ترکی جانے سے پہلے جب میں ان مقامات کی فہرست بنانے بیٹھا جہاں کی سیر میرے نزدیک مقدم تھی تو اس فہرست میں خیرالدین باربروسہ سے ملاقات بھی شامل تھی ۔ باربروسہ ہمیشہ سے میرے ہیروز میں شامل رہا تھا ۔ مجھے یاد ہے بچپن میں جب میں نے اس کے بارے میں پہلی کتاب پڑھی تو میں غالباً ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ مجھے وہ بہت اچھا لگا۔ دل چاہا میں بھی اس کی طرح بحری قزاق بن جاؤں ۔ مجھے جتنی کتب اس کے بارے میں مل سکیں ۔ حاصل کر کے پڑھ ڈالیں ۔ سکول کی لائبریری چھان ماری یہاں تک کہ لائبرییرین تنگ آگئی ۔ مجھے دیکھتے ہی کہہ دیتی کہ اب لائبریری میں باربروسہ سے متعلقہ کوئی اور کتاب موجود نہیں ہے ۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ میری باربروسہ میں دلچسپی بڑھتی گئی اس کی پراسرار شخصیت میں بہت رغبت محسوس ہونے لگی ۔ باربروسہ سے پکی دوستی ہوگئی -میرے لئے اس کا طرز زندگی بہت کشش کا باعث تھا ۔ بڑے بھائی کو بھی شائد وہ اچھا لگتا تھا اس لئے قزاقوں جیساکاسٹیوم پہن کر ایک آنکھ پر پٹی باندھ کر تلوار ہاتھ میں تھامے تلوار بازی کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ بن گیا تھا۔ اس کی محبت میں ایک طوطا بھی پال لیا تھا اور اس طوطے کو کندھے پر بٹھا کر گھومنا اچھا لگنے لگا تھا۔
جب بھی سکول یا گھر والوں کی طرف سے سختی کا کوئی وقت آتا تو مجھے باربروسہ بہت یاد آتا ۔ دل چاہتا اگر وہ کہیں مل جائے تو جب کچھ چھوڑچھاڑ کر اس کے ساتھ بحری جہاز پر سمندر کے سفر کو نکل جاؤں ۔شائد اس طرح سکول کی پابندیوں سے جان چھوٹ جائے ۔ میں کئی بار راتوں کو خواب میں باربروسہ کا ہم سفر رہا تھا۔ اس کی لوٹ مار اور قتل و غارت میں شریک رہاتھا۔ وہ مجھے ایک طلسماتی اور دیومالائی شخصیت لگتاتھا ۔ ایک مافوق الفطرت طاقت کا حامل انسان جو دنیا کا کوئی بھی کام کرسکتا تھا۔ اس وقت مجھے صرف اتنا معلوم تھا۔ کہ وہ ایک بحری قزاق ہے اور ساری دنیا خاص طور پر گورے اس سے بہت خوف کھاتے ہیں ۔ ان کے ڈراموں فلموں کتابوں کارٹون سیریلز میں اس کا اتنا ذکر تھا کہ لگتاتھا جیسے وہ ان کے حواس پر سوار ہے ۔ لیکن جوں جوں وقت گذرا میری علمی قابلیت بڑھی ۔ شعور میں پختگی آئی ، مطالعہ وسیع ہوا باربروسہ کی پراسرار شخصیت کے پرت کھلے اس کے بارے میں زیادہ جاننے کا موقعہ ملا تو مجھے احساس ہوا کہ باربروسہ تو اسلام کا بہت بڑا خادم تھا۔ وہ بہت اچھا مسلمان تھا ۔ وہ تھا تو انسان ہی لیکن غیر معمولی ذہانت ، بے مثال حوصلے ، بہت مضبوط ایمان ، اور بہترین بحری جنگی صلاحیتوں کا مالک تھا -
وہ کئی دہائیوں تک اہل یورپ کے مذموم ارادوں اور پیش قدمیوں کے سامنے چٹان بنا کھڑا رہا ۔ وہ جب تک زندہ رہا دنیا کے سمندروں پر حکومت کرتا رہا اس کی اجازت کے بغیر بحیرہ روم ، بحیرہ ایجئین اور بحیرہ احمر میں کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی ۔ لوگ اسے سمندر کا شہنشاہ کہتے تھے ۔ سپین اور اندلس کے بے بس اور مظلوم مسلمانوں کے لئے وہ امید اور رحمت کی نوید تھا۔ لیکن اس کا نام اہل یورپ کے لئے خوف اور دہشت کی علامت تھی اور اسی لئے وہ اس سے اتنی نفرت بھی کرتے تھے۔ تاریخ میں شائد ہی کسی اور مسلم شخصیت کے خلاف اتنا بڑا اور منظم پروپیگنڈا کیا گیا ہو جتنا باربروسہ کے خلاف کیا گیا ہے ۔ اور نہ ہی شائد کسی اور اسلامی شخصیت کو کبھی اتنے بڑے پیمانے پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ ہمیشہ اسے بحری قزاق کہنا اور اسے اس کے مخصوص نیم برہنہ لباس میں دکھانا کہ سر پر رومال بندھا ہے اور ایک آنکھ پر پٹی ۔ اور کندھے پر طوطا بیٹھا ہے اس سے بڑی زیادتی اس عظیم شخصیت کے ساتھ کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔
جب میں استنبول میں مشہور اور سیاحوں میں مقبول جگہوں کی فہرست بنا رہا تھا ۔ تو باربروسہ کے مقبرے کا نام سر فہرست تھا ۔ لیکن استنبول پہنچ کر اس کی رنگینیاں کچھ اس طرح غالب آئیں کہ باربروسہ یاد ہی نہ رہا ۔ مگر کل ٹوپ کاپی محل کے لائبریری سکشن میں جب ہم نادر اور نایاب قرآن شریفوں کو دیکھنے کے بعد اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں عثمانی ترکوں سے وابستہ کتب رکھی تھیں تو سلطان سلیم اوّل اور سلطان محمد فاتح کے لکھے دیوانوں کے ساتھ والے شوکیس میں ایک سبز رنگ کی کتاب نظر آئی ۔ غیر ارادی طور پر توجہ اس کتاب کی طرف مبذول ہو گئی غور سے پڑھنے پر احساس ہوا کہ یہ تو باربروسہ کی خود نوشت ہے ۔ خیرالدین باربروسہ کی آپ بیتی جو اس نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی کے آخری دنوں میں لکھی تھی ۔ مجھے علم نہیں تھا کہ باربروسہ نے کوئی خود گزشت بھی لکھی ہے ۔ میرے قدم وہیں جم سے گئے مارےجوش کے میرا دم سا رکنے لگا ۔ میں نے آواز لگا کر حمزہ کو بھی بلا لیا اور اسے بھی فخر سے وہ کتاب دکھائی۔ مجھے لگا جیسے یہ کتاب میں نے خود لکھی ہے یہ میری آپ بیتی ہے۔ یہ کتاب فارسی میں ہے اور اس کانام غزوات خیرالدین پاشا (Conquests of Hayreddin Pasha) ہے۔ یہ کتاب اس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۵۴۵ء کو استنبول میں لکھی ۔ یہ فارسی میں لکھی گئی تھی ۔ پروفیسر احمد شمشیر گل Ahmet Şimşirgil نے ترکی زبان میں اس کا ترجمہ ”کپتان کی لاگ بک“ کے نام سے کیا ہے ۔ ارطغرل ڈزڈاگ M.Ertuğrul Düzdağ نے اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا ہے ۔ جس کا نام The Mediterranean was Ours) ”کبھی بحیرہ روم ہمارا تھا“ ہے۔ اس کتاب کے ساتھ ہی باربروسہ کا پرچم رکھا تھا۔
