انسانی معاشرے کی اکائی فرد ہے اور افراد سے مل کر خاندان بنتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی کے خاندان کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو اس کا حوالہ والدین ہی ہوتے ہیں۔ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک صرف ایک مذہبی فریضہ ہی نہیں، بل کہ معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ اس کا تعلق صرف اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہی نہیں بل کہ ہر معاشرے اور مذہب میں اس کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں بار بار والدین کے ساتھ نرمی، عزت اور خدمت کا حکم آیا ہے، جیسے سورہ بنی اسرائیل (17:23) میں فرمایا:
"اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچیں تو انہیں اُف تک نہ کہو".
اسلام میں والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کا بیان فرمایا۔
اسلامی نقطہ نظر کے علاوہ، دنیا کے ہر مذہب اور تہذیب میں والدین کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ والدین کی خدمت سے نہ صرف روحانی سکون ملتا ہے بلکہ معاشرتی استحکام بھی آتا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے افراد زیادہ خوش اور ذہنی طور پر مطمئن رہتے ہیں۔
والدین کی خدمت اور حسنِ سلوک کے بے شمار طریقے ہیں مثلاً ان کے سامنے نرم لہجے میں بات کرنا کبھی بدتمیزی نہ کرنا، ان کی ضروریات اور خواہشات کا خیال رکھنا چاہے وہ خود نہ بھی کہیں، بڑھاپے میں ان کا خاص خیال رکھنا جیسے انہوں نے بچپن میں ہمارا خیال رکھا، ان کے مشورے اور تجربات کو اہمیت دینا، اگر والدین کسی بات سے روکیں تو اس میں خیر سمجھی جائے اور ناراض نہ ہوا جائے۔ اسلام نے والدین کے احترام کو مذہب یا عقیدے سے مشروط نہیں کیا، یعنی غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی حسنِ سلوک ضروری ہے۔ والدین کی خدمت میں سب سے بڑی رکاوٹ آج کل مصروفیت اور مادہ پرستی ہے، اس لیے وقت نکالنا اور محبت سے پیش آنا بہت ضروری ہے۔ والدین کے لیے دعا کرنا اور ان کی مغفرت کی درخواست کرنا بھی حسنِ سلوک میں شامل ہے۔
مغربی معاشرے میں بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت کم نہیں، لیکن اس کا انداز مختلف ہے۔ وہاں چونکہ انفرادی آزادی، خودمختاری اور پرائیویسی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اس لئے بچے جلدی خودمختار ہو جاتے ہیں اور اکثر والدین سے الگ رہتے ہیں۔ اس لئے وہاں والدین کی خدمت براہِ راست کم ہوتی ہے، زیادہ تر ریاستی ادارے اور اولڈ ہومز اس ذمہ داری کو سنبھالتے ہیں۔ اگرچہ اس سے والدین کو سہولتیں تو ملتی ہیں، مگر جذباتی فاصلے، تنہائی اور بعض اوقات نظراندازی کے نقصانات بھی سامنے آتے ہیں۔ والدین کی عدم توجہی سے ان میں ڈپریشن، جسمانی بیماری، مالی مشکلات اور سماجی تنہائی بڑھ سکتی ہے۔
مشرقی معاشروں میں والدین کے ساتھ رہنا اور ان کی خدمت کرنا عزت اور برکت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ مغربی معاشروں میں اولاد کی خودمختاری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم، تحقیق سے ثابت ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہ صرف روحانی سکون بلکہ معاشرتی استحکام اور ذاتی خوشی کا سبب بھی بنتا ہے۔ مغربی مصنفین اور فلاسفرز نے بھی والدین کے احترام اور حسنِ سلوک پر خوب روشنی ڈالی ہے۔
شیکسپیئر نے کہا تھا کہ "والدین کی محبت ہمیشہ مکمل رہتی ہے، چاہے اسے جتنی بار بھی تقسیم کیا جائے". سابق امریکی صدر جارج واشنگٹن کا کہنا ہے کہ "آج میں جو کچھ بھی ہوں، اپنی ماں کا مرہونِ منت ہوں"۔ یونانی فلسفی سوفوکلز نے لکھا تھا "بچے وہ لنگر ہیں جو ماں کو زندگی سے جوڑے رکھتے ہیں"۔ مشہور مصنف جین آسٹن نے والدین کے بارے میں لکھا تھا کہ "زندگی کے اصل رنگ والدین کی اقدار سے محبت میں ہیں"۔یہ اقوال اس بات کی گواہی ہیں کہ والدین کی عزت, خدمت اور حسنِ سلوک صرف مشرقی یا اسلامی تعلیمات تک محدود نہیں، بلکہ مغربی دانشور بھی اسے انسانیت کے لیے بنیادی قرار دیتے ہیں۔
والدین کے ساتھ حسنِ سلوک پر احادیث نبویﷺ میں بھی زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔" (کنز العمال، جلد 16). ایک اور جگہہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "والدین کے ساتھ نیکی کرو، تمہارا بدلہ جنت ہے، اور اگر نافرمانی کرو تو تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے۔" (الکافی، جلد 2، صفحہ 348)
اوپر بیان کی گئی باتوں کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ والدین کی خدمت نہ صرف ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ اس سے زندگی میں سکون اور برکت بھی ملتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ والدین کی عزت اور خدمت کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، کیونکہ ان کی دعائیں ہی ہماری کامیابی کی اصل کنجی ہیں۔
تبصرہ لکھیے