ہوم << پاکستان محض زمین کا ایک ٹکڑا؟ یا ایک نظریہ؟ عبدالرزاق زاہدگھمن

پاکستان محض زمین کا ایک ٹکڑا؟ یا ایک نظریہ؟ عبدالرزاق زاہدگھمن

خواتین وحضرات!میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اور اس کے بعد آپ لوگوں کو اللہ رب العزت سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہوں اور جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈر جاتا ہے، رب کائنات جو اسے اَن گنت،لاتعداد، بے شمار نعمتیں عطا فرماتے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ بحرانی کیفیت میں اس انسان کو صبر،استقامت حوصلہ اور بصیرت عطا فرماتے ہیں ۔میں یہ بات آپ کی خدمت میں اس لیے رکھ رہا ہوں کہ آج اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس ذات بابرکات کے فضل و کرم سے 11 ذی القعدہ 1446 ہجری ہے۔ دوسری طرف 09 مئی 2025 عیسوی ہے۔ ہمارا آج کا موضوع ”پاکستان محض زمین کا ٹکڑا؟ یا ایک نظریہ“؟اگر اس موضوع کو مختصراً بیان کیا جائے، تو یہ ہے کہ”پاکستان کیا چیز ہے؟“ اس موضوع کے انتخاب کی وجہ یقیناً آپ لوگ سمجھ چکے ہوں گے کہ آج ہم ان حالات میں اللہ کے اس گھر میں بیٹھے ہیں، جب دنیا کے پلید ترین مشرک کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان کے مسلمانوں کی قوتِ برداشت کا سخت امتحان لیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہو چکا ہے کہ اسلامی پاکستان کو معلوم ہو کہ وہ ملک، جس کے اندر ہم بیٹھے ہیں، درحقیقت ہے کیا؟لیکن اس سے پہلے میں آپ کو ایک بات سمجھا دوں: یہ جو موجودہ حالات ہیں، یہ نئے نہیں ہیں۔

قرآنِ مجید، سورۃ الاحزاب کی 22ویں آیت مبارکہ میں میرا رب غزوۂ احزاب کا ایک نقشہ کھینچتا ہے۔حالات بالکل ویسے ہی تھے جیسے آج ہیں۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے صحابہ تعداد میں کم تھے،بالکل اسی طرح جیسے پاکستان، بھارت سے دس گنا چھوٹا ملک ہےاور یہ صرف جغرافیائی لحاظ سے نہیں، آبادی کے اعتبار سے بھی۔پاکستان کی آبادی 24-25 کروڑ ہے، جب کہ بھارت کی آبادی سوا ارب سے ڈیڑھ ارب کے درمیان ہے۔ دنیاوی اعتبار سے ہر پہلو میں بھارت کے پاس مسائل بھی زیادہ ہیں اور وسائل بھی۔غزوۂ خندق، یعنی غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی یہی صورتحال تھی۔لیکن آپ کو مبارک ہو کہ پاکستانی قوم نے اس موقع پر وہ کردار ادا کیا ہے جس کا تذکرہ ربِ کائنات نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا (33:سورۃ الاحزاب:22) ترجمہ:”اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انھوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا، اور اس چیز نے ان کو ایمان اور فرماں برداری ہی میں زیادہ کیا۔“

آج اللہ کا فضل، کرم اور رحمت ہے کہ پاکستانی قوم ہندوستان کے ناپاک عزائم کے مقابلے میں اسی جذبے کا اظہار کر رہی ہے۔ جب دین کی بنیاد ہو، اللہ کی مدد ہو اور لوگ مخلص اور متفق ہو کر متحد ہو جائیں، تو پھر کامیابی قریب آ جاتی ہے۔پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس کی بنیاد ”لا الہ الا اللہ“پر رکھی گئی۔ یہ محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ یہ ایک فطری، تہذیبی اور روحانی طور پر اسلام کا مرکز ہے، اور اس مرکز پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرمہے۔اب ذرا آگے بڑھتے ہیں، اللہ کی زمین پر اس وقت صرف دو ریاستیں نظریاتی ہیں: ”اسلام کے نام پر آزاد ہونے والا پاکستان“ اور ”یہودیت کے نام پر بننے والا ناسور اسرائیل“۔ یہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی دنیاوی اور روحانی نعمتوں کا ایک عظیم خزانہ ہے۔

پہلے دنیاوی لحاظ سے بات کر لیتے ہیں۔ اللہ کی زمین پر پاکستان کے علاوہ آپ کو وہ کون سا ملک ہے جہاں آپ کو چھ موسم ملتے ہیں؟ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ چار موسم ہوتے ہیں، لیکن پاکستان میں کتنے موسم ہیں؟ چھ!اب آپ کہیں گے کہ چھ موسم کہاں سے آ گئے؟ سردی، گرمی، بہار اور خزاں تو ہیں ہی، اس کے ساتھ ایک موسم برسات کا اور ایک ایسا موسم بھی ہے جسے ہماری پنجابی زبان میں روڑاکہتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آپ کو یہ موسم ملتے ہیں۔اگر آج کی تاریخ 11 ذوالقعدہ 1446 ھ، 9 مئی 2025 ء کو دیکھا جائے، تو اسی وطن عزیز پاکستان میں آپ کو گلگت بلتستان میں درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ملے گا، جب کہ سبی وغیرہ میں درجہ حرارت 45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہو گا۔ یہ اعزاز پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کے پاس نہیں ہے۔

ایک بات اختتام پر کروں گا، لیکن ایک بات ابھی سن لیجیے!
اگر صرف زمین کی بات کی جائے تواللہ تعالیٰ کی ساری زمین پر مٹی کی جتنی اقسام پائی جاتی ہیں، وہ ساری کی ساری، اللہ کے فضل و کرم سے، وطنِ عزیز پاکستان میں موجود ہیں۔پاکستان ایک مکمل جغرافیائی نعمت ہے۔ میں علاقوں کے نام نہیں لیتا، وقت کم ہے۔یہاں آپ کو بلوچستان کے تپتے، سعودی عرب جیسے سنگلاخ پہاڑ بھی ملیں گے، اور اسی ملک میں آپ کو برف سے ڈھکی چوٹیاں بھی نظر آئیں گی۔یہاں آپ کو ایسے سخت پہاڑ ملیں گے جن کا پورا سلسلہ سرسبز و شاداب ہے، اور وہ پہاڑ بھی ملیں گے جو مٹی کے ہیں، جہاں پتھر نام کو نہیں۔یہاں ایک طرف گلگت بلتستان میں برف کا سمندر سیاچن گلیشیئر ہے، اور دوسری طرف چولستان کا وہ صحرا بھی ہے جو دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے۔اسی سرزمین پر آپ کو پتھریلی زمین بھی ملے گی اور وہ سونا اُگلتی ہوئی زرخیز زمین بھی، جو دنیا بھر کو غلہ مہیا کرتی ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان کھیوڑہ کی صورت میں رب کائنات نے ہمیں عطا کی۔ دنیا کا بہترین نہری نظام ہمیں ملا۔یہ وہ سرزمین ہے جس کی مٹی میں وفا ہے، غیرت ہے، روحانیت ہے۔ ایک واقعہ سنیے، ایمان تازہ ہو جائے گا۔

نیویارک میں مقیم ایک پاکستانی پنجابی نے ارادہ کیا کہ یہاں ”پنڈ وریسٹورنٹ“بناؤں گا۔ وہ پاکستان آیا، سینکڑوں چارپائیاں بنوائیں، پٹھے کا بان خریدا، کارپینٹر کو ویزہ دے کر ساتھ لے گیا۔پسرور، گجرات، چنیوٹ سے مٹی کے برتنوں کے 8-10 کنٹینر منگوائے۔ وہ کنٹینر امریکہ پہنچے، ویئرہاؤس میں رکھے گئے، تمام اجازتیں مل گئیں، مگر فوڈ اتھارٹی والے آ گئے۔کہنے لگے: یہ برتن آپ استعمال نہیں کر سکتے۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ بھارت، سری لنکا، بھوٹان اور کمبوڈیا سے لائے گئے برتن انسانی صحت کے لیے نقصان دہ نکلے، ہم ان کو چیک کریں گے۔وہ کہتا ہے: میں کونے میں گیا، سجدے میں گر پڑا، یا اللہ! عزت رکھ لے۔ تھوڑی دیر بعد آواز آئی، سر!تشریف لائیے۔(Sir please come on)۔ تو افسر کہنے لگا، یہ بتائیں یہ برتن کہاں سے خریدے؟ کہا: کیوں؟جواب آیا: یہ مٹی کے برتن انسانی صحت کے لیے نہ صرف محفوظ بلکہ بہت مفید ہیں!کہتا: میں خوشی سے رونے لگا۔(اللہ اکبر)

یہ جو بے غیرت کہتے ہیں یہ ایک لکیر ہے، یہ لکیر نہیں ہے! شکرگڑھ سے لے کر میاں والی تک، اور کراچی سے گلگت بلتستان تک، جہاں سے بھی مٹی اٹھاؤ گے، وہ پاکیزگی لے کر آتی ہے، وہ صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہو سکتی۔ایسے ہزاروں واقعات ہیں۔ آج ہمیں ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ہمیں کیا ڈرنا؟یہ خود ڈرے ہوئے ہیں! ان شاءاللہ، اگلے خطبے میں ذکر ہو گا کہ ان میں اب جرات نہیں کہ ہوائی جہاز لے کر آئیں۔فرانس نے پاکستان سے رابطہ کیا کہ ہمارے جہازوں کا قصور نہیں، لڑانے والوں سے پوچھو!یہ جو ڈرون گرائے جا رہے ہیں، یہ بھارت کی شکست ہے۔شکست کیوں؟اس لیے کہ اب وہاں مرد باقی نہیں رہے، پریس کانفرنس کے لیے ایک بی بی کو بھیجا گیا ہے، کہ وہ پاکستان کا مقابلہ کرے؟ان کو یاد نہیں؟ چونڈہ کا ٹینکوں کا قبرستان آج بھی گواہی دے رہا ہے۔جب 1965ء کی جنگ میں رات کے اندھیرے میں حملہ کیا گیا، تو کتنے پاکستانی سپاہی بم سینے سے باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے؟
کتنے پل توڑے گئے؟ کتنے ٹینک تباہ ہوئے؟تم ہماری پروفیشنل آرمی کا مقابلہ کیا خاک کرو گے؟ تمہارا بندوبست کرنے کے لیےہمارے عام پاکستانی ہی کافی ہیں۔ان شاءاللہ۔ یہ ہے پاکستان! جاؤ! بزرگوں سے پوچھو، 1965ء میں کیا حالات تھے؟
ہمارا ایک بزرگ توڑی کا گڈا لے کر جا رہا تھا، چھکڑا بھی ساتھ تھا۔ فوجیوں نے کہا: بابا جی! ہمیں چھکڑا چاہیے۔بابا جی نے پوچھا: بیٹا کیوں؟کہنے لگے: ہم نے دشمن پر توپ کا فائر کرنا ہے، اور اس توپ کو چھکڑے کی اوٹ دے کر چھپانا ہے۔بابا جی نے کہا: بیٹا! گڈا بھی لے لو، چھکڑا بھی لے لو، اورمیری جان بھی حاضر ہے۔ان شاءاللہ

یہ وہ سرزمین ہے کہ جب ساری دنیا نے مخالفت کی،کہ یہ پاکستان مر گیا ہے، قرضوں کے نیچے دب چکا ہے،جی ڈی پی گر چکی ہے،پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں،عام آدمی پس چکا ہے۔لیکن جب دشمن نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت کی تو ایٹمی دھماکے کیے۔تو اس ملک نے بھی ایٹمی دھماکے کر کے پوری دنیا کو پیغام دے دیا۔ یہ 28 مئی 1998 کی بات ہے جب میں اسلامی مدینہ یونی ورسٹی مدینہ منورہ میں تھا۔میرے پاس پوری دنیا کے طلبہ کی لائن لگ گئی،کہنے لگے:”تمہیں اسلامی پاکستانی ایٹم بم مبارک ہو!“۔اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا پاکستان صرف زمین کا ایک ٹکڑا ہے؟ یہاں سے اگر آپ انڈونیشیا جائیں تو ڈائریکٹ فلائٹ 10 گھنٹے کی ہے۔ انڈونیشیا جزائر پر مشتمل ملک ہے۔ جس دن پاکستانیوں، تم نے ایٹمی دھماکے کیے تھے، اُس دن یہاں سے 10 گھنٹے کی فلائٹ کے فاصلے پر انڈونیشیا میں مٹھائی کی دکانیں خالی ہو گئی تھیں۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو ساری دنیا کے مسلمان اپنا دیش سمجھتے ہیں۔ اور پھر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ پاکستان کے پاس ہے کیا؟ ابھی تو یہ سب کچھ صرف ٹریلر ہے! یہ جو دُھواں اُٹھ رہا ہے، یہ جو ملک کا دفاع ہو رہا ہے، یہ ہمارا صبر ہے۔ ہم صرف منہ دیکھ رہے ہیں کہ ہندو کرتا کیا ہے۔ ابھی ہم صرف دفاع کر رہے ہیں۔ اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ابتدا میں دفاع کرنے والا، جس کا غصے کا دھیما ہو، وہ آخر میں بڑا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ یہ آئی ایس پی آروالے... اللہ تعالیٰ ہمارے فوجی جوانوں کی حفاظت فرمائے... کیا خوب کہا انہوں نے: پترو! جو تم کرو گے، وہ ہمارے لیے عجیب و غریب نہیں ہوگا، وہ ہمیں حیران نہیں کرے گا، کیونکہ ہم نے پچھلے 70-75 سال صرف تمہیں پڑھا ہے۔ لیکن جو ہم کریں گے، وہ تمہیں حیران کر دے گا۔ ہمارے معرکے، ہمارے کارنامے... اور ابھی تک دشمن حیران ہے۔ اور جس کو یقین نہ آئے، وہ ذرا کنٹرول لائن پر جا کر دیکھے، وہاں کیا حال ہے؟ ہائے رام! ہائے رام! کی چیخیں آج بھی بلند ہو رہی ہیں۔

پرانی بات ہے، تھوڑی سی آپ کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ جب سیالکوٹ میں دشمن نے ہمارے کچھ ساتھیوں کو شہید کیا اور عوام کے جانوروں کو زخمی کیا، تو جنرل راحیل شریف نےخود میدان میں آ کر کہا: فوجیو! منہ سے مانگو، کون سی گن چاہیے؟ لیکن مجھے صبح انٹرنیشنل میڈیا پر، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر، ہندو فوجیوں کی لاشوں کی تصویریں چاہئیں! اپنے جوانوں کا جذبہ دیکھیے! انہوں نے جواب دیا: جنرل صاحب! آپ واپس جائیں، کسی گن کی ضرورت نہیں، آپ کی اجازت ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ صبح ہدف، ان شاءاللہ، آپ کو مل جائے گا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس مقام پر دشمن کو دوبارہ ایک سال تک حملے کی جرات نہ ہو سکی۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کوئی معمولی چیز ہے؟یاد رکھو! سڑک پر گاڑی نہیں چلتی، ڈرائیور چلاتا ہے۔ فضا میں جہاز نہیں لڑتے، معرکے پائلٹ لڑتے ہیں۔ جاؤ، چیلنج ہے! سرگودھا کی فضائیں آج بھی اس بات پر گواہ ہیں، اور یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو قیامت تک نہیں ٹوٹ سکتااور اگر ٹوٹے گا، تو صرف پاکستانیوں کے ہاتھوں ٹوٹے گا۔ بنگال کا وہ جوان، ایم ایم عالم، جو اب اس دنیا میں نہیں رہا، اللہ تعالیٰ اس کی قبر پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔اس نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ لڑاکا طیارے سرگودھا کی فضاؤں میں نیست و نابود کر دیے تھے۔ ہمارے ایک شیر نے پرانے جہاز کے ساتھ تمہارا یہ حشر کر دیا تھا،اب جو ٹیکنالوجی آج ہمارے پاس ہے، اس کا تو تم تصور بھی نہیں کر سکتے!

یاد رکھیے، یہاں ایک بات آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں: تعداد کے اعتبار سے میں پہلے ہی سمجھا چکا ہوں کہ دشمن ہم سے زیادہ ہے، لیکن پاکستان کے پاس دو ایسی نعمتیں ہیں جن کا مقابلہ کائنات کی کوئی طاقت نہیں کر سکت۔سب سے پہلے ایمان، تقویٰ، اللہ پر بھروسہ؛ اور دوسری چیز: پاکستان کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے۔اس ضمن میں ایک اور بات سمجھ لیں: ترسوں جس رات پاکستان کے کچھ علاقوں پر میزائل فائر ہوئے، عام آدمی کو شاید نہ معلوم ہو، لیکن جنگی ماہرین جانتے ہیں کہ اُس رات انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فضائی نقل و حرکت ہوئی۔ ایک سو سے زائد طیارے دونوں طرف سے فضا میں موجود تھے۔ہمارے جوانوں نے پندرہ دشمن طیاروں کو لاک کر رکھا تھا، اجازت کا انتظار تھا۔ اور جب اجازت ملی، پاکستانی جان بازوں نے دشمن کے پانچ رافیل اور دیگر جنگی جہاز مار گرائے۔یہ وہی طیارے تھے جن سے میزائل فائر ہوئے تھے۔ باقی طیارے چھوڑ دیے گئے، اس لیے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور امن چاہتا ہے۔اس کے بعد ترسوں سے لے کر آج تک انڈیا کا ایک بھی طیارہ فضا میں بلند نہیں ہوا۔ ہندو اس قدر خوفزدہ ہے کہ جُرأت ہی نہیں کر سکتا۔اور سنیں، پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی نعمت سے بھی نوازا ہے جو آپ، میں اور ہم سب سے تعلق رکھتی ہے۔ کسی نے کہا پاکستان کی فوج کتنی ہے؟عرض کیا: چند بے ضمیروں اور چند غداروں کو چھوڑ کر، پاکستان کی پوری آبادی پاکستان کی فوج ہے۔ ان شاء اللہ

یہ ہمارے عوام کا جذبہ ہے۔ اور آج کے خطبے میں اس موضوع کے انتخاب کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ جذبہ مرنا نہیں چاہیے۔ حالات سخت ہیں، مگر ساری دنیا کے مسلمان اس وقت پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیںاور اللہ کے فضل و کرم سے، ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی امیدوں کو کبھی خاک میں نہیں ملنے دیں گے۔
ایک اور بات سن لیجیے، ذاتی بات ہے۔ میں سعودی عرب میں سات سال پڑھ کر آیا ہوں۔ اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں: دین کے حوالے سے جتنی آزادی وطنِ عزیز پاکستان میں ہے، وہ آپ کو سعودی عرب میں بھی نہیں ملے گی۔ایک مثال دیتا ہوں: ہم جتنے ساتھی یہاں بیٹھے ہیں، سب اُٹھ کر جمعہ کے بعد باہر نکل جائیں، اور چاروں سڑکیں روک کر بیٹھ جائیں۔کیا ہوگا؟ پولیس آئے گی، پوچھے گی: کیا ہو رہا ہے؟ہم کہیں گے: ہم نے اللہ تعالیٰ سے ایک نذر مانی تھی کہ آدھا گھنٹہ سڑک کے بیچ بیٹھ کر نبی علیہ السلام پر درود پڑھیں گے۔ایمانداری سے بتائیے، کیا ٹریفک رُکے گی یا نہیں؟ کیا ہمیں کوئی اُٹھائے گا؟یقیناً نہیں۔
پاکستان… اور ایک آخری بات سن لیجیے!

1965ء میں جب دشمن نے بیک وقت تین محاذوں پر حملہ کیاچھ ستمبر کو لاہور اور آٹھ ستمبر کو تھرپارکرتو وہاں فوج کا فوری طور پر پہنچنا ممکن نہ تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ عوام الناس سے اپیل کی جائے، رضاکاروں کی بھرتی ہو۔مساجد استعمال ہوئیں، لاؤڈ اسپیکر پر اعلانات ہوئے: ہمیں ایک گھنٹے میں پانچ ہزار جوان درکار ہیں، جو ملک پر جان قربان کرنے کو تیار ہوں!اللہ کی قسم! تاریخ کا یہ روشن باب ہے کہ صرف آدھے گھنٹے کے اندر پچاس ہزار جوان اکٹھے ہو گئے۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حالات میں اس قومی جذبے کو مرنے نہ دیا جائے، بلکہ اسے زندہ رکھا جائے۔اللہ تعالیٰ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین

اس خطبہ جمعہ میں سے اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔تقویٰ اور اللہ سے ڈرنے کی تلقین:
خطبے کا آغاز اللہ کی رضا کے لیے تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین سے ہوا۔
اللہ کے ڈر سے انسان کو صبر، استقامت، حوصلہ اور بصیرت عطا کی جاتی ہے۔

2۔پاکستان کا نظریہ اور اس کی حقیقت:
پاکستان محض ایک جغرافیائی ٹکڑا نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے جس کی بنیاد ”لا الہ الا اللہ“ پر رکھی گئی۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جو دین اسلام کے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور اللہ کی خاص رحمت کا مرکز ہے۔

3۔پاکستان کا جغرافیائی تنوع:
پاکستان میں چھ موسم پائے جاتے ہیں: سردی، گرمی، بہار، خزاں، برسات، اور روڑا (جو صرف پاکستان کی خاصیت ہے)
پاکستان میں مختلف جغرافیائی خصوصیات ہیں جیسے برف سے ڈھکے پہاڑ، صحرا، زرخیز زمین، اور دنیا کا سب سے بڑا نمک کا ذخیرہ (کھیوڑہ نمک کان)۔

4۔غزوۂ احزاب اور پاکستان کی موجودہ صورتحال:
قرآنِ مجید کی سورۃ الاحزاب کی 22ویں آیت میں غزوۂ احزاب کی مشابہت پاکستان کی موجودہ حالت سے بیان کی گئی۔
پاکستانی قوم کی قوتِ برداشت اور ایمان کے جذبے کا ذکر کیا گیا، جو ہندوستان کے ناپاک عزائم کے خلاف اٹھتا ہے۔

5۔پاکستان کی فوج اور اس کی طاقت:
پاکستانی فوج کو انتہائی طاقتور اور پیشہ ورانہ قرار دیا گیا، جو ہر قسم کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیےتیار ہے۔
پاکستان کے دفاع کی استعداد اور ایٹمی طاقت کا ذکر کیا گیا۔

6۔پاکستانی قوم کا جذبہ:
پاکستانی عوام کی غیرت، وفا، اور جذبہِ قربانی کو سراہا گیا۔
1965ء کی جنگ میں پاکستانی عوام کی قربانیاں اور ایثار کا تذکرہ کیا گیا۔
عام کی بھرپور حمایت سے دشمن کی سازشوں کا مقابلہ کیا گیا۔

7۔پاکستان کی عالمی اہمیت:
پاکستان کا ایٹمی دھماکہ اور عالمی سطح پر اس کا اثر۔
اسلامی دنیا میں پاکستان کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے، اور مسلمان ممالک پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں۔

8۔پاکستانی مٹی کی خاصیت:
پاکستانی مٹی کی پاکیزگی اور صحت کے لیے فائدہ مند ہونے کا ذکر کیا گیا۔
مٹی کے برتنوں کی مثال دی گئی، جو انسانی صحت کے لیے نہ صرف محفوظ بلکہ فائدہ مند ہیں۔

9۔دشمن کی شکست اور پاکستانی عوام کا عزم:
دشمن کے خلاف پاکستان کی فتح اور اس کے عالمی اثرات کی بات کی گئی۔
جنگی میدان میں پاکستانی فوج اور عوام کی بہادری کا ذکر کیا گیا۔

10۔پاکستان کا مستقبل:
پاکستان کا مستقبل روشن ہے، اور یہ کوئی معمولی ملک نہیں ہے۔
دنیا بھر میں پاکستانی قوم کے حوصلے اور جذبے کو سراہا گیا اور اس بات کا عہد کیا گیا کہ پاکستان کبھی کمزور نہیں ہوگا۔

11۔پاکستانی معاشرتی آزادی:
پاکستان میں دین کی آزادی اور اس کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
سعودی عرب اور دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں دینی آزادی کا ذکر کیا گیا۔
اس خطبہ جمعہ میں پاکستان کی جغرافیائی، روحانی، اور دفاعی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، ساتھ ہی پاکستانی قوم کے عزم، جذبے، اور ایمان کا بھرپور تذکرہ کیا گیا۔

(نوٹ: یہ خطبۂ جمعہ جامع مسجد عمر فاروق اہلِ حدیث، گھوینکی سیالکوٹ میں شیخ عبدالرزاق زاہد گھمن حفظہ اللہ نے ارشاد فرمایا۔ اسے تحریری صورت میں منتقل کیا گیا، اور بعد ازاں حضرت گھمن صاحب کی نظر ثانی کے بعد اشاعت کے لیے پیش کیا گیا۔ہشام عبداللہ)