میں نے کبھی اتنا شاندار اور دلچسپ پرچم نہیں دیکھا ۔ یہ پرچم اس کی رسول اکرم صلعم سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ سبز رنگ کے اس پرچم میں سب سے اوپر “نَصرٌ مِنَ اللَّـهِ وَفَتحٌ قَريبٌ وَبَشِّرِ المُؤمِنينَ يَا مُحَمَّد" لکھا ہے ۔ اس عبارت کے نیچے چاروں کونوں پر چار ہلال ہیں جن میں پہلے چاروں خلفاء راشدین کے نام لکھے ہیں ۔ ان کے درمیان دو منہ والی ذُو ٱلْفَقَار تلوار بنی ہے جس کے دستے کے ساتھ ایک ہاتھ کا نشان ہے ۔ ترمذی نے حضرت عباس رضی تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ تلوار رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم کو غزوہ بدر میں بطور مال غنیمت ملی تھی، اور جب جنگ احد میں لڑتے ہوئے حضرت علی کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلعم نے یہ تلوار حضرت علی بن ابی طالب کو عنایت کی اور اسی تلوار سے حضرت علی نے بیشتر مشرکین کو شکست دی۔ ذُو ٱلْفَقَار کے نیچے چھ کونوں والا ستارہ ہے ۔ جو حضرت سلیمان کی مہر کو ظاہر کرتا ہے ۔
باربروسہ کی خودنوشت والے شوکیس سے اگلے شوکیس میں مشہور زمانہ ترک امیر بحررئیس پیری کی کتاب ” کتاب بحریہ “ Kitab-ı Bahria (Book of Navigation) رکھی تھی ۔ رئیس پیری ۱۵۱۳ ء اور ۱۵۳۴ء کے درمیان عثمانی امیرالبحر رہا اور اس نے یہ کتاب ۱۵۲۱ء میں لکھی تھی۔ جس میں پہلی بار دنیا کے سمندروں کے نقشے اور سمندری رستوں کی تفصیل بیان کی گئی تھی اور کئی صدیوں تک اس کی یہ کتاب سمندر میں سفر کرنے والوں کے لئے مشعل راہ رہی ۔ ٹوپ کاپی میوزیم کی یاترا نے دل میں باربروسہ کے دیار کی جوت ایک بار پھر جلا دی ۔ وہاں سے واپس آکرمیں نے تحقیق شروع کی کہ باربروسہ سے کہاں ملاقات ہوسکتی ہے۔
پتہ چلا کہ وہ زیادہ دور نہیں ۔ اس کا مقبر ہ اگلے ہی محلےبیشکتاش Beşiktaş میں نیول میوزیم کے سامنے باربروسہ پارک میں واقع ہے ۔
دوسرے دن ہم علی الصبح ہی بیشکتاش پہنچ گئے ۔ بیشکتاش میں کشتیوں کی گھاٹ ( فئیری پورٹ )کے سامنے ہی استنبول کا بحری میوزیم ہے جس کے بابروسہ گراؤنڈ میں ایک اونچی ہشت پہلو عمارت میں وہ شخص ہمیشہ کی نیند سو رہاہے جو جب تک زندہ رہا اس نے اہل یورپ کی نیندیں حرام کئے رکھیں. باربروسہ کا مقبرہ معمار سنان نے بڑی محبت سے تعمیر کیا تھا ۔ اس مقبرے کے سامنے باربروسہ کا ایک بہت بڑا کانسی سے بنایا گیا مجسمہ نصب ہے۔ جس میں باربروسہ اپنے دو ملاحوں کے ساتھ ایک بحری جہاز پر کھڑا دکھایا گیا۔ یہ مجسمہ ۱۹۴۴ء میں بنایا گیا تھا۔ اس مقبرے کے اردگرد ایک چھوٹا سا قبرستان بھی ہے جس میں باربروسہ کے ساتھی دفن ہیں. مقبرے کے دائیں جانب اس کا نائب اور مشہور ملاح مرادی رئیس سنان دفن ہے ۔جو نسلاً یہودی تھا اور اندلس کا رہنے والا تھا۔ مقبرہ سارا سال بند رہتا ہے سال میں صرف دو مرتبہ یکم جولائی اور چار اپریل کو عوام کے لئے کھولا جاتا ہے۔
یکم جولائی کو ترک کبو و تاژ میلہ Cabotage Festival مناتے ہیں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے ۔ کیونکہ اس دن ترکی نے ۱۹۲۶ء میں معاہدہ لوزان کے تحت اپنے دریاؤں سمندروں اور بندرگاہوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کیا تھا جو پہلی جنگ عظیم کے بعد ان سے چھن گیا تھا۔ اور ۴ اپریل کو نیوی کے شہداء کا دن منایا جاتاہے۔ یہاں سے بیشکتاش کی مشہور سٹریٹ بارباوس بلیو وارڈ Barbaros Boulevard کا آغاز ہوتا ہے ۔جو تقریباً تین کلومیٹر لمبی ہے ۔ مقبرے کے باہر کئی خوانچہ فروش باربروسہ کے پرچم کی تصاویر والے لاکٹ ،انگوٹھیاں اور ٹی شرٹس بیچ رہے تھے ۔ ہم اندر تو نہ جاسکے لیکن میں نے کھلی کھڑکی سے اندر جھانک کر دیکھا جہاں ایک بڑے کمرے کے وسط میں باربروسہ اپنے دونوں بیٹوں کے درمیان محو خواب تھا۔ اس کی قبر پر اس کا مشہور زمانہ سبز پرچم بچھا ہوا تھا۔ میں دونوں ہاتھوں سے کھلی کھڑکی کی سلاخیں پکڑکر اپنے بچپن کے ہیرو کو دیکھتا رہا ۔ میں نے کئی بار فاتحہ پڑھی ۔ میری چشم تصور میں سرخ داڑھی والا بارعب چہرہ گھوم رہاتھا جس نے ربع صدی تک ایل یورپ کو ناکوں چنے چبوائے رکھے۔ جس نے ترکوں کی کمزور بحری قوت کو ناقابل شکست بنا دیا تھا۔
باربروسہ کا اصل نام خضر تھا۔ وہ ۱۴۷۸ء کو بحیرہ ایجئین میں ترکی کے ایک جزیرے میڈلی میں پیدا ہوا ۔ میڈلی کا موجودہ نام لسبوس Lesbos ہے اور یہ آجکل یونان میں شامل ہے ۔ اس کا والد یعقوب آغا ایک ریٹارئرڈ ینی چری سپاہی تھا۔ جس نے ۱۴۶۲ء میں میڈلی کی فتح میں اہم کردار کیا تھا۔ انعام کے طور پر سلطان محمد فاتح نے اسے میڈلی میں ایک جاگیر عطا کی ۔یعقوب آغا نے ایک یونانی عورت کیترینہ سے شادی کی جو ایک آرتھوڈوکس پادری کی بیوہ تھی ۔ اس کے چار بیٹے اور دو بٹیاں تھیں۔ بھائیوں میں خضر کا دوسرا نمبر تھا۔ یعقوب آغا ایک ماہر برتن ساز بھی تھا ۔ اس نے زمینداری کے ساتھ ساتھ برتن بنا کر اردگرد کے جزیروں میں بیچنے شروع کردئیے ۔ کام چل نکلا اور اس مقصد کے لئےاس نے کئی کشتیاں بھی خرید لیں ۔ اس کے چاروں بیٹے اس کام میں اس کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔ جو اس کے بنائے برتنوں کو کشتیوں پر لاد کر اردگرد کے جزیروں میں بیچتے تھے ۔ اور یوں یعقوب کے چاروں بیٹے سمندر کی لہروں پر پل کر جوان ہوئے اور بہت ماہر اور شاندار ملاح بن کر ابھرے ۔
سب سے بڑے بیٹے کا نام عروج تھا ۔ عروج انتہائی بہادر ذہین ، قابل اور دور اندیش تھا۔ وہ کئی زبانوں کا ماہر تھا۔ ایک دفعہ جب عروج اپنے چھوٹے بھائی الیاس کے ساتھ اپنے برتنوں کے کاروبار کے سلسلے میں لبنان کے شہر طرابلس Tripoli سے واپس آرہا تھا تو ٹمپلرز ۔ صلیبی نائیٹس (Knights Hospitaller)
