ہوم << سچ جان کر جیو حافظ. محمد قاسم مغیرہ

سچ جان کر جیو حافظ. محمد قاسم مغیرہ

بہت سی چیزیں جیسی نظر آتی ہیں ، حقیقت میں ویسی نہیں ہوتیں۔ آئیے ایک ایک کرکے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پولیس آفیسرز کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں۔ کھلی کچہری لگی ہے۔ صاحب، لوگوں کے مسائل سن رہے ہیں اور موقع پر احکامات صادر فرماکر فوری انصاف فراہم کررہے ہیں۔

ایک ویڈیو میں ایک پولیس آفیسر عوام سے کہہ رہے ہیں کہ کوئی مسئلہ ہو تو فوراً شکایت درج کرائیں۔ آپ پولیس کی بدسلوکی کسی صورت برداشت نہ کریں۔ صنفی مساوات قائم کرنے کے لیے ایک خاتون آفیسر کا ذکر بھی کرلیتے ہیں۔ صاحبہ دفتر میں موجود ہیں اور کسی سے رعونت بھرے لہجے میں بات کررہی ہیں۔ اس دوران " اتفاق" سے ویڈیو بن جاتی ہے اور وائرل ہوجاتی ہے اور " دبنگ افسر" کا خطاب ملتا ہے۔ ایک پولیس آفیسر کسی پوڈ کاسٹ میں آتی ہیں اور لوگوں کو یہ بتاتی ہیں کہ پولیس کے اختیارات کی حدود کیا ہیں۔ گویا یہاں سب کچھ کسی قانون اور ضابطے کے تحت ہورہا ہے۔ اتفاق سے اسی خاتون آفیسر کی ایک اور ویڈیو ،جس میں وہ ایک سیاسی کارکن کو گریبان سے پکڑ گھسیٹ رہی ہیں ، لاکھوں سوشل میڈیا صارفین کی نظر سے گزرتی ہے۔ کھلی کچہری لگا کر عوام کی داد رسی کرنے والوں میں اگر کچھ مخلص لوگ ہیں تو تعریف کے مستحق ہیں۔ اللہ ان کی عمر میں برکت دے۔ لیکن کیا یہ کسی مسئلے کا پائیدار حل ہے؟ کیا پولیس کا واقعتاً اچھا ہونا ضروری ہے یا اچھے ہونے کی اداکاری کرنے سے بھی کام چل جائے گا؟ کیا پولیس اتنی عوام دوست بن گئی ہے کہ عوام کو اس تک آسان رسائی حاصل ہے؟

وطن عزیز کے اداروں کا المیہ یہ ہے کہ کوئی کام سپرٹ کے مطابق کرنے کے بجائے صرف لیپا پوتی سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ( یہ موضوع ایک تفصیلی تحریر کا متقاضی ہے)۔ چند باؤ لوگوں کا کھلی کچہری ، پوڈ کاسٹ اور انٹرویو میں پولیس کا امیج بہتر کرنے کی کوشش سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئے گی۔ ایک طرف پولیس کا امیج بہتر کرنے کی "کوششیں" ہورہی ہیں تو دوسری طرف تھانوں میں ملزموں سے بہیمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے، پولیس کے ناکوں پر عوام کی تذلیل ہورہی ہے، تفتیش کا نظام انتہائی ناقص ہے ، رشوت کا چلن عام ہے، (کچھ ) پولیس اہل کاروں کے جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ پولیس محافظ بننے کے بجائے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتی ہے۔ پولیس کو اگر اپنی ساکھ بہتر بنانی ہے تو اس کا طریق کار یہ ہے کہ اچھے کام شروع کردے۔ ساکھ خود بہ خود بہتر ہو جائے گی۔ جب تک پولیس نے دور غلامی کی یادگاروں کا پیرہن اوڑھ رکھا ہے ، نمائشی اقدامات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ضروری ہے کہ پولیس سے متعلقہ قوانین میں ترامیم کرکے عوام دوست پولیس بنائی جائی۔ ایک ایسی پولیس کا قیام عمل میں لایا جائے جسے دیکھ کر تحفظ کا احساس ہو۔
تشدد اور مارپیٹ کا خاتمہ کرکے تفتیش کے جدید طریقے اپنائے جائیں۔
پولیس کو جدید آلات سے لیس کیا جائے۔
پولیس ملازمین کی تنخواہوں کے سلسلے میں برہمن اور اچھوت کا فرق کیا جائے۔

