بسا اوقات ہمیں اپنی کمزوریوں ، رویوں اور ان پیٹرنز کے بارے میں خوب پتہ ہوتا ہے کہ یہ غلط ہیں ، یہ نقصان دے رہے ہیں ، ان سے دکھ ملتے ہیں ۔۔۔ مگر پھر بھی ہم انہیں چھوڑ نہیں پاتے ۔۔۔ آئیے اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟!
چند ایک مثالیں لیتے ہیں
جسے پتہ ہے کہ مجھ میں لوگوں کو خوش کرنے کی عادت ہے ، میں ایسا کرتے ہوئے اپنی ذات پر یا اپنے قریبی رشتوں پر ظلم تک کر بیٹھتا ہوں ۔۔۔ اپنے آپ پر خرچ کرنے کی بجائے ۔۔۔ ان لوگوں پر خرچ کرتا رہتا ہوں کہ جن سے مجھے صرف اپنی تعریف سننی ہے ، جنہیں خوش کرنا ہے ۔۔۔ !
یا اگر کسی کا یہ اندازِ زندگی ہے کہ وہ دوسروں کی تکالیف ، ان کے مسائل سنتا اور دیکھتا رہتا ہے ، ان کے جذبات کی ان سے زیادہ فکر کرتا ہے ۔۔۔ اس چکر میں وہ خود کو تکلیف دیتا ہے ، خود کو اگنور کرتا ہے ، دوسروں کے درد سن سن کر اپنا آپ بھولے رہتا ہے ، اپنی پروڈکٹی وٹی ، صحت ، کمائی ۔۔۔ خرچ ۔۔۔ سے بے پرواہ رہتا ہے ۔۔۔ تو آخر یہ جاننے کے باوجود کہ یہ غلط ہے ۔
اسلام کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے ، اسلام بھی پہلا حق اپنے نفس کا قرار دیتا ہے ، پہلے اپنے والدین ، بیوی بچے ، قریبی رشتوں پر خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔۔۔ ان پیٹرنز کا شکار لوگ ۔۔۔ اپنی ذات کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں ، اسلام اس راستے کو بند کرتا ہے ۔۔ ہاں میدان جہا د یا کسی بڑے مقصد کے لیے یقینی طور پر آپ دوسروں کو فوقیت دے سکتے ہیں ۔ اس کے پیچھے اللہ کی رضامندی ہونی چاہیے ۔
مگر ہمارے یہاں بیمار رویوں اور عادتوں کے پیچھے ۔۔۔ خدا کی رضامندی کی بجائے ۔۔۔۔ ہمارے بچپن کے ٹراماز ، اگنور کیا جانے والا بچپن ، مارکٹائی ، کمپیرنگ ، جیسے ابیوز ۔۔۔ ان عادتوں کی بنیاد ہوتے ہیں ۔۔۔ جنہیں ہم غلط تسلیم کرنے کی بجائے ان پر اسلام کی ملمع کاری اور پینٹنگ کر دیتے ہیں ۔۔۔ حالانکہ ان کے پیچھے اسلام کی بجائے نفسیاتی امراض ہوتے ہیں ۔
اسلام کی تعلیمات پر ذرا غور کیجیے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا"
"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔" (التحریم: 6)
یہاں "اپنے آپ کو" پہلے ذکر کیا گیا، پھر "اپنے گھر والوں کو"۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی اولین ذمہ داری اپنی ذات کی ہے پھر باقی لوگ آتے ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
"ابدأ بنفسك فتصدّق عليها، فإن فضل شيء فلأهلك، فإن فضل عن أهلك فلذوي قرابتك"
"سب سے پہلے اپنے آپ پر خرچ کرو، اگر کچھ بچ جائے تو اپنے اہل پر، اور اگر ان سے بھی کچھ بچے تو قرابت داروں پر۔"
اب سوال یہ ہے کہ ہم یہ جاننے کے باوجود آخر ان عادتوں سے جان کیوں نہیں پاتے ۔۔۔ ؟
آپ نے کبھی ایک فلم کئی بار دیکھی ہے ؟ بہت سارے لوگ بعض فلمیں کئی کئی بار دیکھتے ہیں ۔ کتنی حیرت کی بات ہے ناں کہ وہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ جھوٹ اور ڈرامہ ہے ۔۔۔ فلم دیکھتے ہوئے غمگین بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی ، سسپنس بھی محسوس کرتے ہیں اور خوف بھی ۔۔۔ اور پھر مزے کی بات کہ وہ ہر بار فلم دیکھتے ہوئے کم و بیش ایسے ہی جذبات سے گزرتے ہیں ۔۔ حالانکہ وہ انجام بھی جانتے ہیں اور سٹوری بھی ۔۔۔ پتہ ہے کیوں ؟
کیوں کہ مسئلہ یہ ہے کہ محسوس کرنا ۔۔۔ مزہ دیتا ہے ، یہ غلط عادت اور پیٹرن میں جو چیز نشہ بنتی ہے وہ اس سے ملنے والی خوشی ۔۔۔ بچپن سے ملنے والا درد ، دوسروں کی توجہ کی بھیک ، اپنے تذکرے کی خوشی ، خود کو مٹا دینے کا درد ۔۔۔ درد بھی ایک نشہ بن جاتا ہے ۔ ذلت بھی نہ مٹنے والی پہچان بن جایا کرتی ہے ۔۔۔ جسے انسان کھونا نہیں چاہتا!
