میرے ایک دوست کانام طلحہ ہے،میں نے اُن کولکھا:طلحہ ان دس خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جن کوایک ہی مجلس میں نبی اکرم ﷺ نے جنتی ہونے کی خوش خبری سنائی تھی ،انھیں عشرہ مبشرہ کہاجاتاہے۔آپ کانام بہت مبارک ہے۔اللہ صحابہ کرام ؓ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین!
ابوبکر،عمر،عثمان،علی،طلحہ ،زبیر،سعد بن ابی وقاص،سعید بن زید،عبدالرحمٰن بن عوف ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنھم اجمعین !
اس طرح مبارک نام والوں کو بتایاکیجیے کہ آپ کانام کتنا بابرکت ہے؟کس قدر عظیم ہستی کے نام پرہے؟نام کابھی سیرت پراثر ہوتاہے۔نبی اکرم ﷺ نے کئی مردوں اور خواتین کے نام تبدیل کیے ۔نام رکھتے ہوئے اکثر لوگ اس بات کودیکھتے ہیں کہ یہ نام یونیک(منفرد)ہو،حالانکہ اسلام میں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ ،عبدالرحمٰن ،محمد نام کی تعریف فرمائی ہے،اسم محمد نام رکھنے والوں کوبشارتیں دی ہیں ،اسلامی تاریخ میں ہمیں ایک جیسے نام ایک ہی خاندان میں کئی ملتے ہیں۔ام جزریؒ کانام ونسب ملاحظہ فرمائیں: محمد بن محمد بن محمد(اُن کا،ان کے والد کا اور اُن کے دادا کاایک ہی نام ہے اوروہ ہے:محمد)
خلاصہ یہ کہ اپنی اولاد اور متعلقین کے اچھے ،بابرکت نام رکھیں ،چاہے یونیک نہ بھی ہوں۔دوسری بات یہ کہ کسی کے دل میں جگہ بنانا چاہتے ہیں تواسے اُس کے پورے اورپسندیدہ نام سے پُکاریں۔کلّو،مانی،ٹلّو،ببلو،نک کٹا،مُچھڑ،کالو،کالیا۔۔۔ اورجانے کیسے کیسے نام ہمارے معاشرے میں رائج ہیں،اِن سے بچیں۔ہاں!اگرکوئی اپنی عرفیت،کنیت یاتخلص ہی سے مشہورہےتوپھراُسے اُسی سے پکاریں۔
عرف رکھنے اورنام بگاڑنے میں فرق ہے۔نام بگاڑنااچھا کام نہیں ہے،قرآن کریم میں اس کی ممانعت آئی ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(سورۃالحجرات)
ترجمہ:اے ایمان والو !مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو، نہ اس کا مذاق اڑائو، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو۔( ترمذی، الحدیث: ۲۰۰۲)
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا’’ میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے۔( ابو داؤد)
حضرت حسنؓ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالتﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ،پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا: آؤ یہاں آؤ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا،اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکارپڑے گی تو وہ ناامیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا)(موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر... الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷)
کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ،اس کا مذاق اڑانا،اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں کے سامنے دَم نہیں مار سکتے۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں سے توبہ کرکے باز نہ آئے تو یقینا وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔(جہنم کے خطرات)
یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسے اَذِیَّت پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں ،جائز ہے، بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ، اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مُسْتحبہ ہے۔( مراٰۃ المناجیح)
آخری بات،کسی سے مخاطب ہونے سے پہلے اُس کانام پوچھ لیاکرو،اپنے حافظے کی بنیادپربعض لوگ اپنی دانست میں مخاطب کاصحیح نام لے رہے ہوتے ہیں مگروہ ہوتا غلط ہے،جیسے ایک صاحب نے ایک ہی مجلس میں عطاءاللہ صاحب کوہربارعطاء الرحمٰن ،محمدجہان کوہربار شاہ جہان کہہ کر مخاطب کیاتوسامعین ،جوعطاءاللہ اورمحمدجہان صاحبان کوجانتے تھے،اِدھراُدھرعطاء الرحمٰن اورشاہ جہان کوتلاش کرنے لگ گئے۔بعض لوگ ناموں میں اجتہاد کرتے ہیں،یادرکھیے!ناموں میں اجتہاد نہیں چلتا،چاہے وہ نام آپ کی نگاہ میں گرامر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،جیسے والدین نے نام رکھاہوتاہے شاہ جہان اوربعض پڑھے لکھے لوگ نون غنہ کے ساتھ شاہ جہاں کہتے ہیں،یہی حشرہمارے نام کے ساتھ بھی کیاجاتاہے،ہم بتابتا کے تھک چکے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمارا نام نون غنہ کے ساتھ نہیں نون کے ساتھ رکھا تھا،آپ کوتینتالیس سال بعدکس نے یہ حق دیاہے کہ ہمارے نام کو بدلیں یااُس میں اجتہاد کریں۔
روزنامہ جنگ خواتین کے صفحے میں ایک سلسلہ ہواکرتا تھا:تین مرد تین کہانیاں،اس میں ہم نے بھی سکول ایج میں لکھا،جب بھی ہماری کہانی شائع ہوتی نام:محمدجہاں لکھاہوتا،ایک دن ہماری برداشت جواب دے گئی اور ہم نے صفحے کی انچارج محترمہ سلمیٰ رضا کوخط میں لکھا:کیاآپ کومیں سلمیٰ رضا(ضادکے ساتھ)کے بجائے سلمیٰ رصا(صاد کے ساتھ)لکھوں توآپ برداشت کریں گی۔۔۔۔وہ دن اور آج کادن،اُنھوں نے ہماری کوئی کہانی ہی نہیں چھاپی۔
اس فاسٹ میڈیاکےدورمیں اس کاایک اورنقصان بھی سامنے آیاہے ،وہ یہ کہ کوئی صاحب ہم سے کسی موضوع پرمضمون مانگتے ہیں ،ہم فارغ نہیں ہوتے توکہہ دیتے ہیں :فلاں ویب سائٹ پرموجودہے،ہمارے نام سے گوگل کرلیں۔اب وہ صاحب تلاش کرکرکے تھک جاتے ہیں،مگرمضمون مل کے نہیں دیتا،کیونکہ ایڈیٹرصاحب نے مضمون شائع کرتے ہوئے اپنے اجتہاد سے نام میں نون کونون غنہ سے بدلاہوتاہے اور یہ صاحب نون کے ساتھ تلاش کرتے ہیں۔جب اُن کی ہمت جواب دے جاتی ہے توہم سے رابطہ کرتے ہیں کہ گوگل کیا مگرمل کے نہیں دیا،ہم فٹ سے لکھتے ہیں:جہاں یعقوب اورمضمون سامنے آجاتاہے۔یہی معاملہ انگلش کی اسپیلنگ میں بھی پیش آتاہے ہم Jahanلکھتے ہیں ،بعض ویب سائٹس نے اپنے اجتہد سے Jehan لکھاہواہے۔آپ نے ملاحظہ فرمایا:ایک نقطہ اور اے کی جگہ ای سے معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا؎
ایک ہی نقطے نے محرم سے مجرم کردیا
ہم دُعا لکھتے رہے اور وہ دَغاپڑھتے رہے
تبصرہ لکھیے