کسی نے سچ کہا ہے کہ ادھار محبت کی قینچی ہے۔
کل ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوئی۔ وہ ملتان کے ایک نجی اسکول کے پرنسپل ہیں۔ ملاقات کا مقام گیریژن لائبریری تھا۔ وہ مجھ سے ہمیشہ کی طرح گرم جوشی سے ملے، وہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے ملتے تھے۔ کل ان کی مسکراہٹ میں مصنوعی پن محسوس ہو رہا تھا، میرے غور سے دیکھنے پر ان کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو چُھپایا نہیں جا سکا۔ جیسے مسکراہٹ کے پیچھے کوئی اداسی یا کوئی چھپا ہوا دکھ ہو۔ چہرہ مطمئن نظر آ رہا تھا، مگر نگاہوں میں اُداسی کی ایک دھند چھائی ہوئی تھی۔
ہم لائبریری کی کینٹین پر چلے گئے ، گفت گو معمول کے تعلیمی موضوعات سے شروع ہوئی، لیکن تھوڑی ہی دیر میں اُن کی آواز میں لرزش سی آ گئی۔ پھر رُک کر کہنے لگے:
"مظہر بھائی، ایک بات دل پہ بہت بوجھ بن چکی ہے۔ شاید آپ سے کہہ کر خود کو کچھ ہلکا محسوس کروں۔"
میں نے نرمی سے کہا، "ضرور کہیے، مجھے خوشی ہوگی۔"
انہوں نے ایک گہرا سانس لیا، جیسے کسی پرانے زخم کو الفاظ میں ڈھالنے کے لیے خود کو تیار کر رہے ہوں۔ پھر وہ گویا ہوئے ۔
"میرے بچپن کا ایک قریبی دوست ہے، اکٹھے پڑھے ، کھیلے اور شرارتیں کیں۔ وہی میرا اکلوتا برسوں کا ساتھی تھا۔ وہ ایک سال پہلے انہی جون کے دنوں میں میرے پاس آیا۔ بتایا کہ دبئی جانا چاہتا ہے۔ کاروبار کی ایک شاندار اپرچونٹی ملی ہے، لیکن دس لاکھ روپے کم ہیں۔ اوپر خدا اور نیچے تم ہو۔ انکار مت کرنا۔ میں نے دوستی کا حق سمجھا، کوئی کاغذی کارروائی نہیں کی، بس اعتبار کے سہارے دس لاکھ روپے دے دیے۔ دل مطمئن تھا کہ بچپن کا یار ہے، کبھی دھوکا نہیں دے گا۔"
یہ کہتے ہوئے اُن کی نظریں نیچی ہو گئیں۔ چہرے پر شرمندگی یا شاید خود پر غصے کے آثار تھے۔
"تین ماہ بعد اُس کا فون آیا۔ کہا کہ یہاں دبئی میں کام چل نکلا ہے، مگر اگر تھوڑی سی مزید سرمایہ کاری ہو جائے تو کاروبار جم جائے گا۔ اس نے مزید دس لاکھ مانگے۔ میں نے ایک بار پھر دل پر پتھر رکھ کر اس کے بنک اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کر دی۔"
کچھ لمحے وہ چپ رہے۔ چائے کا کپ اُٹھایا، ہونٹوں تک لائے، مگر ایک گھونٹ بھی نہ پی سکے۔
"پھر ایک دن وہ اچانک اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ میرے گھر آ گیا۔ بڑی اپنائیت سے بولا کہ کاروبار چل پڑا ہے، لیکن ایک اور چھوٹی سی مدد درکار ہے۔ بیٹی کا ایف ایس سی کا رزلٹ آ چکا ہے، اور وہ میرٹ پر میڈیکل کالج میں داخل ہو رہی ہے۔ داخلے اور ابتدائی تعلیمی اخراجات کے لیے دس لاکھ روپے فوری درکار ہیں۔"
اُس لمحے اُن کا لہجہ بوجھل ہو گیا، آواز بھیگ گئی۔
"کہنے لگا: آپ کے پہلے والے بیس لاکھ اور اب یہ دس لاکھ، ان شاء اللہ، تیس لاکھ ایک ہی بار ہاتھ باندھ کر واپس دوں گا۔ اور میرے کاروبار سے جو منافع ملے گا، اُس میں بھی آپ کا شرعی حصہ رکھا ہے وہ بھی ادا کروں گا۔"
انہوں نے میز پر رکھے کاغذ سے نظریں ہٹائیں، اور مجھ سے آنکھیں چُرا کر ایک سرد آہ بھری۔
"اب اُس بات کو ایک سال گزر چکا ہے۔ وہ دبئی میں اپنی فیملی سمیت جا چکا ہے۔ صرف بیٹی یہاں میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے۔ اِدھر اُدھر سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ اُس کا کاروبار خوب ترقی کر رہا ہے۔ مگر افسوس، وہ میری کال نہیں سنتا، میرے پیغام کا جواب نہیں دیتا۔"
اُن کا چہرہ جیسے وقت کی مار سہہ چکا ہو۔ شکوے اُس کی آنکھوں میں جھلک رہے تھے، لہجے میں تھکن، اور باتوں میں ایک ادھورا سا یقین باقی تھا۔
"مظہر بھائی، میں نے اُس سے کبھی پیسے واپس مانگے ہی نہیں۔ میں نے تو صرف دوستی نبھائی تھی۔ اب جب کبھی اُسے فون کرتا ہوں، تو خود سے شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ اپنے جذبات پر، اپنی سادگی پر، اپنی بھروسے کی فطرت پر غصہ آتا ہے۔ لیکن اُس کے انکار سے زیادہ، اُس کی خاموشی مجھے تکلیف دیتی ہے۔"
میں دیر تک کچھ نہ بول سکا۔ کبھی اُن کے چہرے کی طرف دیکھتا، کبھی میز پر رکھے چائے کے سرد کپ کی طرف۔ اُن کے چہرے پر جیسے دوستی کی راکھ بچھی ہوئی تھی، جو وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک دل میں سُلگ رہی تھی۔
تبصرہ لکھیے