جس چیز کے ساتھ لمبا وقت گزرا ہو ۔۔۔ اس میں یہ میٹر نہیں کرتا کہ وہ کیا اور کیسی تھی ۔۔۔ گزرے لمحے ، بیتے پل ، آنکھوں میں کٹی راتیں ، آنسوؤں میں بھیگے دن ، مٹی میں دھول اڑاتی شامیں ۔۔۔۔ یہ سب زندگی بن جاتی ہے ، اور بھلا کوئی کیسے اپنی زندگی سے جدا ہو سکتا ہے ۔۔۔ چاہے وہ حسین ہو یا بدصورت ، بلندی دینے والی ہو یا ذلت ۔۔۔ !
جیسے بچپن کے رشتے ، لوگ ، گلیاں ، چوک ، حادثے ، مار پیٹ کرتے استاد ، حادثوں کی جگہیں ۔۔۔ ڈھلتی عمر میں ۔۔۔ خوبصورت یادوں کا روپ دھار لیتی ہیں ۔۔۔ ایسے ہی درد دینے والے ، صحت اور مال تباہ کرنے والے غلط پیٹرنز اور عادتیں ۔۔۔۔ ماضی بن کر ، یادیں بن کر ۔۔۔ زندگی بن جاتے ہیں ۔۔۔ جن سے جدائی ۔۔۔ ناممکن ہو جاتی ہے!
اسی ماضی سے زندگی کے بہت سے اصول طے ہوتے ہیں کہ جن کی رب العالمین نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ۔ جیسے یہ چند اصول دیکھیں
لڑکی ہو، برداشت کرو!
ماں ہو، ان لمیٹڈ قربانی دو!
اچھے بچے ہو تو شکایت نہ کرو!
بڑے بیٹے ہو تو سب کا بوجھ اٹھاؤ
مرد ہو تو درد کا شکوہ نہ کرو
غریب ہو تو اپنی بے عزتی پر دھیان نہ دو
شادی شدہ ہو تو موت کے سوا علیحدگی کا مت سوچو
وغیرہ وغیرہ
ان پیٹرنز اور اصولوں کو بدلنے کا مطلب ۔۔۔ بچپن کے بہت سے لوگوں کو کھونا ہے ، بہت سی گلیوں سے نفرت کرنا ہے ، بہت سے لمحوں کو ظلم ماننا ہے ۔۔۔۔ اس کے لیے ۔۔۔ بہت آنسو بہانے پڑتے ہیں ۔۔۔ جدائی کے درد سہنے کے لیے دل بڑا رکھنا پڑتا ہے ، ظلم کو ظلم ماننے کے لیے ۔۔۔ بہت سے چہچہاتے چہروں کو ظالم سمجھنا ہوتا ہے ۔۔۔۔ تب جا کر ۔۔۔ یہ حوصلے پیدا ہوتے ہیں کہ اپنی اصلاح کا عمل آگے بڑھے !
لوگ اصلاح کرنے کو ، خود کو بدلنے کو آسان سمجھتے ہیں ۔۔۔ یہ آسان نہیں ہے ۔۔۔ ماضی کے لمحات میں بہت سے لمحوں پر روئے بغیر ۔۔۔ ماضی سے چلے آتے پیٹرنز ۔۔۔ سے جان چھڑانا ممکن نہیں ہے ۔۔۔ یہ نئی دنیا مانگتا ہے ، نئے دوست ، یہ ہجرت کا سفر ہے ، چھوڑ دینے کا سفر ، ہمت کرکے ظالم کا ہاتھ روکنے کا سفر ہے ۔۔۔ ایک ایسا ظالم کہ جو نہ جانے کب سے آپ کو مارے جا رہا تھا ۔۔۔ اپنی ذات کو بھول جانے اور دوسروں کی خوشیوں میں جینے کا یہ انجام ۔۔۔ چند دنوں کے ظلم کی پرورش اور تربیت نہیں ہے ۔۔۔ یہ گہرے زخم ۔۔۔ مسلسل ظلم کی کہانی کا کیا دھرا ہیں !