نے حملہ کرکے ان سے ان کے والد کی کشتی چھین لی ۔ الیاس کو قتل کر دیا اور عروج زخمی ہوا ۔ ٹمپلرز نے عروج کو غلام بنا کر بودرومBodrum کے قلعے میں قید کر دیا۔ خضر کو پتا چلا تو اس نے بڑے بھائی کی مدد کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ ایک سال تک قلعے میں قید رکھنے کے بعد صلیبی نایٹیس نے اس کو رہوڈوس Rhodes کے ایک جہاز پر غلام کی حثیت سے جہاز رانی پر مامور کر دیا۔ ایک رات عروج موقعہ پا کر وہاں سے بھاگ نکلا اور لسبوس پہنچ گیا۔ باپ نے اسے دوبارہ برتنوں کے کاروبار کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی لیکن اب اس کا دل اس خاندانی کاروبار سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ اور اس کا دل صلیبیوں کے خلاف نفرت کی آگ میں جل رہا تھا۔ اس نے ان سے انتقام لینے کی ٹھان لی تھی ۔ خضر نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور یوں ان دونوں بھائیوں نے اپنی چھوٹی سی کشتی سے بحیرہ ایجئین سے گذرنے والی صلیبی جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جلد ہی وہ ٹمپلرز سے ایک جنگی جہاز چھنینے میں کامیاب ہوگئے اور یوں ان کا دائرہ کار بھی وسیع ہو کر بحیرہ روم تک پھیل گیا۔
اور پھر وہ وقت آن پہنچا جب ان کا نام بحیرہ روم سے گذرنے والوں کے لئے بھیانک خواب بن گیا۔ وہ درجنوں جنگی جہازوں کے مالک بن گئے جو انہوں نے صلیبیوں سے چھینے تھے ۔ ان کی طاقت اتنی بڑھ گئی تھی کہ اب انہوں نے بحیرہ روم کے کناروں پر آباد صلیبی جزیروں اوربستیوں پر بھی حملے شروع کر دئیے۔ بحیرہ روم اور بحیرہ ایجئین کے کناروں پر واقع کوئی علاقہ ان کی دستبرد سے محفوظ نہیں تھا۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی ظاہر ہوتے اور لوٹ مار کر کے غائب ہوجاتے۔ سپین ، مالٹا، رہوڈوس ، اٹلی اور فرانس کے حکمرانوں نے انہیں روکنے اور گرفتار کرنے کی کئی بار کوشش کی ۔ لیکن انہیں ہر بار منہ کی کھانی پڑی ۔ مسلمان ہمیشہ سے ہی زمینی جنگ کے شیر اور بحری میدان میں کمزور رہے تھے ۔ اور عیسائیوں کی بحری قوت ہمیشہ سے ہی بہتر تکنیکی اور فنی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ناقابل شکست تھی۔ صرف حضرت امیر معاویہ کے دور میں اس کمزوری پر قابو پانے کی کوشش کی گئی ۔ انہوں نے ایک مضبوط بحری بیڑا ترتیب دیا جس کی بدولت اسی دور میں مسلمانوں نے بحیرہ روم میں واقع سسلی ، رہوڈوس اور مالٹا کے جزیروں کو فتح کیا ۔ اور کسی حد تک بحیرہ روم میں صلیبیوں کی طاقت کا زور توڑ کر ان کی بالادستی ختم کر دی ۔ اس کے بعد بھی اموی دور میں یہ برتری کسی حد تک قائم رہی ۔ ۷۱۱ء میں خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور حکومت میں طارق بن زیاد نے آبنائے جبل الطارق Straight of Gibraltar کو عبور کر کے سپین پر حملہ کیا اور وہاں اسلامی حکومت قائم کی ۔ عباسیوں نے بحری فوج کی طرف کچھ خاص توجہ نہ دی اور نہ ہی سلجوق اس طرف آئے ۔ یوں مسلمان ایک بار پھر بحری میدان میں پیچھے رہ گئے ۔ اور رفتہ رفتہ بہتر ٹیکنالوجی اور فنی مہارت کی بناء پر بحیرہ روم ایک بار پھر عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا ۔عثمانیوں کا دور آیا تو ان کی زیادہ توجہ بھی زمینی فتوحات کی طرف ہی رہی ۔ جس میں وہ بے مثال اور ناقابل شکست تھے۔
سلطان فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے بحری میدان کی طرف توجہ ضرور دی اور مضبوط بحری بیڑا بھی بنایا لیکن بحری میدان میں ہمیشہ کی طرح اب بھی وہ عیسائیوں سے بہت پیچھے تھے ۔ چودھویں صدی یوں ہی گذر گئی ۔ پندرہویں صدی کے آغاز میں عثمانی جہاں زمینی میدان میں تقریباً سارا یورپ فتح کرتے ہوئے فرانس کے دروازے پر دستک دے رہے تھے وہیں سارا بحیرہ روم ، اس میں واقع جزیرے اور اس کے اردگرد کے ساحلی علاقے عیسائیوں کے قبضے میں جا چکے تھے ۔ مالٹا ، رہوڈوس اور سسلی سے مسلمانوں کو انتہائی بے دردی سے قتل و عام کے بعد نکالا جا چکا تھا ۔ سپین کے مسلمان غرناطہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترکی پر سلطان فاتح کے بیٹے بایزید دوئم کی حکومت تھی جو نسبتاً کمزور حکمران تھا اس میں اپنے باپ جیسی کوئی خوبی موجود نہ تھی ۔ رہوڈوس ، مالٹا ، بحیرہ روم اور بحیرہ ایجئین کے اکثر ساحلی علاقے اور ان سمندروں میں واقع چھوٹے چھوٹے جزیروں پر ٹمپلرز کا قبضہ تھا۔
سپین پر عیسائی پوری طرح قابض ہو چکے تھے ۔ سپین کے بادشاہ چارلس خامس ( کارلوس پنجم ) Charles V کو مقدس رومی بادشاہ کا درجہ حاصل تھا اور اس کی حکومت تقریباً پورے یورپ پر پھیلی ہوئی تھی جس میں اٹلی ، جرمنی ، سپین ہالینڈ ، فرانس ، سسلی ، اور سارڈنیا کے ممالک شامل تھے۔ الجزائر ، مراکش، تیونس اور لبیا اور دیگر مغربی افریقہ کے ممالک بھی یا تو سپین کے قبضے میں تھے یا پھر اس کی باجگزار ریاستوں میں کی حثیت سے زندہ تھے ۔ شہنشاہ چارلس پنجم اس وقت دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کا مالک تھا لیکن بحیرہ روم میں ان دو بھائیوں نے چارلس پنجم کی طاقت کو کھلم کھلا للکار رکھاتھا۔ ٹمپلرز اور چارلس پنجم اور سارایورپ مل کر بھی ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے میں ناکام تھے۔ وہاں سے گذرنے والا ہر جہاز اور سمندری قافلہ ان کی پہنچ میں تھا۔
