ہوم << کھانا زیادہ کیوں کھاتے ہیں ؟ - عبدالعلام زیدی

کھانا زیادہ کیوں کھاتے ہیں ؟ - عبدالعلام زیدی

کھانا زیادہ کھانے کے پیچھے بہت سے اسباب ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ جو دوسروں کی بہت زیادہ کیئر کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے ہوں ، جن سے کسی کو ناں کہنا مشکل ہوتی ہے. ایسے لوگوں کے زیادہ کھانا کھانے کے پیچھے مجھے لگتا ہے کہ یہی مسئلہ ہوتا ہے ۔

جو بندہ دوسروں کی کیئر بلکہ اوور کیئر کرتا ہے اور اپنے نفس کی قربانی دینے کا عادی ہوتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اسے کھانا کھاتے ہوئے اس میں لاشعوری طور پر وہ بہت سارے لوگ دکھائی دیتے ہیں ، جنہوں نے اسے بویا ، بیچا ، خریدا ، پیسے لگائے اور سب سے بڑھ کر جس نے اسے پکایا اور پھر سامنے رکھا. یہ سب لوگوں کی لاشعوری کیئر اسے وہ کھانا کھاتے رہنے پر مجبور کرتی ہے ۔ اسی طرح جیسے وہ دوسروں کو ناں نہیں کر پاتا ایسے ہی کھانے کو ناں کرنا بھی ایک مشکل گھڑی ہوتی ہے ۔ پھر کچھ احساسات کی ہی دنیا کے کچھ اندیشے ، تجربے ، دکھ اسے گھیر لیتے ہیں ۔

کہیں یہ کھانا ضائع نہ ہو جائے ، کتنی محنت سے بنا ہے بچے گا تو نعمت کی ناقدری ہو گی ، پلیٹ میں کھانا چھوڑنا تکبر سا لگتا ہے ، اپنی جسم کو اہمیت دینا مشکل لگتا ہے اور اگر کہیں کوئی بندہ اصرار کر رہا ہو کہ اور کھائیں . بیگم ، دوست یار تو پھر تو انہیں جواب دینا اور مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک اور عجیب سی فیلنگ ہیں جو شاید کافی پین فل ہوں۔ کھانا اگر بچپن میں بہت خوب صورت انداز اور حالات و کیفیات میں نہ کھایا اور پیش کیا گیا ہو تو کھانا کھانے سے تعلق بہت ڈسٹرب ہو جاتا ہے ۔

بعض لوگوں کی زندگی میں کھانا ابیوز ، بدتمیزی ، تذلیل ، بے عزتی ، ڈانٹ ڈپٹ ، اپنی ذات پر فوکس ، کمپییرزین جیسی اذیتوں میں خوشی کا سامان رہا ہے ۔۔ اسی لیے ان لمحات میں کھانا پیٹ بھرنے ، طاقت لینے ، انرجی ، وٹامنز ، فائبر کا سورس نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ڈوپامین ، فرار ، سکون اور خوشی کی بنیاد تھا ۔ اس لیے اسے کھانے کا کوئی ترتیب ، سلیقہ نہیں تھا ، بس جو ملے کھاؤ، کھاتے جاؤ ، جتنا کھا سکتے ہو کھاؤ ۔ اس چیز نے کھانے کا ایک پیٹرن ڈویلپ کیا ہوتا ہے
یا تو ہم بہت کھاتے ہیں یا ہلدی کھانے بالکل نہیں کھاتے ، ڈوپامین سے بھرپور چیزیں ہی اچھی لگتی ہیں ، یا پھر کھاتے ہوئے ہم لاشعوری طور پر اسی پین اور کیفیات میں چلے جاتے ہیں کہ جہاں کھانا کھانا ہی واحد راستہ رہا ہے ۔

اسی طرح زیادہ کھانا کھانے کی ایک اہم وجہ کھانے کا ایسے لوگوں کی طرف سے ملنا ہے کہ جو ہمیں اذیت دیتے رہے ہیں ۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کہ بچپن کی بہت ساری تکالیف کا تعلق خود گھر کی چار دیواری سے ہی ہے ۔ اگرچہ کہ گھر کے بڑے بزرگ بہت محبت کرنے والے ہوتے ہیں ، مگر علم کی کمی کی وجہ سے انہیں بچوں کے ساتھ ڈیل کرنا نہیں آتا ، یوں ڈانٹ ڈپٹ کی دنیا ، بڑوں کے آپس میں جھگڑنے کی دنیا میں بچے کو کھانے کے وقت جب کھانا ملتا ہے تو ۔۔ بچہ اسے باقی معاملات سے الگ نہیں کر پاتا ۔

