ذوالحجہ کی آمد کے ساتھ ہی امتِ مسلمہ ایک عظیم شعیرہ، قربانی کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہے۔ ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں مسلمان دنیا بھر میں جانور ذبح کرتے ہیں۔ گلیاں، بازار، مساجد اور گھر اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھتے ہیں۔ یہ عمل بظاہر ایک مذہبی رسم دکھائی دیتا ہے، مگر اگر اس کے باطن میں جھانکا جائے تو یہ محض گوشت کی تقسیم یا رسم کی ادائیگی نہیں، بلکہ ایک ایسی روحانی تربیت ہے جو انسان کو اللہ کی اطاعت، تقویٰ اور خلوص کا اعلیٰ نمونہ بناتی ہے۔
اسلام نے قربانی کو صرف ظاہری عمل تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کی اصل روح کو اللہ کی رضا اور دل کی پاکیزگی سے مشروط کیا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں واضح ارشاد ہے: "اللہ کو نہ ان (جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔" (الحج: 37)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اصل مطلوب، عمل کے پیچھے کارفرما نیت ہے۔ اگر نیت خالص ہو، تو معمولی عمل بھی عظیم عبادت بن جاتا ہے، اور اگر ریاکاری ہو تو بڑی سے بڑی قربانی بھی قبولیت سے محروم رہتی ہے۔
قربانی ہمیں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی وہ بے مثال اطاعت یاد دلاتی ہے، جہاں باپ نے اللہ کا حکم سن کر بیٹے کو قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی، اور بیٹے نے بھی سرِ تسلیم خم کر دیا۔ یہ ایک ایسا نمونہ ہے جو ہر مسلمان کو اپنے اندر جھانکنے اور سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے:
کیا ہم بھی اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات، اپنی ضد، اپنے نفس، اور اپنی دنیاوی ترجیحات کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں؟
قربانی کا پیغام صرف انفرادی اصلاح تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک معاشرتی نظامِ عدل و رحم کا مظہر بھی ہے۔ جب قربانی کا گوشت غرباء، مساکین اور ضرورت مندوں تک پہنچتا ہے تو اس سے سماج میں مساوات اور بھائی چارہ فروغ پاتا ہے۔ ایک ایسا نظام جنم لیتا ہے جو دولت کی تقسیم کو متوازن بناتا ہے اور طبقاتی فاصلے کم کرتا ہے۔
لیکن آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اس شعیرہ کی روح کو برقرار رکھے ہوئے ہیں؟ یا یہ عبادت بھی دوسری مذہبی رسومات کی طرح محض دکھاوا، فخر اور مقابلہ بازی کی نذر ہو چکی ہے؟ کیا ہمارا مقصد صرف بڑے جانور کی نمائش رہ گیا ہے یا ہم اللہ کی رضا کے طلبگار ہیں؟
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم قربانی کے ظاہری پہلو سے نکل کر اس کے باطنی پہلو کی طرف رجوع کریں۔ ہر قربانی ہمیں یاد دلائے کہ
اللہ کی اطاعت سب سے مقدم ہے،
خواہشات کی بندگی چھوڑنا اصل کامیابی ہے،
اور اللہ کی راہ میں دینے والا ہاتھ، لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
اگر یہ پیغام ہمارے دلوں میں جاگزیں ہو جائے، تو قربانی صرف ایک عبادت نہیں بلکہ زندگی کا طرزِ فکر بن جائے گی۔
تبصرہ لکھیے