ہوم << یومِ تکبیر: برصغیر میں مسلم سیاسی طاقت کے اظہاریے کا دن - سید اسد مشہدی

یومِ تکبیر: برصغیر میں مسلم سیاسی طاقت کے اظہاریے کا دن - سید اسد مشہدی

28 مئی یومِ تکبیر کو محض ایک عسکری تجربے کے طور پر یاد کرنے سے زیادہ برصغیر میں مسلم سیاسی طاقت کے اظہاریے اور اس کے تاریخی تسلسل کا ایک اہم حوالہ سمجھنا زیادہ صائب معلوم ہوتا ہے۔ اصولی طور پر ہمارا ناقص فہم یہ کہتا ہے کہ جدید قومی ریاستیں بذاتِ خود ایک نظریہ ہیں، جو جدیدیت (modernity) کی بنیاد پر استوار ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے دائرے میں کسی ریاست کو خالصتاً "نظریۂ اسلام" پر قائم شدہ ریاست قرار دینا بسا اوقات ایک سادہ لوحی معلوم ہوتی ہے۔ اس سلسلے ہماری کچھ تفصیلی تحریریں اسی دلیل کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، جن میں جدید سیاسی تصورات کی اسلام کاری پر ناقدانہ غور کیا گیا ہے۔

تاہم پاکستان کا قیام بہرحال ایک مسلم قومیت کے فکری بطن سے ہوا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے قائم کرنے میں برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی خواہش اور تگ و دو شامل تھی۔ اگرچہ ان میں زاویۂ نظر مختلف تھے۔ اسی تناظر میں قیامِ پاکستان کی جدوجہد کے ضمن میں دو نمایاں نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔

ایک نقطۂ نظر کانگریس، جمعیت علمائے ہند اور مولانا ابو الکلام آزاد کا تھا، جن کا ماننا تھا کہ چونکہ اب دنیا قومی ریاستوں (Nation-States) کی طرف بڑھ رہی ہے، اس لیے ہندوستان کے تناظر میں ایک مشترکہ قومیت کا ماڈل اپنایا جائے اور مذہب کو ریاستی تقسیم کی بنیاد نہ بنایا جائے۔ ان کے نزدیک ایک متحدہ ہندوستانی قومیت زیادہ موزوں راستہ تھا۔

دوسرا نقطۂ نظر، جو نسبتاً غیر معروف ہونے کے باوجود اہم تھا، وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تھا۔ مولانا کا خیال یہ تھا کہ ایک "مسلمانوں کی قومی ریاست" کا قیام بجائے خود ایک جدید تصور ہے، جو اسلام کے مطلوبہ سیاسی ماڈل سے ہم آہنگ نہیں۔ ان کے نزدیک ایک "اسلامی ریاست" مطلوب ہے، جو اپنی فکری اور اخلاقی اساس میں اسلام کی نمائندہ ہو، نہ کہ صرف مسلمانوں کی نسلی یا جغرافیائی وحدت کی نمائندہ۔ اسی باعث انہوں نے ایک مدت تک تحریک پاکستان سے الگ تھلگ رہنے کا انتخاب کیا۔

یوں دیکھا جائے تو پاکستان کا تصور بذاتِ خود جدید سیاسی تصورات کے اثر میں ڈھلا ہوا تھا۔ تاہم اس تاریخی و فکری پس منظر سے قطع نظر، آج کا دن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بہرحال ایک خوش آئند دن ہے، جب مسلم ریاست نے خطے میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھایا۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس وقت ریاست کے اندرونی حالات اس درجے کے نہ تھے کہ وہ مکمل عسکری یا سیاسی حمایت سے آراستہ ہوتے۔ بین الاقوامی دباؤ شدید تھا، داخلی سطح پر قیادت میں کمزوریاں موجود تھیں اور بعد کے برسوں میں امریکہ نواز سیاسی و عسکری عناصر نے برسراقتدار آ کر کئی حوالوں سے قومی سلامتی کے ڈھانچے کو متزلزل کرنے کی کوشش کی۔ ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود، پاکستان کا ایٹمی طاقت بن جانا، اور پھر اس طاقت کا محفوظ رہنا، خود ایک غیبی تائید کی علامت ہے۔

اس پس منظر میں یہ واقعہ نہ صرف ایک قومی و عسکری کامیابی کی علامت ہے بلکہ ایک تہذیبی تسلسل کی نوید بھی ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ سیاسی و فکری میراث کے تسلسل میں یہ واقعہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس تناظر میں اسے محض "ریاستی طاقت" کے مظہر کے بجائے ایک بڑی عالمی ترتیب (global realignment) کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ امکان قوی ہے کہ مستقبل قریب میں عالم اسلام کو درپیش نئے چیلنجز اور نئے امکانات میں یہی خطہ (جنوبی ایشیاء) ایک بڑے اسلامی، فکری، اور تہذیبی افق کے آغاز کی سرزمین بنے۔ یومِ تکبیر اس تسلسل کا ابتدائی اشارہ، اور مسلم دنیا کے لیے ایک نئی توانائی کا پیغام بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہم اس طاقت کو صرف عسکری فخر کے بجائے فکری و تہذیبی شعور سے ہم آہنگ کر سکیں۔