ہم زندگی میں ایسے کئی لوگوں کو سنتے ہیں کہ جو اپنے سُروں کا ہمیں مکمل فریفتہ کر دیتے ہیں۔ محترم نصرت فتح علی خان کی پڑھی ہوئی غزلیں، گویا واقعًا دل کے غم یا خوشی کا عکاس ہوتی ہیں۔ سُر کی دنیا کے کئی ایسے بادشاہ ہیں۔ آج میں یہ تحریرجس شخص کی بابت لکھ رہا ہوں، وہ ایک ایسی واحد شخصیت ہیں کہ جو واقعاً نثر کو سُر عطا کرتی ہیں۔
میں بات کر رہا ہوں ، جناب ضیا محی الدین کی۔ کہتے ہیں کہ اگر استاد بڑا ہو تو شاگرد بھی بڑا بن جاتا ہے، ضیا محی الدین صاحب خود ایک پروگرام میں محترم زیڈ اے بخاری سے گویا ہوتے ہیں کہ ، لفظ کو ادا کرنا انہوں نے زیڈ اے بخاری ہی سے سیکھا ۔ اسی طرح پاک ہند میں کامیڈی کا بادشاہ کہے جانے والا والے جناب معین اختر ، ضیا محی الدین کی مریدی اختیار کر کے وہاں تک پہنچے۔ مجھےایک بات کا بہت غم ہے کہ مجھے اُن کی شخصیت ہی کا پتہ تب چلا کہ جب وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ۔ پہلی بار ان کو کسی ویڈیو میں فیض احمد فیض صاحب کی غزل "پھر کوئی آیا دل زار" پڑھتے سنا ، تب تو خیر الفاظ کے معانی کی کچھ سمجھ نہ لگی مگر ان کی آواز کی نے تو ہمیں مکمل فریفتہ کر دیا۔ یہ غزل اُن کے اندازِ بیاں کی کاپی کرنے کی سعی کرتے ہوئے زُبانی یاد کر لی۔ پھر یکے بعد دیگرے بہت کچھ نقل کرتے ہوئے یاد کیا ۔مضطر خیر آبادی کی بحرِ طویل کے کچھ مصرعے، شیکسپیئر کا لکھا ہوا کچھ مواد جو انہوں نے پڑھا، اور غالب کی کچھ غزلیں ۔
حیران کُن بات یہ ہے کہ محترم کو نہ صرف اردو میں ملکہ حاصل تھا بلکہ انگریزی کے ساتھ ساتھ فارسی بھی اہلِ زبان ہی کی طرح پڑھتے۔ اُن کی اواز اس قدر میں محو کر دینے والی ہے کہ پچھلے دنوں ان کو غالب کے خطوط اور شاعری پڑھتے سنا۔ ایسے میں دل عجیب خوشی اور غمی کے امتزاج سے عجیب ہچکولے بھرنے لگا۔ ایک تو غالب کی انوکھی شاعری، اس پہ ضیا صاحب کی زبان کا تڑکا ، آہ! کیا کہنے۔ کسی خط سے تو یہ پڑھا ،میں نے بارہا سنا اور ہر بار پھر سننے کو جی کرتا۔ "پُھلکی ُپھلکا تنہا بمعنی محض ہیں ، ہلکا پُھلکا یوں آئے تو درست ورنہ لغو اور یہ جو پُھلکا پتلی چپاتی کو کہتے ہیں ، یہ دوسرا لغت ہے ۔ لو کہو اب اور کیا لکھوں ۔ سرِ راہ کی منڈیر پر جو تخت بچھا ہے اس پر بیٹھا ہوا دھوپ کھا رہا ہوں اور خط لکھ رہا ہوں، جھاڑا پڑھ رہا ہے ، ہمارے پاس شراب آج کی ہے، کل سے رات نری انگیٹھی پر گزارا ہے ۔
اب غزل سنو
"سب کہاں کچھ لالا و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں"
نامور پاکستانی مصنف انور مقصود اپنے سیٹائر کے لیے جانے جاتے ہیں ۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے بولنا ضیا محی الدین سے سیکھا ۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔
عشق کی ایک جست نے طے کر لیا رستہ تمام ۔
اس زمین و اسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں۔
گویا اگر عشق ہو تو ، راستوں کی طوالت ہرگز رکاوٹ نہیں بنتی۔ مجھے بھی ضیا صاحب کی زُبان سے عشق ہے ۔ میرا ایک پچھتاوا یہی ہے کہ اے کاش میں ان سے اگر ایک بار مل چکا ہوتا ۔ اس دور میں جب ہر کوئی ڈاکٹر انجینیئر یا اکاؤنٹنٹ بننے کا خواہ ہے میں یہ چاہوں گا کہ ضیا صاحب کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے، اردو کی خدمت کی جائے اور باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ ایک thespian بنا جائے ۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ضیا صاحب کو جنت الفردوس میںں اعلی مقام عطا فرمائے امین۔
تبصرہ لکھیے