یہ جو خود اچھا کھایا نہیں جاتا ، اپنے لیے ڈرائی فروٹس ، پھل اور خدا کی رنگ برنگی نعمتیں ۔۔۔ انجوائے کر نہیں پاتے ، اپنی اولاد کو دیتے ہوئے ۔۔۔ گلٹ ، فضول خرچی ۔۔۔ جیسے احساسات گھیرے لیتے ہیں ۔۔۔ سیر سپاٹے پر جانا ۔۔۔ وقت کا ضیاع لگتا ہے ، جم ایکسرسائز کے لیے قدم بوجھل بوجھل ہو جاتے ہیں ، اپنی عزت کروانے پر گھن سی آنے لگتی ہے ۔۔۔۔ یہ وہی درد ہیں کہ جو اب آپ کی زندگی کی خوبصورت یادوں کی حیثیت پا چکے ہیں اور زندگی بن چکے ہیں ۔۔۔ ان سے خود کو توڑنا ۔۔۔ اپنی زندگی کے ایک حصے سے خود کو توڑنا ہے ۔
جس دن اس زندگی سے ۔۔۔ آپ ۔۔۔ کیا خوبصورت تھا اور کیا بدصورت ؟ ۔۔۔ کون رسپیکٹ فل تھا اور کون ذلیل ؟ ۔۔۔ کیا پیارا تھا اور کیا بدصورت ؟ ۔۔۔ یہ دیکھنے کے قابل ہو گئے اس دن ۔۔۔ آپ اپنی اصلاح کرنے کے لیے ایک قدم اٹھا پائیں گے ۔۔ پھر اگلا قدم ۔۔۔ جو درد تھا اسے محسوس کرنا ۔۔ اور جو لطف تھا اسے یاد رکھنا ہے ۔۔۔۔ اس سے اگلا قدم ہجرت کا ہے جہاں آپ اذیتوں سے دور ہوتے ہیں اور خوشیوں میں بسیرا کرنے کی جانب بڑھتے ہیں ۔۔۔
دنیا کی زندگی کو سنوارنا اور یہاں بھی خوشیاں حاصل کرنا اسلام ہی کی تعلیمات ہیں ۔
ارشاد باری ہے ۔
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا
"اور جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے، اس کے ذریعے آخرت کا طلبگار بن، اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھول۔" (القصص: 77)
آئیے اپنی عادات کی اصلاح کے چند عملی مراحل سیکھتے ہیں !
پہلا قدم: اپنے پیٹرنز کا شعوری جائزہ لیتے رہیں
> دن یا ہفتے میں خاص اپنے لیے وقت نکالیں ۔۔ جس میں اپنے رویوں کا مشاہدہ کریں — کہاں آپ حد سے زیادہ دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کہاں آپ اپنے جذبات دباتے ہیں؟ خود کو اگنور کرتے ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ
دوسرا قدم: ان رویوں کے پیچھے چھپے اپنے تصورات پر غور کریں ۔ جو اسلام کی نہیں ۔۔۔ آپ کی زندگی کے حادثات کی پروڈکشن ہیں ۔
> مثلاً "اگر میں انکار کروں گا تو لوگ ناراض ہو جائیں گے"، یا "میری عزت کی بنیاد صرف خدمت میں ہے" — وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام غلط beliefs ہیں، جنہیں زخم ۔۔۔ گہرائی سے ہمارے دلوں میں پیوست کر دیتے ہیں ۔ انہیں چیلنج کرنا سیکھیں۔
تیسرا قدم: نئے رویے سیکھنے کی کوشش کریں
> اچھے انداز میں انکار کرنا ۔
> اپنے لیے وقت نکالنا۔
> اپنے جذبات کو جائز ماننا۔
چوتھا قدم: مدد لینا ۔
دین کا صحیح علم رکھنے والے علماء اور اسی طرح تھراپسٹ سے مدد لینا ۔ جو آپ کو آپ کی تکلیف سے نکالنے میں مدد دیں ۔ اسی طرح اپنے بہن بھائیوں اور پھر ماں باپ ۔۔۔ کے ساتھ بیٹھنا ، شیئر کرنا ، دلاسہ دینا ، پیار لینا ۔۔۔ یہ سب اہم مراحل ہیں ۔
بات لمبی ہو گئی ۔۔۔ بس اتنا ہی کہنا ہے کہ جیسے حقیقت جانتے ہوئے بھی ایک ہی فلم کو بار بار دیکھنے کے باوجود۔۔۔ اس کے احساسات اور جذبات ۔۔۔ زندہ رہتے ہیں ۔۔۔ اسی طرح اپنی غلط عادتوں کو جاننے کے باوجود ۔۔۔ ان کا درد ، احساس ، اور ذلت آمیز پیکج میں ملی توجہ ، خوشی اور تعریف ۔۔۔ بھی ہمیں مزہ دیتی ہے اور ہم سے چمٹی رہتی ہے ۔۔ اس سے نکلنا ۔۔۔ ایک سفر مانگتا ہے ۔۔۔ عزت و تکریم کا سفر کہ جس سے خدا نے ہر مسلمان کو نوازا ہے!
اس سفر پر گامزن رہیں اور اللہ سے یہ دعائیں کرتے رہیں !
اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ
> اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھا اور اس پر چلنے کی توفیق دے، اور باطل کو باطل دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔
اللَّهُمَّ لاَ تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ
> اے اللہ! مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ فرما۔
تبصرہ لکھیے