ظاہر اور باطن میں فرق کی ایک بڑی مثال " حقوقِ نسواں" کی تحریک ہے۔ فائیو سٹار ہوٹیلز کے ائیر کنڈیشنڈ ہالز میں حقوق نسواں پر لمبے چوڑے لیچکر دینے ، عورت مارچ کا انعقاد کرنے اور عورتوں کے حقوق کے فلک شگاف نعرے لگانے والا طبقہ ہی دراصل عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑا غاصب ہے۔ عورت کی جتنی پامالی اس طبقے کے ہاں ہوتی ہے، شاید کہیں نہیں ہوتی۔ کم عمر لڑکیاں اسی طبقے کے ہاں ملازم ہوتی ہیں اور بیگمات کے عتاب کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس طبقے کے ہاں حقوق نسواں کے نام پر ناشائستگی ، آوارگی اور اباحیت پسندی کے فروغ کا رجحان عام ہے۔ یہ جس وقت سڑکوں پر مارچ کررہی ہوتی ہیں، مارچ سے کہیں دور بہت دور ان کی نظروں سے اوجھل کچھ خواتین سڑکوں پر بجری کوٹ رہی ہوتی ہیں۔ انہیں معاشرے کے استحصال زدہ طبقے کے حقوق سے کوئی غرض نہیں۔ اگر غرض ہے تو صرف نعرے بازی سے۔

ایک اور فرق جو ہمیں جان لینا چاہیے وہ سیاست دانوں کے قول اور فعل میں فرق کا ہے۔ تمام سیاست دان قافلہ جمہوریت کے ہر اول دستے کے سپاہی ہونے کے دعوے دار ہیں۔ آئین کی بالادستی کے نعرے ان پر ختم ہیں۔ لیکن ان کے افعال ان کے اقوال سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ جمہوریت کے دعوے دار سیاست دان دراصل جمہوریت سے خوف زدہ ہیں۔ اسی لیے بلدیاتی انتخابات ، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ، انٹرا پارٹی الیکشنز اور سٹوڈنٹ یونینز کی بحالی سے خوف زدہ ہیں مبادا متبادل قیادت سامنے آجائے۔ سیاسی جماعتوں پر قابض افراد اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور سیاسی جماعتیں فیملی بزنس کی طرح چلائی جارہی ہیں۔

ان کے ہاں قانون سازی اور پارلیمانی کارکردگی سے عدم دل چسپی کی روش عام ہے۔ اسی طرح آئین کی بالادستی کے دعوؤں کے برعکس، حقائق یہ ہیں کہ ہیں عوام کے حقوق سے متعلق تمام شقیں عملاً معطل ہیں۔بار بار برسر اقتدار آنے والی جماعتوں نے بھی کبھی آئین کی ان شقوں کی طرف توجہ نہیں دی۔ آئین پسندی اور جمہوریت کے فروغ کے نعروں کی حقیقت سیاست دانوں کے اعمال سے ظاہر ہوتی ہے۔ صحت ، تعلیم ، انصاف اور عزت نفس سے متعلق شقوں کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ علاج معالجہ ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن عملاً ریاست اس ذمہ داری سے دست بردار ہوچکی ہے۔ تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن ریاست نے یہ حق چھین لیا ہے۔ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی سنارہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات سے متعلق شق عملاً معطل ہے۔

استحصال اور لسانی و صوبائی تعصبات کے خاتمے سے متعلق اقوال زریں کبھی اعمال زریں میں نہیں ڈھلے۔ ریاست خود استحصال میں ملوث ہے۔ سیاست دان لسانیت اور صوبائیت کے کارڈ کھیلتے ہیں۔ الغرض قول اور فعل کا یہ تضاد ہر جگہ موجود ہے۔ آئین کی رو سے تمام شہری برابر ہیں لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ اشرافیہ کو ٹال ٹیکس اور انکم ٹیکس سے استثنیٰ ہے۔ اشرافیہ کو بجلی کے مفت یونٹس ملتے ہیں، عوام پر بجلی کا بم گرتا ہے۔
وطن عزیز کو تمام شعبوں میں کردار کے غازیوں کی ضرورت ہے۔ اگر نیتوں میں کھوٹ ہو تو باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔

بہ قول زکی کیفی
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے عمل کے شیدائی
خطا معاف ، یہ حسن بیاں کا وقت نہیں

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment