ہوم << پاکستانی کرنسی کا بحران: استحکام کا سراب اور مالیاتی تباہی کا اندیشہ - عدنان فاروقی

پاکستانی کرنسی کا بحران: استحکام کا سراب اور مالیاتی تباہی کا اندیشہ - عدنان فاروقی

بظاہر پاکستانی روپیہ 284 روپے فی ڈالر کی سطح پر مستحکم دکھائی دیتا ہے، لیکن ماہرین معاشیات کے مطابق یہ استحکام حقیقت نہیں بلکہ ایک مصنوعی پردہ ہے، جس کے پیچھے ایک بڑا مالیاتی بحران چھپا ہوا ہے۔ بین الاقوامی اداروں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، اور مختلف قرض دہندگان کے ڈیٹا کا تقابلی تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی مالی صورتحال سری لنکا (2022) اور تھائی لینڈ (1997) جیسے بحرانوں سے قبل کی معاشی علامات سے خوفناک حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

پاکستان کا سرکاری بیرونی قرضہ $131 ارب ڈالر بتایا جاتا ہے، مگر جب سرکاری اداروں کی واجبات، توانائی کے شعبے کی ضمانتیں، اور چینی منصوبوں میں حکومتی واجبات شامل کیے جاتے ہیں تو یہ مجموعی رقم بڑھ کر $219 ارب سے تجاوز کر جاتی ہے، جو ملکی جی ڈی پی کا 73 فیصد بنتی ہے جبکہ حکومت اسے صرف 42 فیصد ظاہر کرتی ہے۔ یہ قرضے صرف کتابی حساب نہیں، بلکہ ان کی ادائیگی ملک کی معیشت پر براہ راست بوجھ ہے، جس کی کوئی پائیدار حکمتِ عملی موجود نہیں۔ اسٹیٹ بینک نے صرف 2024 میں روپے کی قدر کو سہارا دینے کے لیے 5 ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے۔ ملک کے پاس اس وقت صرف 14.5 ارب ڈالر کے ذخائر بچے ہیں، جبکہ ماہانہ اخراجات 400 سے 750 ملین ڈالر کے درمیان ہیں۔ اگر یہ رفتار جاری رہی تو آئندہ 18 سے 24 ماہ میں ذخائر خطرناک حد تک ختم ہو سکتے ہیں۔

پاکستان نے چین سے 30 ارب ڈالر کے قریب قرض لیا ہے، جس میں زیادہ تر رقم سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں لگائی گئی ہے۔ تاہم یہ منصوبے خاطر خواہ آمدنی پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور اب ہر سال 4.5 ارب ڈالر کی واپسی لازم ہے۔ یہ صورتِ حال ایک "قرض پر قرض" کے شیطانی چکر کو جنم دے چکی ہے، جہاں پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینا ناگزیر بن چکا ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر پاکستان ادائیگی میں ناکام ہوتا ہے، تو چین جیسے قرض دہندہ گوادر بندرگاہ جیسے اہم قومی اثاثوں پر دعویٰ کر سکتا ہے۔ پاکستانی بینکوں نے اپنے اثاثوں کا 60 فیصد حصہ حکومت کے قرضوں میں لگا رکھا ہے، جو کہ عالمی اوسط (16 فیصد) سے تین گنا زیادہ ہے۔

یہ ایک خطرناک صورتحال پیدا کرتا ہے:
حکومت پر دباؤ → بینک غیرمحفوظ
بینک کمزور → کاروباری قرضے رک جاتے ہیں
معیشت سست → حکومت کی آمدنی مزید کم
آئی ایم ایف نے اسے دنیا کا سب سے زیادہ حکومتی انحصار رکھنے والا بینکاری نظام قرار دیا ہے۔

تجارتی خسارہ: بڑھتا ہوا بوجھ
پاکستان ہر سال 58.4 ارب ڈالر کی اشیاء درآمد کرتا ہے، جبکہ برآمدات صرف 32.1 ارب ڈالر ہیں۔ یعنی 26.3 ارب ڈالر کا سالانہ خسارہ جو قرض لے کر ہی پورا کیا جاتا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص 32,000 روپے ماہانہ کمائے اور 58,000 روپے خرچ کرے—اور ہر مہینے قرض لے کر فرق پورا کرے۔ ایسی معیشت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔

بحران کے امکانات: حسابی ماڈل کیا کہتا ہے؟
ایک تحقیقی مالیاتی ماڈل، جس میں 50 سے زائد معاشی اشاریے شامل کیے گئے ہیں، ظاہر کرتا ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو آئندہ دو سالوں میں کرنسی بحران کا امکان 89 فیصد ہے۔روز بروز گرتے ہوئے ذخائر، بڑھتے ہوئے قرضے، اور محدود بیرونی مالی وسائل نے پاکستان کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی آسان نہیں۔

ممکنہ دھماکہ خیز محرکات
ماہرین کے مطابق تین واقعات بحران کو فوری جنم دے سکتے ہیں:
1.خلیجی ممالک کی طرف سے 12 ارب ڈالر کی رقوم واپس لینا
2.چین کا 6.6 ارب ڈالر کا قرض ری شیڈول کرنے سے انکار
3.بین الاقوامی بینکوں کی جانب سے تجارتی مالیاتی سہولت روک دینا

کوئی بھی ایک واقعہ پاکستان کو فوری کرنسی ڈی ویلیوایشن یا خارجی ڈیفالٹ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ کرنسی بحران کی صورت میں مہنگائی کا طوفان آئے گا جس کے عوام پر مندرجہ ذیل اثرات پڑ سکتے ہیں. درآمدی اشیاء، جیسے ایندھن، ادویات، اور خوراک کی قیمتوں میں 50–100 فیصد اضافہ ممکن، تنخواہوں کی اصل قدر میں کمی. سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں 2022 میں کرنسی گرنے سے لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ پاکستان سالانہ 9 ارب ڈالر دفاع پر خرچ کرتا ہے، جن میں سے 81 فیصد چینی اسلحہ پر مشتمل ہے۔

بین الاقوامی سرمایہ کار پاکستان سے دوری اختیار کر چکے ہیں کیونکہ کرنسی بحران کا 89% امکان . ذخائر صرف 2.7 ماہ کی درآمدات کے لیے کافی، بینکنگ نظام حکومتی قرضوں میں جکڑا ہوا، سالانہ مالی ضرورت 26 ارب ڈالر، دستیاب وسائل صرف 10 ارب ڈالر چینی قرضے کی ادائیگی ممکن نہیں روپے کو مصنوعی طور پر سہارا دیا جا رہا ہے.

پاکستان کی معیشت اس وقت نازک ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ روپے کی موجودہ قیمت ایک مالیاتی فریب ہے، جو عارضی سہاروں اور قرضوں پر قائم ہے۔ اگر فوری معاشی اصلاحات نہ کی گئیں، اور 25 سے 30 ارب ڈالر کی بیرونی مدد نہ ملی، تو ایک تباہ کن کرنسی بحران محض وقت کی بات ہے۔ یہ محض معاشی بحران نہیں ہوگا، بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کرے گا۔

تحقیقی طریقہ کار
یہ تجزیہ درج ذیل ذرائع سے معلومات کا تقابل کرتا ہے- اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بیلنس شیٹس
آئی ایم ایف کے ملکی رپورٹس
چینی قرضوں کے ڈیٹا بیس
خلیجی ممالک کے دوطرفہ مالیاتی معاہدات

اس کے علاوہ، اس میں آف بیلنس شیٹ ایکسپوژرز کا جائزہ بھی شامل ہے، جن میں سرکاری ضمانتیں، سرکاری اداروں کے قرضوں کی ساخت، اور توانائی کے شعبے کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ ایک مونٹی کارلو سمیولیشن کیا گیا، جس میں 8 تاریخی کرنسی بحرانات (سری لنکا، ترکی، ارجنٹائن، تھائی لینڈ وغیرہ) کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا اور میکرو ایکنامک متغیرات کا پاکستان کی موجودہ صورتحال سے موازنہ کیا گیا۔ تمام ذرائع عوامی طور پر دستیاب اور قابل تصدیق ہیں۔

Comments

Avatar photo

عدنان فاروقی

عدنان فاروقی ربع صدی سے زائد عرصہ بیرون ملک رہے۔ انگریزی، اردو، عربی اور ترکی زبانوں سے شناسائی ہے۔ مترجم اور محقق کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے لگاؤ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور غالب کے عاشق ہیں۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو نثر میں مزاحیہ و سنجیدہ اسلوب کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی، تاریخی اور فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں

Click here to post a comment