دونوں بھائیوں نے بحیرہ روم کو تقسیم کر رکھا تھا۔ خضر رئیس بحیرہ ایجئین ، شام ، لبنان اور مصر کے ساحلی علاقوں پر حملہ آور ہوتا تھا۔ جبکہ عروج رئیس کا اثرورسوخ اور دائرہ کار بحیرہ روم کے بالائی ساحلی علاقوں (سپین ۔ اٹلی اور فرانس )اورمغربی افریقہ کے ممالک الجزائر اور مراکش کے علاقوں میں زیادہ تھا۔ بحیرہ روم تاریخی ، جغرافیائی ، جنگی اور تجارتی لحاظ سے دنیا کااہم ترین سمندر ہے ۔ یہ تین براعظموں کے درمیان واقع ہے ۔ بحیرہ روم ایشیاء میں لبنان اور فلسطین سے شروع ہو کر یورپ اور مغربی افریقہ کے ساحلوں تک پھیلا ہوا ہے ۔ جہاں یہ ایک تنگ آبنائے جبرالٹر کے ذریعے بحر اوقیانوس سے جا ملتا ہے۔ ۱۴۹۷ء میں جب واسکوڈے گاما نے پہلی مرتبہ ہندوستان کا سفر کیا وہ افریقہ کے گرد گھوم کر راس امید Cape of good Hope کے ذریعے ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ پہنچا اسے اس سفر میں ایک عرب ملاح احمد بن ماجد کی مدد حاصل تھی جس نے اسے یہ رستہ بتایا تھا۔ اس سمندری رستے کی دریافت کے بعد یورپ اور ہندوستان کے درمیان تجارت شروع ہوئی تو بحیرہ روم اہل یورپ کے لئےاور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا اور انہوں نے اس سمندری رستے کو محفوظ رکھنے اور اس پر کنٹرول کرنے کے لئے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں ۔یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں کہ واسکوڈےگاما خود ایک بہت بڑا بحری قزاق تھا اور تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ اس نے اپنے دوسرے سفر ہندوستان کے دوران کم از کم پندرہ بحری جہازوں کو لوٹا اس نے ایک مسلم بحری جہاز پر قبضہ کیا جس پر مغربی افریقہ کے چار سو حاجی سوار تھے جن میں پچاس خواتین بھی تھیں اس نے بڑی سفاکی سے ان حاجیوں کو غلام بنانے کے بعد جہاز کو آگ لگا دی ۔ اپنے اس سفر کے دوران کالی کٹ سے واپس جاتے وقت وہ کئی ہندوستانی سپاہیوں اور سولہ ماہی گیروں کو اغواء کر کے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔لیکن اس کے ان گھناؤنے کارناموں کے باوجود مغربی تاریخ نگا ر اسے کبھی بحری قزاق نہیں لکھتے بلکہ اسے ایک بہت بڑے مہم جو ، ایکسپلورر اور یورپ کے عظیم محسن کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ جبکہ بابروسہ برادران کے نام کے ساتھ ہمیشہ قزاق اور پارئیٹ Pirate لکھتے ہیں ۔
آبنائے جبرالٹر ایک بہت تنگ سمندری نہر ہے جو بحیرہ روم Mediterranean Sea کو بحر اوقیانوس Atlantic Ocean سے ملاتی ہے ۔ عربی میں اسے مضيق جبل طارق کہتے ہیں اور یہ وہ واحد سمندری رستہ ہے جو یورپ کو ایشیاء سے ملاتا ہے۔ یہ یورپ اور افریقہ کو جدا کرتی ہے ۔ اس کے مشرق میں یورپ کا وہ انتہائی جنوب مغربی پہاڑی علاقہ ہے جو جزیرہ نما آئبیریا Iberian Peninsula کہلاتا ہے ۔ اس میں سپین ، پرتگال اور فرانس کا کچھ حصہ شامل ہے جبکہ آبنائے جبرالٹر کے مغربی کنارے پر مراکش واقع ہے۔ یہ تقریباً تیرہ کلو میٹر لمبی اور دو کلومیٹرسے چار کلومیٹر چوڑی ہے ۔ ۷۱۱ء میں طارق بن زیاد چند ہزار سپاہیوں کے ساتھ اسے عبور کر کے اندلس کے ساحل پر اترا جو وقت کے ساتھ جبل الطارق کے نام سے مشہور ہوا اور پھر بگڑ کرجبرالٹر بن گیا۔ اور اس آبنائے کا نام آبنائے جبرالٹر پڑ گیا۔ طارق بن زیاد نے یہاں جو اسلامی سلطنت قائم کی وہ بعد میں خلافت اندلسیہ کہلائی ۔ اور صدیوں تک یورپ کی متمدن ترین اور ترقی یافتہ ترین سلطنت رہی جس نے معاشی معاشرتی ، طب ، سائنس اور علم غرض ہر میدان میں دنیا کی قیادت کی ۔ یہ سلطنت سات سو سال تک قائم رہی اور علم وفن اور تہذیب و تمدن کے میدان میں اہل یورپ کی راہنمائی کرتی رہی ۔ لیکن تیرھویں صدی کے آغاز میں اس پر زوال آنا شروع ہوا اور ۱۴۵۰ء تک یہ عظیم الشان سلطنت سمٹ کر صرف ایک چھوٹی سی ریاست غرناطہ تک محدود ہو کر رہ گئی ۔
فروری ۱۴۸۹ء میں قشتالہ اور ارغون کے حکمران ملکہ ازابیلا اور فرڈینینڈ نے اندلس کے مسلمانوں کی اس آخری پناہ گاہ غرناطہ کا بھی محاصرہ کرلیا۔ ۲جنوری ۱۴۹۲ء کو تین سال کے محاصرے کے بعد غرناطہ کے اکیسویں اور آخری حکمران ابو عبداللّہ کے حوصلے جواب دے گئے ۔ اس نے ازابیلا اور فرڈینینڈ سے ایک معاہدے کے بعد ہتھیار ڈال دئیے۔ جس کے تحت ابوعبداللّہ کو اندلس کے مغربی ساحل کے قریب الپوجارا میں ایک چھوٹی سی جاگیر دی گئی اور اس کے عوض اس نے غرناطہ عیسائیوں کے سپرد کر دیا۔ ۷۱۱ء سے ۱۴۹۲ء تک طارق بن زیادسے ابو عبداللّہ محمد تک، جبل الطارق ( جبرالڑ) سے غرناطہ تک ، اور جلتی کشتیوں سے الحمرا کی کنجیوں تک، عروج و زوال کی ایسی داستان شائد چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو. ایک مغربی مورخ نے لکھا ”بربر مراکو سے آئے تھے مراکو واپس چلے گئے ،سپین عیسائیوں کا تھا عیسائیوں کا رہا.“ لیکن کیا بات صرف اتنی ہی تھی ؟ تاریخ میں اتنی بڑی ڈنڈی مارنے والوں سے کوئی پوچھے کہ تہذیب و تمدن کے وہ آٹھ سو سال کیا ہوئے جنہوں نے اہل یورپ کو جینا سکھایا؟ علم ونور کے وہ چراغ کہاں گئےجنہوں نے جہالت میں ڈوبے یورپ کی تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیا؟ ظلم وجبر کی وہ دل خراش داستان کہاں گئی جس نے صدیوں تک اندلس میں رہنے والے اہل اندلس سے ان کا مذہب ان کا وطن اور یہاں تک کہ عزت سے جینے کا حق بھی چھین لیا . ابو عبداللّہ محمد الحمرا کی چابیاں ملکہ ازابیلا کے سپرد کر کے روانہ ہوا اور ایک اونچے ٹیلے پر پہنچ کر مڑا اور سر سبز وادی میں کھڑے اس سرخ محل (الحمرا)کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا جو اندلس میں مسلم اقتدارکی آخری علامت تھا اس نے ایک آہ بھری اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا ۔
واشنگٹن ارونگ مشہور امریکی تاریخ دان ہے اس نے اپنی کتاب عبداللّہ گریناڈا کا آخری سلطان میں لکھا ہے۔
Irving's Tales of the Alhambra (1832). "Way to the exile, Boabdil did not dare to turn the glance towards Granada, and when it was to much distance, on the well-known hill by the Sigh of the Moor he stopped and observing for the last time his palace... he only sighed and then he cried like a child .”
وہ مقام جہاں سے اس نے مڑ کر اپنی سلطنت پر آخری نگاہ ڈالی تھی آج تاریخ میں Suspiro Del Moro کہلاتی ہے جس کا مطلب ہے مور کی آہ ( Moor’s Sigh)، سپینش میں بربر کو مور کہتےہیں، اور سپین میں ہر مسلمان کو بربر سمجھا جاتا تھا . Suspiro Del Moro سپین میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے مزاروں کا تماشہ دیکھنے کے لئے آنے والے سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہے۔ خاص طور پر عیسائی زائرین اس مقام کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ ابوعبداللّہ کی ماں عائشہ جو اس کے ہمراہ تھی، اس نے اسے یوں آنسو بہاتے دیکھا تو اس نے وہ الفاظ کہے جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئے: ابك اليوم بكاء النساء على ملك لم تحفظه حفظ الرجال ”اگر تم مردوں کی طرح اپنی سلطنت کی حفاظت نہیں کرسکے تو اب عورتوں کی طرح رو کر اس کا ماتم بھی مت کرو.“
چند مہینے الپوجارا کے ساحلی علاقے میں گزارنے کے بعد ہی اسے وہاں سے بھی نکال دیا گیا ۔ آخر اکتوبر ۱۴۹۳ء میں وہ ہزاروں افراد کے ساتھ مراکو روانہ ہوگیا جہاں مراکو کے الوطاسيون (مرین) سلطان محمد الوطاسیوی نے اس کا وظیفہ مقرر کر دیا - فاس میں اسے گذر اوقات کے لئے ایک جاگیردے دی ۔ وہ جب تک زندہ رہا روز صبح سے شام تک فاس سے باہر ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھا رہتا اور اندلس کی سمت دیکھتا رہتا، اس امید کے ساتھ کہ شائد اہل اندلس کا بلاوہ آ جائے. مراکش اور اندلس کے ساحل کے درمیان صرف چند میل چوڑی خلیج جبرالٹر حائل تھی. کبھی اسی خلیج کو پار کرکے اس کے آباؤاجداد اندلس کے ساحلوں پر اترے تھے اور اپنی کشتیاں جلا کر اپنی واپسی کے سارے راستے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دئیے تھے اور پھر فتح ان کا مقدر بن گئی وہ سارے اندلس کے مالک بن گئے . اور عبداللّہ وہ بدبخت تھا جواپنےہاتھوں سے اپنے آباؤاجداد کی یہ میراث عیسائیوں کے حوالے کر کے آیا تھا۔آج اس کی آنکھوں میں آنسو تو تھے لیکن اس کا سینہ اس آگ سے خالی تھا جو اس کے آباؤاجداد کے سینوں میں بھڑکتی تھی . اس کی آ ہوں اور سسکیوں میں وہ تڑپ نہیں تھی جو کبھی اس کے آباء کا خاصہ تھی . اس کا جسم جوش کردار کی اس حرارت سے یکسر عاری تھا جو تقدیر اور وقت کے دھارے بدلنے کی طاقت رکھتا ہے . اس کی ماں نے اس کے بارے میں سچ کہا تھا . وہ اپنی باقی ساری عمر عورتوں کی طرح آنسو بہاتا رہا ۔ وہ چالیس سال تک اندلس کی طرف سے آنے والے بلاوے کا منتظر رہا لیکن خود کبھی مردوں کی طرح اس خلیج کو پار کر کے اندلس میں رہ جانے والے ان بے بس ظلم و جبر کی چکی میں پستےہوئے مسلمانوں کی مدد کو نہ پہنچ سکا جواس کی آمد کے منتظر تھے۔
جب ۱۵۳۳ء میں جب وہ مرا تو اس کی وصیت کے مطابق اسے اسی ٹیلے پر دفن کیا گیا ، جس پر بیٹھ کر وہ اندلس سے آنے والوں کا انتظار کیا کرتا تھا . آج بھی فاس کے گلی کوچوں میں ایسے افرادموجود ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غرناطہ کے آخری فرمانروا کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں . 1931 ء میں سپینش اخبار اسٹامپا Estampa نے ایک نانبائی کی تصویر شائع کی جو ابوعبداللّہ محمد کی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ ابو عبداللّہ کے ساتھ جانے والے دوسرے افراد نے بھی اسی کی طرح اپنی ساری عمر یں اندلس سے آنے والے بلاوے کے انتظار میں گذار دیں ۔ ان کی اکثریت عرب نژاد تھی ۔ انہوں نے مراکش کے اندر جا کر بربر لوگوں میں گھلنے ملنے کی بجائے مراکو کے ساحلی علاقوں میں آباد ہونے کو فوقیت دی ۔ مراکش کے سلطان کی اجازت سے انہوں نے ساحل پر کئی نئی بستیاں آباد کیں ۔ انہی آبادیوں میں دو شہر تطوان Tetouan اور شفشاون تھے۔ تطوان Tetouan میں اندلس سے تعلق رکھنے والے عرب نژاد المنذری قبیلے کے لوگ آباد ہوئے جبکہ الراشد قبیلے کے لوگوں نے شفشاون کے نام سے ایک نیا شہر بسایا ۔ ابو عبداللّہ کے ساتھ جانے والوں پر جو گزری وہ بہت کم ہے . اصل قیامت تو ان پر گزری جو پیچھے رہ گئے تھے ۔ ان کی زندگیاں اجیرن کر دی گئیں انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا ان کے کاروبار چھن گئے ان کے مکانات ان کے لئے ممنوع ٹھہرے
جبراً مذہب تبدیل کر کے انہیں عیسائی بننے پر مجبور کیا گیا . زبردستی ان کے نام تبدیل کر دئیے گئے وہ اپنے ہی ملک میں اچھوت بن کر رہ گئے اور جنہوں نے انکار کیا وہ زند ہ جلا دئیے گئے. مساجد ہمیشہ کے لئے چرچ میں بدل دی گئیں. تعلیمی ادارے اصطبل بنے . ہر وہ کتاب جلا کر راکھ بنا دی گئی جو عربی میں لکھی ہوئی تھی
کتب خانے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوئے. انسانی تاریخ نے ظلم وستم کی ایسی داستان شائد پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی . مولدین یا الموریسکیون کیسٹلین زبان کا لفظ ہے جو ان مسلمانوں کیلئے استعمال ہوا جو مسلم حکومت کے زوال کے بعد بھی اندلس میں آباد رہے ۔ انہوں نے بظاھر تو عیسائی مذھب قبول کرلیا لیکن مخفی طور وہ مسلمان ہی رہے ، ان لوگوں کیلئے موریسکی کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
۱۵۰۲ء میں ایک حکومتی فرمان کے مطابق ان کی بپتسمہ (عیسائی مذھب میں داخل ہونے کی مخصوص رسم ) کی رسم ادا کی گئی جو کہ حمراء کے معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی تھی ۔ لیکن جن لوگوں نے اس رسم کو ادا کرنے سے انکار کیا انہیں جبراً اندلس سے بے دخل کر دیا گیا ۔ انہیں زبردستی آبنائے جبرالڑ میں دھکیل دیا گیا۔ انہی دنوں عروج نے سپین سے بے دخل کئے جانے والے مولدین یا مراسیکون مسلمانوں کی مدد شروع کر دی ۔ اس نے ان ہزاروں بے یارو مدد گار مسلمانوں کو سمندر سے نکال کر الجزائر اور مراکش میں آباد ہونے میں مدد دی. حال ہی میں کی جانی والی ریسرچ کے مطابق آج بھی سپین کی کل آبادی کا سات سے دس فی صد حصہ ان مسلمانوں کی اولاد پر مشتمل ہے جنہیں زبردستی مذہب اور نام تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اور وہ عیسائی بن کر سپین میں آباد رہے ۔ ابن عسکر سولہویں صدی کا ایک مشہور مراکشی تاریخ نگار ہے اس نے ۱۵۷۵ء میں اپنی مشہور زمانہ کتاب “ دعوت النشیر “ لکھی جس میں وہ عروج رئیس کے بارے میں لکھتا ہے کہ
