دیر سویر کا کہنا تو ممکن نہیں لیکن خطے کے چند پڑوسی ممالک بتدریج قریب تر ہو رہے ہیں۔ میرے اسلامی جمہوریہ عجم کے خیال پر متعدد آرا موصول ہوئیں۔ سب سے پہلا اور معلومات افزا فون تنظیم اسلامی کے محبی ڈاکٹر ضمیر صاحب کا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ افغانستان، ایران اور پاکستان کے ابتدائی اتحاد کا تصور ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ مدتوں قبل پیش کر چکے تھے۔ وہ اسے پی آئی اے (PIA) سے موسوم کیا کرتے تھے. پاکستان (پی) ایران (ائی) افغانستان (اے) کے اس متحدہ یونٹ کا تصور ساتھ لیے ڈاکٹر صاحب مرحوم دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس اتحاد کی عملی شکل ہم میں سے کوئی تو دیکھے گا کہ یہی نوشتہ دیوار ہے۔ دیر سویر کا کسی کو علم نہیں۔ اب یہی نوشتہ دیوار عوامی سطح پر ملاحظہ ہو۔ 1999 میں دوسری نواز شریف حکومت ختم کی گئی تو چند دن بعد جی ٹی روڈ پر ایک پٹھان ٹرک ڈرائیور میز پر مکے مار کر پرویز مشرف کو کوستے ہوئے یہ کچھ کہہ رہا تھا:
"بھائی صیب! ہمارے ٹرک نے طورخم سے آگے تاشقند کا تیاری کر رکھا تھا۔ بابا، ہم سے پوچھو، ہم جانتا ہے۔ اس موٹر وے نے کیا پیخور میں رک جانا تھا؟ اس نے تو ہمیں ماسکو سے جوڑنا تھا۔ خدا اس جرنیل کا بیڑا غرق کرے۔ ظالم نے یہ کیا"۔ نوشتہ دیوار مٹانا وقت سے پنجہ آزمائی ہے۔ یہ وقت کی وہ انگڑائی ہے جو کسی عہد نو کا سندیسہ ہوا کرتی ہے۔ کل ہی کی خبر ملاحظہ ہو۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ کابل، عبوری افغان وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ سے ملاقاتیں، پاکستان، ازبکستان، افغانستان ریلوے لائن بچھانے کے معاہدے پر دستخط۔
تقریبا چھ سو کلومیٹر طویل یہ ریلوے لائن اس خطے کو یوں تبدیل کر دے گی جیسے امریکی 11 ستمبر نے دنیا بدل دی۔ کہنے کو یہ لائن تین ملکوں کے مابین ہوگی لیکن فی الاصل اس کی وجہ سے ہم وسطی ایشیائی ممالک، روس، تمام یورپی ممالک اور اسکنڈے نیویائی ممالک سے جڑ جائیں گے۔ تجارت، سیاحت، تعلیم، تزویراتی تعلقات اور متعدد دیگر شعبوں میں بہتری کے باعث عوام کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ یہ ریلوے لائن طاقت کے نئے ابھرتے مراکز کی رگوں میں دوڑتے خون کی ایک رگ ہوگی۔ امید ہے کہ تینوں ممالک اس پر ترجیحاً کام کر کے خطے کو نیا رنگ دیں گے۔ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ خارجہ امور دفتر خارجہ ہی نمٹائے تو پاک افغان تعلقات خوب سے خوب تر ہوتے چلے جائیں گے۔
دونوں ملکوں کے مابین ویزے کی پابندی اب نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کر لی گئی ہے۔ یہ پابندی دونوں طرف کے ان سرحدی قبائل کے لیے بہت پریشان کن ہے جو کبھی کسی سرحد کے عادی نہیں رہے۔ ہر عہد کے لگے بندھے تقاضے انسانی زندگی کو ذرا ادھر نہیں ہونے دیتے۔ انہی میں سے ایک قومی ریاست (national state) کا تصور ہے۔ قومی ریاستی سرحدوں کو بعض لوگ وحدت امت مسلمہ میں دراڑوں جیسا سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بات کسی حد تک کچھ ایسی ہی ہے۔ لیکن اس عالمگیر حقیقت کی نفی نہ تو میری آپ کی خواہش کر سکتی ہے، نہ یہ عالمگیر حد بندیاں میری چند تحریروں سے مٹ سکتی ہیں اور نہ یہ لکیریں تصور وحدت امت کے بالمقابل تا دیر ٹھہر سکیں گی۔
