر اتحاد بنا سکتے ہیں. اس اتحاد میں چین کی شمولیت بہت اچھی ہوگی".
یہ بیان ایرانی حکومت کی متغیر پذیر پالیسی کا غماز ہے. امید ہے کہ ایرانی زعما کا وضو اب اور آئندہ برقرار رہے گا۔ پاکستان نے ایران کے ہاتھوں بہت چرکے کھائے۔ اپنا پرچم روندے جانے کے باوجود اسی ایران سے ہم نے خوب جوہری تعاون کیا لیکن ہوا کیا؟ ہمارے معلومات بھرے بوجھل صندوق ایران نے امریکہ کے حوالے کر کے ہمارے لیے مصائب کے پہاڑ کھڑے کر دیے تھے۔ اللہ کرے اب ایران کا وضو برقرار رہے۔ اپنے ساتھ مثبت ایرانی رویے کا ذکر بھی لازم ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کا ایرانی حصہ ایران مکمل کر چکا ہے اور پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ معاہدے کے مطابق ایران بین الاقوامی فورم پر چلا جائے تو ہم پر 18 ارب ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے۔
متشکر برادر ایران، متشکر!
تعلقات سازی میں حکومتیں متعدد عوامل سامنے رکھتی ہیں۔ تینوں ملکوں کے تعلقات بوجوہ ہمیشہ جوار بھاٹے کا شکار رہے ہیں۔ چھوٹے سے قضیے پر تعلقات میں معمولی خراش کی بجائے بھونچال سہنے پڑتے رہے۔ لیکن تینوں کے عوام اپنے بود و باش میں فرق کے باوجود ایک ہی تہذیب کے برگ و بار ہیں، تابندہ اور باوقار اسلامی تہذیب کے گل بوٹے! ایران میں اپنے مختصر لیکن بھرپور مطالعاتی مدت قیام میں ایرانی عوام کو میں نے بے پناہ خوبیوں سے آراستہ پایا۔ عام زندگی میں یہ لوگ لڑائی بڑھائی سے کوسوں دور اور گل و بلبل کے رسیا ہیں۔
ان کے اس طرز زیست سے اسلامی تہذیب کے وہ جھرنے نکلتے ہیں جن کا اپنا ہی رنگ ہے۔ اس پر اگلی دفعہ گفتگو ہوگی۔ افغانستان کو دو سپر پاور سے پنجہ آزمائی کرنا پڑی۔ ایران نے مغرب کے پروردہ اسرائیل جیسے طاقتور لیکن کمینے دشمن کی ناک رگڑائی۔ اور ننھے سے نو زائیدہ پاکستان نے اشوک اعظم کے جانشین کو خود اسی کی للکار پر بار بار خاک چٹوائی۔ تینوں ملک بار بار موت سے آنکھیں چار کر کے اب کندن بن چکے ہیں۔ رقبے، آبادی، وسائل اقتصاد اور زر مبادلہ کے ذخائر کی اہمیت مسلم ہے اور لارنس آف عریبیہ کی ذریت کے پاس یہ سب کچھ موجود ہے۔
لیکن ٹرمپ آئے دن نہ صرف انہیں خاک چٹواتا رہا ہے بلکہ سینکڑوں ارب ڈالر اینٹھ کر ان کا منہ بھی چڑاتا ہے۔ لیکن حالات ہمارے حق میں انگڑائی لے چکے ہیں۔ تینوں ملکوں کی قیادت، اتحاد امت مسلمہ پر مطلقا یکسو ہے۔ ان تینوں کو یکجا بیٹھ کر اور ماضی کو بھول کر خوب مکالمے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ صدر ایران کا دورہ پاکستان اسی کی ایک کڑی ہوگی۔ ہماری شاہراہوں کے جال کا ایک سرا گوادر سے شروع یا وہاں ختم ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اسے ایرانی بندرگاہ چا ہ بہار سے جوڑ کر دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندیاں نرم کر دی جائیں۔
تبصرہ لکھیے