”عروج انتہائی دلیر بہادر اور زیرک شخص تھا ۔ اسے ترکش ، فارسی ، عربی، فرنچ ، اٹلین ، سپینش اور یونانی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ جو بحیرہ روم کے علاقوں میں بولی جاتی تھیں ۔ اس اکیلے ایک شخص نے شہنشاہ چارلس پنجم سے ٹکر لے رکھی تھی ۔ جو دنیا کے سب سے طاقتور بحری بیڑے کا مالک اور یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا ۔ وہ جب تک زندہ رہا اہل سپین کے لئے بھیانک خواب بن کر زندہ رہا۔ بابروسہ برادران نے ستر ہزار سے زائد مولدین کو سمندر برد ہونے سے بچایا اور انہیں مراکش اور الجزائر میں لا کر آباد کیا۔ اسی بناء پر عروج اس علاقے کے لوگوں کے لئے اتنا معتبر اور قابل عزت ہوگیا کہ لوگ عقیدت سے اسے بابا عروج کہنے لگے۔ اور یہ نام اتنا مقبول ہوا کہ اٹلی اور سپین کے لوگ بھی اسے اسی نام سے پکارنے لگے۔ یہ نام باباروسہ بنااور بعد میں باباروسہ بگڑ کر باربروسہ بن گیا ۔ ان چاروں بھائی کی داڑھیاں سرخ تھیں ۔ لہٰذا اٹلی اور یورپ میں ہر سرخ داڑھی والے کو باربروسہ کہا جانے لگا.“
عروج رئیس کو ملنے والا باربروسہ کا یہ خطاب عروج کی شہادت کے بعد خضر کو ورثے میں ملا۔ عروج رئیس نے تطوان Tetouan کے حکمران ابوالحسن المندری سے تعلقات قائم کر رکھے تھے جو خود بھی گریناڈا کا ایک مہاجر تھااور اس کی مدد سے اس نے ان مولدین کو مراکش میں آباد ہونے میں مدد دی ۔ باربروسہ برادران کو ان علاقوں میں بہت پزیرائی حاصل تھی ۔ لوگ خاص طور پر عروج کو پوجنے کی حد تک اس سے محبت کرتے تھے ۔ انہیں ان علاقوں سے نہ صرف افرادی قوت اور نئے ساتھی مہیا ہوتے بلکہ یہ بندرگاہیں ان کے لئے بوقت ضرورت چھپنے اور بحری جہازوں کی مرمت کے بھی کام آتیں ۔ یہاں آباد مولدین نے چونکہ عیسائیوں کے مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے، سہے اور بھگتے تھے۔ وہ جبراً جلاوطنی کے درد سے گذرے تھے۔ اس لئے ان کے دلوں میں سپین کے عیسائیوں کے خلاف نفرت فطرتی تھی وہ جوق در جوق باربروسہ بردار ن کے ساتھ شامل ہونے لگے جس سے نہ صرف ان کے جذبہ انتقام کو تسکین ملتی بلکہ روزگار بھی مہیا ہوتی ۔
۱۵۱۵ء میں ابوالحسن المندری کے انتقال کے بعد اس کی بیوی السیدہ الحرہ تطوان کی حاکم بنی تو اس نے عروج اور خضر کے ساتھ مل کر یورپی جہازوں کو لوٹنا شروع کر دیا اور تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی خاتون بحری قزاق بن کر ابھری ۔ اہل یورپ اسے بحیرہ روم کی قزاق ملکہ کے نام سے یاد کرتے تھے جبکہ مسلمانوں میں وہ سیدہ الحرہ کے نام سے مشہور تھی۔ ڈاکٹر فاطمہ مرنیسی بہت مشہور مراکشی دانشور اور ماہر عمرانیات ہیں انہوں نے اپنی کتاب “ اسلام کی بھولی بسری ملکائیں “ Forgotten Queens of Islam میں عالم اسلام کی ان پندرہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو پندرہ سو سالہ تاریخ میں سارےمعاشرتی اور مذہبی رویوں، روائتوں اور سخت بندشوں کو توڑکر نہ صرف برسر اقتدار آئیں بلکہ ان میں سے کئی خواتین نے لمبے عرصے تک بڑی کامیابی اور احسن انداز میں حکومت کی ۔ یہ ایک بہت دلچسپ اور شاندار کتاب ہے جس میں نورجہاں ، رضیہ سلطانہ ، ترکان خاتون ، حریم سلطان ، کوسم سلطان ، بے نظیر بھٹو اورعالم اسلام کی ان دیگرخواتین کا ذکر ہے جنہوں نے تاریخ میں اپنی جدوجہد اور کامرانیوں کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ اپنی اس کتاب میں وہ سیدہ الحرہ کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ” اس کا اصل نام عائشہ تھا اور وہ مراکش کے شہر شفشاون کے حکمران مولا علی الراشد کی بیٹی تھی ۔ وہ ۱۴۸۴ء کو گریناڈا میں پیدا ہوئی ۔ اور بہت اعلی تعلیم یافتہ تھی۔ جب ۱۴۹۲ء میں فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا نے غرناطہ پر قبضہ کر کے سپین میں مسلمانوں کا اقتدار ہمیشہ کے لئے ختم کردیا اور آخری اندلسی حکمران ابوعبداللّہ محمد کو جلاوطن کر دیا تو ابو عبداللّہ محمد کے ساتھ آنے والے اندلسی مسلمانوں میں السیدہ الحرہ کا خاندان بھی شامل تھا۔ ۱۵۰۲ ء میں اسکی شادی تطوان کے حاکم ابوالحسن المندری سے ہوئی ۔ بچپن کی جلاوطنی کی تلخ یادیں اس کے دل میں ہمیشہ تازہ رہیں اور اس نے جب اندلسی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ان کی جبری بے دخلی دیکھی تو اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور اپنے خاوند کے مرنے کے بعد جب وہ تطوان کی بلا شرکت غیرے مالک بنی تواس نے باربروسہ برادران کے ساتھ مل کر بحیرہ روم میں کاروائیاں شروع کردیں اور جلد ہی سارے بحیرہ روم میں ان کی اجارہ داری قائم ہوگئی ۔ “
سیدہ الحرہ نے عروج باربروسہ کے ساتھ معاہدہ کیا جس کی رو سے آبنائے جبرالڑ اور اس کے اردگرد کا علاقہ الحرہ اور اور اس سے نیچے کے بحیرہ روم پر عروج باربروسہ کا تسلط تسلیم کیا گیا تھا۔ اور ایک دوسرے کے علاقوں میں دخل اندازی نہ کرنے کا اور بوقت ضرورت ایک دوسرے کی ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ سیدہ الحرہ کے حصے میں جو علاقہ آیا وہ پرتگال کا علاقہ تھا۔ اس نے پر پرتگیز جہاز رانوں کا جینا دو بھر کردیا اور اس لئے الحرہ کے بارے میں زیادہ معلومات بھی پرتگیز اور سپینی تاریخ نگاروں کے ہاں ہی ملتی ہیں جن کے مطابق پرتگال میں اس کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی ۔ پرتگیزی عوام اور حکمرانوں کی شدید ترین خواہش تھی کہ وہ اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیکھیں۔ کچھ عرصے کے بعد خضر بھی اپنے دوسرے بھائی اسحاق کے ساتھ عروج کی مدد کے لئے آبنائے جبرالٹر کے علاقے میں منتقل ہوگیا ۔ اب تینوں بھائیوں کی زیادہ تر کاروائیاں آبنائے جبرالٹر کے علاقے تک محدود ہوگئیں اور ان کی توجہ کا مرکز اندلس کے بے یارو مدد گار مولدین بن گئے۔
عروج باربروسہ بہت بلند عزائم کا مالک تھا اس کی آنکھوں میں بڑے بڑے سپنے بسے تھے ۔ ۱۵۱۳ء میں باربروسہ برادران نے الجزائر کو فتح کرلیا اور چارلس پنجم کی طفیلی حکومت کو ختم کر کے اپنی حکومت قائم کر لی۔ اور عروج باربروسہ الجزائر کا حاکم بن گیا۔ الجزائر کے حکمران ہمو موسیٰ نے چارلس پنجم سے مدد طلب کی۔ چارلس پنجم نے الجزائر پر حملہ کیا لیکن باربروسہ برادران نے چارلس کا یہ حملہ پسپا کردیا ۔ اب انہیں احساس ہوا کہ وہ اکیلے ایک اتنی بڑی سلطنت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے ۔ انہیں ایک مضبوط حکومت کی پشت پناہی کی ضرورت ہے ۔ وہ ایک بار پہلے بھی بایزید دوئم کے دور میں سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے کام کر چکے تھے۔ جب بایزید دوئم کے بیٹے اور سلطان سکیم اوّل کے بھائی شہزادہ ترکت نے ۱۵۰۱ء میں عروج رئیس کو بیس بحری جہاز دے کر اس کی خدمات بحیرہ روم میں عثمانیوں کے لئے حاصل کی تھیں ۔ شہزادہ ترکت ان دنوں منیسہ کا گورنر تھا۔ لیکن جب ۱۵۱۲ء میں سلطان سلیم اوّل سلطان بنا تو اس نے بغاوت کے جرم میں اپنے بھائی شہزادہ ترکت کو قتل کروا دیا۔ عروج رئیس چونکہ شہزادہ ترکت کے بہت قریب تھا۔ اس لئے وہ سلطان سلیم اوّل کی ناراضگی کے ڈر سے عثمانیوں کی ملازمت چھوڑ کر الجزائر واپس لوٹ آیا ۔
اب اسے عثمانی سلطان کی ایک بار پھر یاد آئی ۔ عروج رئیس عثمانی خلیفہ سلیم اوّل کی خدمت میں حاضر ہوا اور الجزائر کا تحفہ اور اپنی خدمات عثمانی سلطنت کے لئے پیش کردیں ۔خلیفہ سلیم اوّل اس کے کردار اور شہرت کی وجہ سے اس کا مداح تھا۔ اس نے الجزائر کو عثمانی سلطنت کا صوبہ تسلیم کر لیا اور عروج باربروسہ کو بحیرہ روم کا عثمانی امیر البحر مقرر کر کے الجزائر کا گورنر بنا دیا۔ اور یوں باربروسہ برادران کو عثمانی پشت پناہی حاصل ہوگئی اور وہ عثمانی پرچم کے سائے میں اپنی کاروائیاں کرنے لگے۔ اور الجزائر باقاعدہ طور پر سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا ۔ انہوں نے الجزائر کے بعد مراکش اور تیونس کے کئی علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ رفتہ رفتہ عروج باربروسہ نے اتنی طاقت پکڑ لی کہ سپین فرانس اور اٹلی کی حکومتوں کے لئے درد سر بن گیا۔ ۱۵۱۸ء کے اوائل میں شہنشاہ چارلس پنجم خود ایک بہت بڑی فوج لے کر الجزائر پر اترا اور اس نے باربروسہ برادران کے دارلحکومت تلمسان کا محاصرہ کرلیا ۔ عروج رئیس اپنے دونوں بھائیوں اسحاق اور خضر کے ساتھ چھ مہینے تک سپین کی فوج کا مقابلہ کرتا رہا ۔ آخر کار مقامی بربروں کی غداری کے باعث جب تلمسان پر سپینی فوج کا قبضہ ہوگیا تو تینوں بھائی دشمن فوج کا محاصرہ توڑ کر دریاکے راستے فرار ہونے کے کی کوشش میں دشمن فوج کے نرغے میں آگئے۔ عروج اور اسحاق بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔ خضر کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے خلیفہ سلیم اوّل سے مدد طلب کی ۔ سلطان نے ینی چری فوج کے کئی دستے اور مضبوط بحری بیڑا اس کی مدد کے لئے روانہ کیا ۔ دسمبر ۱۵۱۸ء میں چند مہینوں کے بعد خضر نے دوبارہ الجزائر پر قبضہ کرلیا۔ خلیفہ سلیم اوّل نے خضر کو اس کے بھائی عروج کی جگہ الجزائر کا گورنر اور بحیرہ روم کا امیرالبحر مقرر کیا ۔ یوں خضر کو اپنے بڑے بھائی کا مشن اور نام ورثے میں ملا۔ اس کا بھائی عروج باربروسہ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔
خضر تاریخ میں خیرالدین باربروسہ کے نام سے مشہور ہوا ۔ خیرالدین اس کا لقب تھا جو سلطان سلیمان عالی شان نے اسے عطا کیا تھا۔ بڑے بھائی عروج کی تربیت نے اسے کندن بنا دیا تھا۔ وہ قابلیت ، بہادری اور معاملہ فہمی میں اپنے بھائی سے کئی ہاتھ آگے نکلا اور جہاز رانی اور بحری جنگ میں مہارت کو اس سطح پر لے گیا ۔ جہاں اس کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس نے آنے والوں دنوں میں بھائی کی تعمیر کردہ بنیادوں پر جس عظیم الشان بحری بیڑے کی تشکیل دی وہ بہت جلد ناقابل شکست بن گیا ۔ عروج کی شہادت کے بعد بھی خیر الدین نے اُس کی پالیسی کو جاری رکھا اور اسپین سے مظلوم مسلمانوں کو شمالی افریقہ لاتا رہا جس کی بدولت اسے اسپین کے مخالف مسلمانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو گئی۔ انہی دنوں کئی یہودی بھی اس کے ساتھ آکر اس کی جدوجہد میں شامل ہوگئے جن کے خاندانوں کو مسلمانوں کی طرح سپین سے نکالا گیا تھا ۔ ان میں سرفہرست سنان پاشا تھا جو بعد میں اس کا نائب بنا اور ہر معرکے اور جنگ میں اس کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔
خیرالدین باربروسہ نے ۱۵۱۹ء میں الجز ائر پر قبضے کی کوشش کرنے والی اسپین اور اطالیہ کی مشترکہ فوج کو شکست دی۔ اسی سال اس نے سپین کے کئی ساحلی جزیروں اور ہسپانوی قلعوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اب وہ بحیرہ روم کا بلا شرکت غیرے مالک بن چکا تھا ۔ اسے سمندروں کا شہنشاہ کہا جانے لگا ۔ اس کی اجازت کے بغیر بحیرہ روم میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔ اور نہ ہی کوئی جہاز اس کی اجازت کے بغیر محصول ادا کئے بناء اس میں سے گذر سکتا تھا۔ ۱۵۳۰ء میں بارباروسہ نے ایک بار پھر یورپ کے مشترکہ بحری بیڑے کو شکست دی ۔ ۱۵۳۲ء میں سلطان سلیمان عالیشان نے عثمانی بحری بیڑے کی تشکیل کے لیے بارباروسہ کو استنبول طلب کیا۔جب وہ ٹوپ کاپی محل میں سلطان سے ملاقات کے لئے پہنچا تو سارا قسطنطنیہ اس کے استقبال کے لئے محل سے باہر موجود تھا۔ لوگ اسکے نام کے نعرے لگا کر اس سے محبت کا اظہار کررہے تھے سلطان نے اسے بہت عزت اور احترام دیا۔ اس نے بارباروسہ کو تمام عثمانی بحری افواج کا قپودان پاشا یا امیر البحر پاشا (Grand Admiral )اور شمالی افریقہ کا بیلربے (سپہ سالارِ اعلیٰ) مقرر کیا اور عثمانی بحری بیڑے کی کمان اس کے سپرد کردی۔
بارباروسہ نے سب سے پہلے جنوبی اٹلی ، وینس ، سپین اور فرانس کے ساحلوں پر حملے کیے ان پر موجود شہروں پر قبضہ کرلیا۔ ۱۵۳۴ء میں تیونس کو بھی فتح کرلیا ۔ اگلے سال مراکش بھی اس کے آگے ہار گیا۔ ۱۵۳۷ء میں لطفی پاشا اور بارباروسا نے جزائر آیونین اور جنوبی اٹلی کے خلاف ایک زبردست عثمانی فوج کی قیادت کی اور سلطنت وینس سے کورفو چھین لیا ۔ جس پر فروری ۱۵۳۸ء میں پوپ پال سوم نے عثمانیوں اور باربروسہ کے خلاف اتحاد تشکیل دیا اور صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس فوج میں پاپائے روم، اسپین، رومی سلطنت، وینس ، انگلینڈ ، جرمنی ، اٹلی اور مالٹا کی افواج شامل تھیں ۔ ستمبر ۱۵۳۸ء میں بارباروسہ نے جنگ پریویزا میں اس مشترکہ مسیحی فوج کو زبردست شکست دی ۔ پری ویزا یونان کا ایک شہر ہے جو بحیرہ آیونین میں واقع ہے ۔ صلیبی بحری بیڑے کی قیادت اینڈریا ڈوریا کے ہاتھوں میں تھی۔ اس جنگ میں صلیبی بحری بیڑے کو اتنی بری شکست ہوئی کہ ان کی بحری طاقت اور حوصلے ختم ہو کر رہ گئے۔ اس فتح کی بدولت بحیرہ روم میں اگلی نصف صدی تک ترکوں کو مکمل برتری حاصل ہوگئی ۔ یہ برتری ۱۵۷۱ء میں جنگ لیپانٹو تک قائم رہی ۔ جنگ پری ویزا کی فیصلہ کن فتح کے بعد بحیرہ روم میں مسیحیوں کی بحری قوت کی کمر ٹوٹ گئی تھی ۔ اگلے چند سالوں میں باربروسہ نے بحیرہ ایجئین اور بحیرہ روم سے رہوڈوس ، مالٹا اورسسلی سمیت مسیحیوں کے باقی ماندہ ٹھکانوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔
میدان جنگ میں بار بار شکست کھانے کے بعد چارلس نے باربروسہ کو توڑنے اور ورغلانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ فرانکوس کیپریولی Francos Caprioli نے اپنی کتاب ” بھیڑ اور شیر “ Sheep and Lion میں اس کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ
“Between the 1530s and the 1540s, the Emperor Charles V tried to win over the Ottoman Grand Admiral Hayreddin Barbarossa, leading him to defect from the Ottoman cause and turn him into a faithful Habsburg warlord
(lord of North Africa ).
