تاریخ کبھی کبھی ایسے موڑ پر آ کھڑی ہوتی ہے جہاں قومیں آزمائش کے کٹھن مرحلوں سے گزرتی ہیں۔ کچھ کردار بکتے، جھکتے اور مصلحتوں کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ایک ایسا ہی سیاہ باب، اور اس میں ایک بے داغ، پاکیزہ کردار، سید منور حسنؒ — ایک الگ پہچان بن کر ابھرتا ہے۔
امریکی جنگ، پاکستانی حکمران اور قومی خودکشی
نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر ظلم و جارحیت کی یلغار کی۔ لیکن اصل افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے حکمراں جنرل پرویز مشرف — امریکی دباؤ اور ڈالروں کے نشے میں آ کر نہ صرف اس جنگ میں شریک ہوئے بلکہ اسے پاکستان کے اندر لا کر اپنے ہی عوام کے خلاف بندوق اٹھا لی۔
ایک پوری قوم کو دہشتگردی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ افغان سفیر سے لے کر سینکڑوں بے گناہ پاکستانیوں تک، سب کو غیرقانونی طور پر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ خواتین اور بچے بھی نہ بچے۔ ہزاروں معصوم شہریوں کو ملکی سرزمین پر آپریشنز کے ذریعے دربدر کیا گیا۔ نام نہاد جنگ کے جواز پیدا کرنے کے لیے ڈرامے تیار کیے گئے۔ “گل مکئی” کے نام سے ڈائریاں، “ملالائیں” اور جعلی کوڑے مارنے کی ویڈیوز سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔
اسلام کے چہرے کو مسخ کیا گیا، اور روشن خیالی، ماڈریشن، لبرل ازم، مادر پدر آزادی جیسے مغربی تصورات کو ریاستی سطح پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ سب کچھ “ڈالرز” کے عوض۔ لگنے لگا جیسے اسلام، ملک، عوام اور مسلم امہ سب کچھ داو پر لگا دیا گیا ہو۔
جب ہر طرف خاموشی تھی، ایک آواز گونجی
ایسے میں ایک آواز تھی جو نہ بکی، نہ جھکی۔ یہ آواز تھی سید منور حسنؒ کی۔
یہ آواز:
• پاکیزہ بھی تھی، باوقار بھی،گرجدار بھی، اور فکری و ایمانی طور پر بے مثال۔
انہیں خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی۔ انہیں متنازعہ بنانے کے لیے میڈیا مہمات چلیں۔ سوالات اٹھائے گئے، القابات تراشے گئے، لیکن یہ آواز وقت کے ساتھ اور زیادہ نکھرتی گئی۔
سید منور حسنؒ کا دوٹوک مؤقف
سید صاحب کا مؤقف نہایت واضح اور بے خوف تھا:
• امریکہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔
• اصل دہشت گردی، ریاستی دہشت گردی ہے۔
• جہاد اور مزاحمت ہی امت کے بقا کی علامت ہیں۔
• امریکہ کی جنگ میں شریک ہونے والے، چاہے وردی میں ہوں یا بغیر وردی کے، سب مجرم ہیں۔
• نہ شریعت بندوق کی نوک پر نافذ کی جا سکتی ہے، نہ امن جیٹ طیاروں سے لایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان کے اندر موجود ان کرداروں کو بھی بےنقاب کیا جو قوم کو غلامی کی راہ پر لے جا رہے تھے — جنرل مشرف، جنرل کیانی، یوسف رضا گیلانی، اور ان جیسے کئی چہروں کو انہوں نے للکارا۔
ایک موقع پر ان کے الفاظ تھے:
“جنرل صاحب! آج جو آوازیں تمہاری پالیسیوں کے خلاف اٹھ رہی ہیں، یہ فضاؤں میں تحلیل نہیں ہوں گی، یہ تمہارا پیچھا کریں گی اور ایک دن اپنا اثر دکھائیں گی۔”
اور وہ دن آیا۔ جب قوم کا دباؤ بڑھا، جب اصل چہرے بےنقاب ہونے لگے، تو ایک وقت پر آرمی چیف اور وزیرِاعظم دونوں نے تسلیم کیا:
“آئندہ ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔”
ایمان، بصیرت اور قربانی کا استعارہ
سید منور حسنؒ کوئی روایتی سیاستدان نہ تھے۔ وہ صاحبِ نظر، صاحبِ فکر، صاحبِ عزم اور صاحبِ دل انسان تھے۔ ان کی قیادت کا محور اسلام تھا، ان کی سیاست کا مرکز امت تھی، اور ان کی جدوجہد کا رخ ظلم کے خلاف اور حق کے حق میں تھا۔ وہ ایمان کی طاقت اور مومنانہ بصیرت کا استعارہ تھے۔
آج جب ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ نے انہیں سچائی کے پلڑے میں رکھا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ درست تھے، باہمت تھے، اور اہلِ حق تھے۔
آج بھی یہ سوال باقی ہے:
کیا ہم نے سید منور حسنؒ جیسی بےباک آوازوں کی قدر کی؟
کیا ہم نے اس سیاہ باب سے سبق سیکھا؟
یا ہم اب بھی ڈالروں، میڈیا، اور مغربی بیانیے کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں؟
تبصرہ لکھیے