ہوم << سوات حادثہ .حمیراعلیم

سوات حادثہ .حمیراعلیم

سوات حادثہ پاکستان کا پہلا واقعہ نہیں ہے جہاں انتظامیہ کی غفلت اور بد انتظامی کی وجہ سے سترہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اس سے پہلے بھی اکثر ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔چاہے دریائے سوات ہو یا پنجاب کا کوئی دریا ہماری حکومت نہ سیلاب سے پہلے کوئی تیاری کرتی ہے کہ اس کی روک تھام کی جا سکے نہ ہی اس کے آنے پر لوگوں کی حفاظت کو اہم جانا جاتا ہے۔

مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں ہر سال جب پانی کم ہوتا تھا یا خشک یو جاتا تھا تو نہروں، ڈیمز اور دریاوں سے مٹی نکال کر بھل صفائی کی جاتی تھی۔یوں بارشوں کے موسم میں نہ صرف پانی محفوظ کیا جاتا تھا بلکہ سیلاب سے بھی بچا جاتا تھا۔لیکن اب ایسا کوئی کام دیکھنے میں نہیں آتا۔اس پر مستزاد درختوں کو کاٹ کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا کر سیلاب کو خود دعوت دی جا رہی ہے۔

قدرتی آفات جیسے زلزلے، سیلاب اور وبائیں ان پر انسانوں کا کوئی زور نہیں چلتا یہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی آئیں تو تباہی ضرور پھیلاتی ہیں۔لیکن وہاں انسانی جانوں کو اہم سمجھا جاتا ہے۔اور ایسے واقعات کی صورت میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا بہترین انتظام ہوتا ہے۔لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا، خوراک، رہائش ادویات مہیا کرنا اور جو لوگ سیلاب میں گھرے ہوں انہیں وہاں سے ہر ممکن طریقے سےنکالنا حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔جب تک حکومتی ادارے اس مقام پر پہنچتے ہیں رضاکار بھی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔کیونکہ مغربی ممالک میں ہائی اسکول کے ختم ہونے کے بعد جو چند ماہ کی چھٹیاں ہوتی ہیں ان میں انہیں مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔متعلقہ ادارے تعلیمی اداروں میں ایسی تربیت دیتے ہیں کہ لوگ حادثات یا آفات کی صورت میں نہ صرف اہنا بلکہ دوسروں کا بھی بچاو کر سکیں۔کمیونٹی سروسز، انٹرنشپ اور دیگر کورسز کے ذریعے لوگوں کو فعال بنایا جاتا ہے۔حکومت اور عوام مل کر کام کرتے ہیں۔

جب کہ ہمارے ہاں حکومت نا اہل ہے اور عوام صرف ویڈیو بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اگر سوات میں سیلابی ریلے کی آمد کی بروقت اطلاع ہوتی توشاید سیاح اس طرف کا رخ ہی نہ کرتے۔یا انتظامیہ اس مقام پر جانا ممنوع قرار دے دیتی۔چلیے اداروں کی نا اہلی پرتو ہم صرف ماتم ہی کر سکتے ہیں۔لیکن وہاں موجود سینکڑوں لوگ بھی صرف تماشائی ہی بنے رہے۔اگر چند ایک تیراک گاڑیوں میں موجود رسیوں کی چین بنا کر خود کو باندھتے کنارے پر موجود سب لوگ اس رسی کو پکڑتےان لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے تو شاید کامیاب ہو جاتے۔مگر ہمیں ایسی کوئی ٹریننگ ہی نہیں ہوتی کہ ہم حادثات کی صورت میں فوری طور پرکچھ ایسا کر سکیں جو مددگار ہو۔
میرا موقف ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ ہمیں کسی بھی معاملے میں حکومت پر انحصار کرنے کی بجائے خود کفیل ہونا ہو گا۔خواہ مالی وسائل ہوں یا ڈیزاسٹر مینجمنٹ۔اس لیے کچھ اقدامات کرنے ضروری ہیں۔اسکول کالج کی سطح پر فرسٹ ایڈ، گن شوٹنگ، ایمرجنسی میں فوری امداد کے طریقے اور حادثات میں اپنے حواس پر قابو رکھ کر فیصلہ کرنے کی تربیت دینی چاہیے۔جیسے ہم این سی سی، گرل گائیڈ بوائے اسکاوٹ کی ٹریننگ کے دوران میک شفٹ اسٹریچر بنانا، ہڈی جوڑنے کے لیے لکڑیاں استعمال کرنا ، رسی سے سیڑھی بناناوغیرہ سیکھتے تھےویسے ہی مختلف چیزیں سکھائی جائیں۔جیسے کہ کہیں آگ لگ جائے تو لوگ کسی پیرا شوٹ کی شیٹ، ٹینٹ یاپھر ہاتھوں کو پکڑ کر ایسا حلقہ بنائیں کہ عمارت سے لوگ کودیں تو انہیں بچایا جا سکے۔مٹی اور پانی ڈال کر آگ بجھائی جائے۔

اگر حکومتی ادارے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے تو مقامی لوگ سیاحوں کو وارن کریں ۔خطرناک مقامات پر جانے سے منع کریں۔اور لوگ بھی ایڈونچر کرنے کی بجائے احیتاط کا دامن تھامے رکھیں۔محتاط ڈرائیونگ کریں۔اگر نیند آ رہی ہو تو گاڑی روک کر سو جائیں اور چاک و چوبند ہو کر گاڑی چلائیں اکثر حادثات نیند کی جھپکی کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں ۔پہاڑوں کی چوٹیوں، دریاوں کے کناروں، کھائیوں سے دور رہیں۔ سیفی لینی ہو تو اپنی اور دوسروں کی حفاظت کا خیال رکھیں۔
میرا ایمان ہے کہ انسان تدبیر کر سکتا ہے مگر تقدیر کو روک نہیں سکتا۔خواہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے سترہ سیاح ہوں یا پلین کریش میں مرنے والے مسافر جس کی موت جہاں لکھی ہوتی ہے وہ خود وہاں پہنچ جاتا ہے اور جس کا مقررہ وقت نہ آیا ہو وہ مکمل جل جانے والے جہاز سے بھی زندہ بچ نکلتا ہے اور کھائی میں گر کر تباہ ہونے والی گاڑی سے بھی اور شارک کے منہ میں جا کر بھی واپس آ جاتا ہے۔اس لیے جب بھی ایسے سفر پر نکلیں خصوصا ایسے مقامات کے سفر پر تو دعائیں پڑھ کر اور آخری سفر سمجھ کر نکلیں۔موت کا نہ وقت مقرر ہے نہ جگہ یہ کہیں بھی کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔اس لیے ہر وقت تیار رہیں۔تفریح بھی ضرور کریں لیکن حادثات کے لیے بھی تیار رہیں۔