In exchange for this, the former would have given the latter the opportunity to rule over the Central Maghreb as a new Habsburg ally”
” ۱۵۳۰ ء اور ۱۵۴۰ ء کے درمیان شہنشاہ چارلس پنجم نے عثمانی امیر البحر خیر الدین باربروسہ کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح وہ عثمانیوں کو چھوڑ کر اس کا ہوبسبرگ جنگی اتحادی بن جائے جس کے بدلے میں اس نے اسے مغربی افریقہ کے علاقوں پر حکمرانی کی پیش کش کی ۔ “
ایک اور مصنف کے مطابق شہنشاہ چارلس نے اسے مغربی افریقہ کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس کے وزن کے برابر سونا دینے کا بھی وعدہ کی ۔ لیکن خضر نے بکنے سے انکار کر دیا ۔ اکتوبر ۱۵۴۱ء میں چارلس پنجم نے الجزائر کا محاصرہ کرکے مغربی بحیرہ روم میں ہسپانوی اور مسیحی بحری بیڑے کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنے کی آخری بھر پور کوشش کی اس نے اپنی ساری توانائیاں اس حملے کے لئے صرف کر دی تھیں ۔ اور اپنی ساری طاقت اس میں جھونک دی ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا ۔ ایک زبردست سمندری طوفان کے باعث اسے ساحل پراترنے میں شدید مشکلات پیش آئیں ۔ زمین پر لڑی گئی جنگ میں اسے شکست ہوئی ۔ جس کے بعد چارلس نے ناامید ہوکر باربروسہ کو ناقابل شکست تسلیم کرلیا۔ ہر طرف سے ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد چارلس نے باربروسہ سے صلح کے معاہدے کرنے شروع کر دئیے ۔ سب سے پہلے فرانس اور پھر وینس نے سلطان سلیمان عالیشان سے صلح کے معاہدے پر دستخط کئے ۔ جس کے بعد ۱۵۴۴ء میں شہنشاہ چارلس پنجم نے بھی سلطان عالیشان سے صلع کا معاہدہ کر لیا۔
اب عثمانیوں کے سپر پاور بننے کی راہ میں جو آخری رکاوٹ ان کی کمزور بحری طاقت کی وجہ سے حائل تھی باربروسہ کی بدولت وہ بھی دور ہوگئی ۔ اور سلطنت عثمانیہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھری ۔ اب دولت عثمانیہ تین براعظموں اور تین سمندروں پر پھیل گئی تھی ۔ اور یوں عثمان غازی کا وہ خوب پورا ہوا جو اس نے ۱۲۹۸ء میں ترکی کے ایک چھوٹے سے قصبے سوغوت میں اپنے باپ کی چھوڑی چھوٹی سی جاگیر پر آزاد سلطنت قائم کرنے سے چند روز پہلے دیکھا تھا ۔ شہنشاہ چارلس سے معاہدے کے بعد باربروسہ استنبول پہنچ گیا ۔ اور ۱۵۴۴ء کو خرابی صحت کی بناء پر قسطنطنیہ میں اپنی خدمات سے سبکدوش ہوگیا۔ الجزائر میں اس کے صاحبزادے حسن پاشا کو جانشیں مقرر کیا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد باربروسہ نے اپنی سوانح حیات ”غزوات خیر الدین پاشا“ کے نام سے تحریر کی جو ہاتھ سے لکھی گئی 5 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس سوانح حیات کی تمام جلدیں آج کل توپ کاپی محل اور جامعہ استنبول کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ خیر الدین پاشا باربروسہ کا انتقال ۱۵۴۶ء کو قسطنطنیہ میں آبنائے باسفورس کے کنارے واقع اپنے محل میں ہوا۔
میں استنبول کے باربروسہ پارک میں نیوی کے عجائب گھر کے باہر اس کے مزار کی کھلی کھڑکی کی سلاخوں کو دونوں ہاتھوں سے تھامے کھڑا سوچ رہا تھا کہ نصف صدی تک اہل یورپ کے لئے خوف و دہشت کی علامت بن کر زندہ رہنے والے باربروسہ کے خلاف نفرت آج بھی ان کے دلوں میں اسی طرح جوان ہے ۔جب وہ زندہ تھا تو وہ روز اس کی موت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ آج اسے مرے ہوئے بھی صدیاں بیت گئی ہیں ۔ لیکن ان کے دلوں میں باربروسہ کے خلاف نفرت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے وہ آج بھی ان کے دلوں میں اسی طرح تازہ ہے ۔ اب وہ اس کے خلاف فلمیں اور ڈرا مے بناتے ہیں کتابیں لکھتے ہیں جن میں اسے ، عیار موقع پرست ،وعدہ خلاف ، ظالم اور سنگدل قزاق اور ڈاکو کے روپ میں دکھاتے ہیں ۔ اور اس کی تضحیک اور تذلیل کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اور دوسری طرف ایک چھوٹے سے جزیرے میں ایک سپاہی کے گھر پیدا ہونے والا خضر آج خیرالدین بن کر ترکوں کا سب سے بڑا ہیرو ہے ۔ اس کی کرشمہ ساز اورتاریخ ساز شخصیت کی داستانیں ، اس کی بہادری اور دلیری کے قصے آج ترکی کے سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں ۔ اس پر فلمیں اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں ۔ کتابیں لکھی جاتی ہیں ۔ اورترک بحریہ کے متعدد جہازوں اور آبدوزوں کے نام اسی پررکھے گئے ہیں۔ اسے مرے آٹھ سو سال ہونے کو آئے لیکن آج بھی ہمیشہ کی طرح روز اس کی قبر پر ساری رات شمع جلتی ہے جس کی اس نے وصیت کی تھی ۔ آج بھی ترک بحریہ کا کوئی جہاز جب بھی آبنائے باسفورس سے گذرتا ہے تو اس کے مقبرے کی طرف سلامی پیش کرتے ہوئے گذرتا ہے۔ ترکوں کے ہاں اسے جو عزت ومنزلت حاصل ہے وہ عثمانی سلاطین کو بھی نصیب نہیں ۔ بلاشبہ اتنا متنازع اور ایسا کرشمہ ساز شخص ترکی میں کوئی اور پیدا نہیں ہوا۔
تبصرہ لکھیے