ہوم << الحمداللہ رب العالمین- معوذ اسد صدیقی

الحمداللہ رب العالمین- معوذ اسد صدیقی

میں اپنے رب کا بے حد شکر گزار ہوں۔ زندگی کے اُس مقام پر پہنچ چکا ہوں جہاں چھوٹی خوشیاں دل کو بہت بڑی لگتی ہیں، اور چھوٹے غم روح کو گہرا دکھ دے جاتے ہیں۔

یہ تحریر، دراصل میرے دل کا بوجھ ہے، اور اس کے ذریعے میں اپنے تمام عزیز دوستوں، خاص طور پر فیس بک پر موجود احباب سے معذرت خواہ ہوں۔ اگر میری کسی بات، کسی لفظ یا کسی جملے نے کبھی کسی کے دل کو ٹھیس پہنچائی ہو تو میں دل سے معافی چاہتا ہوں۔ مگر اگر کسی نے غور کیا ہو تو میں نے آج تک کسی شخصیت کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا۔ سیاسی جماعتوں پر تنقید ضرور کی، لیکن ہر جماعت کے کارکن آج بھی میرے لیے بھائیوں جیسے ہیں۔

گزشتہ دو ہفتے میری زندگی کے ان دنوں میں شامل رہے جو شاید سب سے زیادہ کربناک، سب سے زیادہ اذیت ناک تھے۔ اس عمر میں انسان خود کو شاید کچھ نہ سمجھے، لیکن جب بات بچوں، وطن اور دین کی ہو، تو ہر احساس کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

یقیناً قومیں محنت سے ترقی کرتی ہیں، اور انڈیا نے گزشتہ دو دہائیوں میں یہ ثابت بھی کیا ہے۔ لیکن افسوس، جس تیزی سے انڈیا نے ترقی کی، اسی شدت سے اس کے رویّے میں تکبر، غرور اور احساسِ برتری بھی در آیا—خاص طور پر پاکستان کے خلاف۔

پاکستانیوں نے کبھی انڈیا سے نفرت کو دل میں جگہ نہیں دی۔ ہم نے ہمیشہ کھیل، فن، ثقافت، حتیٰ کہ دوستی کے دروازے بھی کھلے رکھے۔ لیکن جواب میں ہمیں صرف تحقیر، تذلیل اور فاصلے ملے۔ ہر میدان میں انڈیا نے یہ کوشش کی کہ پاکستان کو نیچا دکھایا جائے—چاہے وہ کرکٹ ہو، میڈیا ہو، یا عالمی فورمز۔

عام بھارتی آج بھی بااخلاق اور مہذب نظر آتے ہیں، لیکن ریاستی سطح پر جو زہر اگلا گیا، اس نے فاصلے پیدا کیے۔ انڈیا کے رویے نے ہماری محرومی کو نفرت میں بدلنا چاہا، لیکن ہم نے صبر کیا، دعا کی، اور حوصلے سے وقت کا انتظار کیا۔

اور پھر… وہ دو گھنٹے آئے، جنہوں نے بیس سال کی محرومی کا قرض چکا دیا۔

یہ صرف ایک جنگ نہیں
یہ عزت کی بحالی تھی۔
یہ ایک قوم کے اعتماد کی واپسی تھی۔

ہمیں تسلیم ہے کہ مقابلہ سائنس، جمہوریت، معیشت اور اخلاق میں ہونا چاہیے، لیکن جب آپ کو دیوار سے لگایا جائے، تو جواب صرف جذبے سے آتا ہے۔

الحمدللہ، ان دو گھنٹوں میں ہم نے صرف یہ جنگ نہیں جیتا—ہم نے وقار، غیرت اور حوصلے کی فتح حاصل کی۔

شرورایک لمحہ وہ بھی آیا جب دل چاہا کہ یا اللہ، اگر یہ دن دیکھنے تھے تو مجھے زندہ نہ رکھتا۔ قوموں کی غیرت، عزت، حیا—یہی سب کچھ ہوتی ہے۔ شاید اب ویسی وطن پرستی باقی نہیں جیسی جوانی میں تھی، لیکن گھر تو اپنا ہی ہوتا ہے۔ اور جب گھر کو جلتا دیکھو، تو درد دل میں اتر ہی آتا ہے۔

میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس موقع پر کسی جماعت، کسی گروہ کے خلاف کچھ نہیں کہوں گا۔ لیکن دل اس وقت چور چور ہو گیا جب اپنے ہی چند پاکستانی دوستوں کی باتیں سنی۔ ایسی تکلیف دہ، ایسی پست سوچ کے جملے کہ روح کانپ گئی۔ اس وقت جب قوم کو اتحاد کی ضرورت تھی، یہ لوگ مایوسی، تذلیل اور شرمندگی بانٹ رہے تھے۔ کھلے عام بھارت کی فتح کی خواہش، بھارت کی فوج کی حمایت میں باتیں، جیسے کوئی دشمن کی فتح کا جشن منانے کو تیار بیٹھا ہو۔