مسئلہ اس نظم و ضبط کا ہے جس کی خواہش انسانی فطرت ہر لمحہ کرتی ہے۔ امریکہ 50 ممالک کا مجموعہ ہے جن میں کوئی ویزہ نہیں۔ یہی نہیں امریکی اپنے سے کہیں بڑے ملک کینیڈا میں بھی بغیر ویزے کے جاتے آتے ہیں۔ 27 یورپی یونین ممالک کے باشندے بھی بغیر ویزے کے ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔ ہمارے اور ان مذکورہ تمام ممالک میں فرق بس اتنا ہے کہ یہ ممالک تیز رفتار صنعتی ترقی کے باعث زرعی زندگی سے نکل چکے ہیں۔ لیکن بیشتر ایشیائی ممالک نے صنعتی احاطے میں ابھی بمشکل قدم رکھا ہے۔ پاکستان انہی میں سے ایک ہے اور افغانستان تو اس بستی میں ابھی داخل ہی نہیں ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ ویزے کی پابندی کو صنعتی زندگی سے دور دونوں طرف کے سرحدی قبائل ناروا سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ افغانوں کا پاکستان پر بے پناہ انحصار ہے۔ وقتی مشکلات اور پابندیوں کا یہ عرصہ وقتی رہے گا کہ ہم سب کسی نظم و ضبط کے عادی ہو جائیں۔ پھر یہ سرحدیں، یہ ویزے، یہ ناروا پابندیاں اسی طرح تحلیل ہوں گی جیسے دنیا کے دیگر صنعتی ممالک میں سے ختم ہو چکی ہیں۔ وحدت امت مسلمہ پر اندھا ایمان رکھنے والوں کو یہ معمولی سی بات سمجھ لینا چاہیے کہ ملکی سرحدیں تو چھوڑیے، میری خواب گاہ کا بند دروازہ وہ بین الاقوامی سرحد ہے جس کے اندر میرا باپ یا میرا بیٹا بھی مجھ سے ویزا لیے بغیر داخل نہیں ہو سکتے۔
یہ وحدت امت مسلمہ کا معاملہ نہیں ہے۔ یہی تصور پھیلا کر ملکی سرحدوں تک لے جائیے۔ اب اسی نکتے کا دوسرا رخ ملاحظہ ہو۔ کسی کی خوابگاہ میں اس کے باپ یا بیٹے کا مخصوص اوقات اور حالات میں صرف داخلہ ہی تو ممنوع ہے۔ یہاں باپ بیٹے اور دیگر عزیزوں سے لا تعلقی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اسی مکان کی تین چار خواب گاہوں کے تین چار بظاہر لاتعلق جوڑے کسی ڈاکو کے آجانے پر ذرا لا تعلق نہیں رہیں گے۔ اپنی خوابگاہ میں مست یہی لوگ افتاد پڑھتے ہی بنیاد مرصوص بن جائیں گے۔ باپ بیٹے پر قربان ہونے کو تیار تو باپ پر چلائی کسی کی گولی کے آگے بیٹا سینہ تان کر جان دے دے گا۔
وحدت امت مسلمہ کا تصور بھی بس یہی کچھ ہے جہاں ملکی سرحدیں عہد حاضر کا نوشتہ دیوار ہیں اور آئندہ ہماری یہی سرحدیں یورپی ممالک اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرح بے جان اور دھندلی سی ہو جائیں گی۔ یہ بات ہمارے دونوں طرف کے سرحدی قبائل جتنا جلد سمجھ لیں سرحدیں مٹنے کا عمل اتنی جلدی شروع ہو جائے گا۔ حکومت پاکستان کے اس عمل کی بھرپور تائید کی جاتی ہے کہ پاکستان میں مدتوں سے مقیم افغان بھائیوں کو افغانستان واپس بھیجا جائے۔ لیکن افغان بھائیوں کو علاج، تعلیم، تجارت اور شادی بیاہ وغیرہ کے لیے اجرائے ویزا میں رکاوٹوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
دونوں ملکوں کے باشندوں کو یہ وقتی رکاوٹیں برداشت کرنا ہوں گی۔ مذکورہ پاک، افغان، ازبک ریلوے لائن پر خالی ٹرینیں تو نہیں دوڑیں گی۔ تینوں ملکوں کے باشندے شناختی کارڈ دکھا کر ان میں ہنستے مسکراتے سفر کیا کریں گے۔ انشاء اللہ۔
تبصرہ لکھیے