جیسے وہ سکول جانے کے لیے خود کو بے بس اور مجبور محسوس کرتا ہے اسی طرح وہ کھانا کھانے پر بھی خود کو بے بس ہی محسوس کرتا ہے ۔ بچپن سے جوان ہونے والی یہ فیلنگز ، ایک مضبوط پیٹرن تشکیل دیتی ہیں ۔ اب جب ماں ، بیوی کہتی ہے کہ جی کھانا لگ گیا ہے تو مرد کھانے کا لفظ سنتے ہی خود کو ایک طرح کا بے بس محسوس کرتا ہے ، اسے ہر صورت کھانا ہی ہے ۔ کھانا نہ کھانا ہو تو آپ کو منہ سے بہت کچھ کہنا پڑتا ہے ، وجہ دینی ہوتی ہے ، پیٹ میں درد ہے ۔ پھر اگلا بندہ بھی اسے ایک سیریس مسئلہ لیتا ہے ۔

مشورہ اور ہمدردی کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بتاتا ہے کہ فلاں بچے نے ، تمہارے ابا نے ، کھانا نہیں کھایا ۔ گویا بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ کھانا چونکہ خوشی اور سرور کے لیے کھایا جاتا ہے ، اس لیے ہم اس پر اپنے گھر والوں کی اچھی خاصی محنت کرواتے ہیں ۔ صحیح سے بھنا ہوا ، تلا ہوا ، مرچ مصالحوں سے بھرا ہوا ہو ۔ یہ محنت جب کوئی ماں ، بیوی کرتی ہے تو اس کا صلہ یہی ہوتا ہے کہ اس کھانے کو اچھے سے کھا لیا جائے ۔ اسی لیے ہمارے کلچر میں روٹی سے ماں کی خوشبو آتی ہے ، محنت سے پکنے والے سالن جیسے ساگ وغیرہ سے رشتوں کا پیار ٹپکتا نظر آتا ہے ۔ ایسے میں کوئی کیسے اس پیار کو ٹھکرا سکتا ہے ۔

کھانے کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ، یہ ہماری زندگی کا ایک نہایت اہم مقام ہے ۔ لوگ کھانے کے لیے موت قبول کر لیتے ہیں کھانا نہیں چھوڑتے ، شوگر بی پی کا مریض کھل کر مرضی کا کھاتا ہے۔ پرہیز نہیں کر پاتا ۔ یہ ایک سوچنے کا مقام ہے کہ آخر جہاں سے ہم نے زندگی لینی تھی وہاں سے ہم کیسے ، موٹاپا ، شوگر ، بی پی ، ہارٹ اٹیک ، فالج لیتے ہیں. اس کی وجہ بہت بہت پین فل ہو سکتی ہے مگر اس سے نکلنے کا یہی راستہ ہے کہ اس ٹاپک پر سوچا جائے ، شیئر کیا جائے ، تھیراپی لی جائے اور سب سے بڑھ کر اللہ سے دعا کی جائے ۔

آخر میں ایک عملی کام دیتا ہوں ، آپ کھانے کو روٹی ، ساگ ، گوشت کے خوبصورت ، نسلوں سے وراثت میں منتقل ہوتے ، محبت کے امین ناموں کو استعمال کرنا کم کر دیں ۔ اس کی جگہ ان کھانوں میں جو جو انرجی پائی جاتی ہے ، اسے بولیں ، روٹی مطلب کاربوہائیڈریٹ ، گوشت مطلب پروٹین ۔ یوں آپ کا ایموشنل تعلق آہستہ آہستہ بدلے گا اور آپ کھانے کو اس لئے کھائیں گے تا کہ صحت مند رہیں ، نا کہ اس لیے کہ اس کے ذریعے رشتوں کی محبت سے جڑیں!

Comments

Avatar photo

عبدالعلام زیدی

عبدالعلام زیدی اسلام آباد میں دینی ادارے the REVIVEL کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس کے بعد سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اسلامیات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولہور سے ایم اے عربی کیا۔ سرگودھا یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تعلیم کے دوران جامعہ ازھر مصر سے آئے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دارالحدیث محمدیہ درس نظامی کی تکمیل کی۔ دینی تعلیمات اور انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment