ہوم << رباعی کا سفر: "عمر خیام" سے " زندہ" تک - محمد افراہیم بٹ

رباعی کا سفر: "عمر خیام" سے " زندہ" تک - محمد افراہیم بٹ

جب سے محمد نصیر "زندہ" صاحب سے تعارف ہوا ہے، میری فطری عادت یعنی غور و فکر اور مشاہدہ کو جیسے ایک تازہ ہوا سی ملی ہو۔ ان کے کلام کی فکری گہرائی اور شعری تاثیر نے ان چنگاریوں کو ہوا دی جو دل میں بہت پہلے سے سلگ رہی تھیں۔ یہ کسی بھی شاعر کے "زندہ" ہونے کی دلیل ہے کہ وہ قاری کے اندر روشنی کا ایک چراغ جلا دے۔

اسی تحریک کے زیرِ اثر میں نے فارسی کے عظیم شاعر عمر خیام کی رباعیات کا مطالعہ شروع کیا، جو عالمی شہرت کی حامل اور فارسی ادب کا ایک بے مثال خزانہ ہیں۔ جلد ہی اندازہ ہوا کہ خیام کی شاعری کی بنیاد، اس کا فکری پس منظر، اور اس کے زمانے کا ماحول یہ سب کچھ انتہائی گہرا اور قابلِ غور ہے۔

عمر خیام کی رباعیات کی بنیاد: دراصل رباعی چار مصرعوں پر مشتمل ایک مخصوص بحر کی حامل صنف ہے، جس میں خیام نے فلسفہ، شک، اور شعور کے امتزاج سے ایک نئی جہت دی۔ یوں عمر خیام کی رباعیات میں درج ذیل موضوعات نمایاں ہیں

زندگی کی ناپائیداری
وقت کی قدر
موت، فنا، اور اس کے بعد کی حقیقت
لمحہ موجود سے لطف اٹھانے کی تلقین
تقدیر، مذہبی جبر، اور رسومات پر سوالات

خیالات کی گہرائی: عمر خیام کی رباعیات میں صوفیانہ، فلسفیانہ، اور بعض اوقات دہریہ
(agnostic یا skeptic) طرزِ فکر جھلکتی ہے۔ وہ ظاہری مذہبیت (جدیدیت سے انحراف کی وجہ سے) پر تنقید کرتے ہوئے انسان کو ظاہری مذہب سے آگے بڑھ کر عقل، مشاہدہ، اور شعور کی دعوت دیتے ہیں۔

عمر خیام کا ماحول اور تاریخی دور: عمر خیام 11ویں صدی کے ایران (نیشاپور) میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ماہر ریاضی دان، فلکیات دان، اور فلسفی بھی تھے۔

سیاسی و فکری ماحول: سلجوقی دور میں علمی و فکری آزادی کی کچھ گنجائش تھی، لیکن مذہبی طبقہ سخت اثرورسوخ رکھتا تھا۔ خیام نے اکثر اپنے خیالات کو رمز اور استعارے میں بیان کیا تاکہ براہ راست ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔

علمی حلقے: وہ "نظام الملک" جیسے وزیروں سے وابستہ رہے، جنہوں نے علمی سرپرستی کی۔ خیام نے فلکیاتی کیلنڈر کی درستگی پر بھی کام کیا، جسے "جلالی تقویم" کہا جاتا ہے۔

عمر خیام کی رباعیات کے مشہور ہونے کی وجوہات

ادبی گہرائی:
ان کی رباعیات میں سادہ الفاظ کے اندر پوشیدہ گہرا فلسفہ پایا جاتا ہے۔

Edward FitzGerald
کا ترجمہ:
عمر خیام کی شہرت کا ایک بڑا سبب ان کی رباعیات کا انگریزی ترجمہ ہے جو 19ویں صدی میں ایڈورڈ فٹز جیرالڈ (Edward FitzGerald) نے کیا۔ اس نے مغرب میں خیام کو "Epicurean Mystic" کے طور پر متعارف کرایا۔

آفاقی پیغام:
خیام کی شاعری مذہب، فلسفہ، زندگی، موت، اور وقت جیسے آفاقی موضوعات پر مبنی ہے، جو ہر دور کے انسان کو مخاطب کرتی ہے۔

آج کا رباعی لکھنے والا کس طرف متوجہ ہوتا ہے؟
آج کے دور کا رباعی لکھنے والا درج ذیل سمتوں میں تخلیق کر رہا ہے:

روحانیت اور خود شناسی:
جدید رباعی میں انسان اپنی داخلی دنیا، خودی، اور روحانی تلاش پر روشنی ڈالتا ہے۔

سماجی شعور:
کرپشن، غربت، ماحولیات، انصاف، اور طبقاتی فرق جیسے موضوعات پر بھی رباعیات لکھی جا رہی ہیں۔ زندہ کی رعبایات میں آپ کو یہ رنگ نمایاں ملے گا۔

عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی:
خیام کے فلسفیانہ لہجے کے برعکس، آج کے بعض شعرا صوفی رنگ یا رومانوی جذبات سے رباعی کو نواز رہے ہیں۔

جدید علامتیں:
جدید رباعی میں موبائل، جنگ، جدید زندگی کی الجھنیں اور نفسیاتی الجھنوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
آج کا رباعی لکھنے والا کن سمتوں میں لکھ رہا ہے؟

روحانیت اور خود شناسی:
اندر کی دنیا، خودی، اور باطنی سفر پر مبنی اشعار

سماجی شعور:
کرپشن، غربت، ظلم، ماحولیات، زندگی کے بڑے سوالات

عشقِ حقیقی و مجازی:
صوفیانہ جذبہ یا عشق کی شدت ، دونوں انداز میں رباعی لکھی جا رہی ہے

4. جدید علامتیں:
ڈیجیٹل دور، نفسیاتی الجھنیں، جنگ، اکیلا پن ، نئے استعارے اور مسائل

"زندہ" صاحب کی رباعیات کا تاثر
اُن کی رباعیات میں یہ تمام رنگ جھلکتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی انسان اور فطرت کا گہرا ربط، اندر کی روشنی کی تلاش، اور اجتماعی شعور کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کلام پڑھنے والا شخص خود کو فطرت کے قریب تر محسوس کرے گا ۔ اور شاید اپنے آپ سے بھی۔

دوستوں کو دعوت ہے:
اگر آپ رباعی کے قاری ہیں، تو "زندہ" کی رباعیات ضرور پڑھیں۔ یہ ایک فکری، شعوری اور تخلیقی سفر کی دعوت ہے۔

رباعی 1

جو دار پہ چَڑھ جائیں اُتَر سکتے نہیں
لِکھے گا لَہُو حَرف مُکَر سکتے نہیں
آزادی کو لَو دیں گی ہماری آنکھیں
ہم سو بھی جائیں خواب مَر سکتے نہیں

رباعی 2

ملتا نہیں جینے کا بہانہ ہم کو
اے زورِستم نہ آزمانا ہم کو
ہم کل کی آنکھ میں بغاوت کا خواب
تعبیر میں روئے گا زمانہ ہم کو

رباعی 3

دم ساز ہے کون کوئی غم سے پوچھے ‎
دل چیز ہے کیا عشق صنم سے پوچھے
ہم قبلہ نما دینِ محبت کے امام
اسرارٍ محبت کوئی ہم سے پوچھے

رباعی 4

سوچوں کی ہَوا کو کُھلی آزادی دو
آزادی کے پاؤں کو بھی آزادی دو
یہ مَنزِلوں کے خواب کریں گے زَنجیر
رَستوں کو سوچنے کی آزادی دو

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد نصیر "زندہ" صاحب کو مزید گہرائی، وسعت، اور توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