سوچ رہا تھا، یا اللہ! کیا سیاسی مخالفت انسان کو اتنا اندھا کر دیتی ہے؟ مجھے 1965 کی جنگ یاد ہے—ایوب خان سے شکایتیں تھیں، مگر قوم دشمن کے خلاف ایک صف میں کھڑی تھی۔
مجھے 1971 کا دُکھ بھی یاد ہے—جب سب کچھ لٹ رہا تھا، صرف پاکستان بچانے کا جذبہ باقی تھا۔کچ لوگ اس کی محبت میں سب کچھ لٹا بیٹھے
مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب مشرف جیسا آمر بھی کشمیر پر بولا تو تمام سیاسی جماعتیں اختلافات بھلا کر اس کے ساتھ کھڑی ہو گئیں۔
2019 میں، عمران خان کے ساتھ بھی سب جماعتیں ایک آواز بن گئیں۔

تو پھر آج یہ نفرت، یہ تقسیم کیوں؟
کب اتنا گر گئے کہ اپنے ہی وطن کو کچلنے لگے؟
دل چاہتا ہے ان کے دروازے پر جا کر جھنجھوڑوں، سمجھاؤں کہ “یہ تمہارا ملک ہے، اسے برباد مت کرو!”

لیکن افسوس، غصہ انسان سے وہ کچھ کروا دیتا ہے جو ہوش میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا—
اور تاریخ گواہ ہے، غصے میں انسان اپنا ہی گھر جلا بیٹھتا ہے۔
ان کو جانتا ہوں، ان کے الفاظ آج بھی میرے دل کو زخمی کردیا ۔دشمن کے گولوں سے زیادہ ان کے روہیے ان کے آلفاظ توپ کا گولہ بن کر دل و دماغ میں پھٹ رہے تھے صرف یہی دعا کرتا رہا: “یا اللہ، ایسا وقت کبھی دوبارہ نہ آئے، ایسا زوال ہمیں دوبارہ نہ دیکھنا پڑے۔” اور دل میں ایک ہی خواہش تھی: کاش کوئی معجزہ ہو جائے۔ کاش اللہ ہمیں زندہ رہتے وہ لمحہ دکھا دے جس میں ہم سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ ہم قوم ہیں، ہم غیرت مند ہیں، ہم زندہ ہیں۔

انڈیا کے ابتدائی حملے اور پاکستانی فوج کی خاموشی نے ابتدا میں ایک گہری مایوسی کو جنم دیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے انڈیا کے غرور کے سامنے ہم ایک نہ ختم ہونے والی ذلت کی کھائی میں گر چکے ہوں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اگر انڈیا میں کسی کو ایک تھپڑ بھی پڑتا، تو جواب پاکستان کو دیا جاتا۔

لیکن ان سب سے بڑھ کر جو چیز مجروح ہو رہی تھی، وہ پاکستان کی عزت تھی—
ایک قوم کی غیرت، ایک پرچم کی حرمت، اور ایک ریاست کی پھر اللہ نے دکھایا۔ ایک ایسی گھڑی آئی جب لگا کہ ابابیلوں کی نصرت ہم پر نازل ہوئی۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ فتح وقتی ہے، اگر ہم نے خود کو نہ بدلا، تو یہ نعمت بھی چھن سکتی ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں عاجزی اختیار کرنی ہے، تکبر سے بچنا ہے۔

جو لوگ کل تک دشمن کی بولی بول رہے تھے، آج وہی لوٹ کر آئے ہیں، پھر سے پاکستانی پرچم اٹھا رہے ہیں۔ اور یہ خوشی کی بات ہے۔ میں چاہتا تو ایک ایک شخص کا نام لے کر اس کی پرانی باتیں سامنے رکھتا، مگر وہ سب ہمارے بھائی ہیں، ہمارے اپنے ہیں۔ کچھ واپس آ چکے، کچھ اب بھی ضد پر قائم ہیں، مگر ہمیں ان کے لیے بھی دعا کرنی ہے۔

پاکستانی سیاست ایک غلیظ کھیل بن چکا ہے، جس میں شاید ہی کوئی دامن بچا ہو۔ جس نے بھی اقتدار کا مزا چکھا، اس کھیل کا حصہ بنا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس سلسلے کو روکیں، اس موقع کو اللہ کی نعمت سمجھ کر سنواریں۔

میری دعا ہے کہ اللہ اس کامیابی کو قائم رکھے، ہمیں عاجزی عطا فرمائے، اور ہمارے غرور، ہمارے تکبر کو ہماری بربادی کا سبب نہ بننے دے۔

Comments

Avatar photo

معوذ اسد صدیقی

معوذ اسد صدیقی 25 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ ہم نیوز امریکہ کے بیوروچیف ہیں۔ ان کا شمار امریکہ میں پاکستانی صحافت کے چند معروف صحافیوں میں ہوتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد مختلف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ ان کا تجزیہ ہمیشہ غیرجانبداری کا رنگ لیے ہوتا ہے۔ امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی میں ان کی پہچان خدمتِ خلق ہے۔

Click here to post a comment