ہوم << دینی مدارس میں اخلاقی تربیت کا دائرہ - سیدابداعلی شاہ

دینی مدارس میں اخلاقی تربیت کا دائرہ - سیدابداعلی شاہ

دینی مدارس کے تعلیمی نظم میں طلبہ کی تربیت ایک بنیادی عنصر ہے! کتاب بینی کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اگر تربیتی نطم نہ ہو تو طلبہ کی عملی زندگی میں کمی رہ جاتی ہے.

تربیتی بیانات میں طلبہ کو علم کے عملی تقاضوں سے روشناس کرایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ طالب علم اور عالم دین کی کیا کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں. ہمارے اکابر علماء نے کیسے علم دین حاصل کرنے میں مشقتیں برداشت کی تھی اور وہ اپنے علم اور عمل میں کتنے اعلی درجہ پر فائز تھے؟

تربیت کے وجہ سے طلباء میں علم دین حاصل کرنے کا مزید شوق و رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ ایک نئے جذبے اور مزید محنت کے ساتھ علم دین حاصل کرنے میں مشغول ہوجاتے ہیں.

. مدرسہ میں اساتذہ کرام طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طلبہ خود کو چھ باتوں کا پابند بنائیں تو ان کا علم علم نافع ہوگا اور کبھی ضائع نہیں ہونگے.
١. گناہوں سے اجتناب کریں.
٢.اعمال کی کوشش کریں.
٣. محنت کریں.
٤. خدمت کو اپنا شعار بنائیں.
٥. ادب کو لازم پکڑیں.
٦. وقت کی قدر کریں۔

دینی مدارس میں دو شعبوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے "شعبہٴ_تعلیم"اور شعبہٴ_تربیت، تعلیم کی مثال جسم کی سی ہے: جبکہ تربیت روح کی مانند ہے، روح کی اہمیت جسم سے زیادہ ہے، اس کے بغیر جسم مردہ اور بے معنی ہے، اسی طرح تربیت کے بغیر تعلیم ادھوری اور غیرمفید رہتی ہے، تعلیم پھول ہے تو تربیت خوشبو، تعلیم الفاظ ہیں تو تربیت معانی، اور جب یہ دونوں انمول جوہر انسانی رگ وریشہ میں سرایت کرجاتے ہیں تواِسی آن انسانیت اورانسان کی نافعیت کی تکمیل ہوتی ہے. الحمدللہ یہ ہے مدارس کی تربیت

مدارس کے بچے علم کے روشن چراغ ہیں جو معاشرے میں علم، تقوی ، پرہیز گار ی کی روشنی پھیلانے کے لئے وقف ہیں۔ یہ بچے صبح سویرے اُٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت سے دن کا آغاز کرتے ہیں اور اس کے بعد دینی و دنیاوی علوم حاصل کرتے ہیں۔ مدارس میں انہیں نہ صرف علمِ دین سکھایا جاتا ہے بلکہ ان کی تربیت بھی کی جاتی ہے تاکہ وہ معاشرے کے بہتر فرد بن سکیں۔

استادمحترم: آپ نے مدارس کے بچوں کوہمارے معاشرے کا وہ گمنام ہیروبنایا ہیے جو علم کے حصول کی راہ میں ہر مشکل کا سامنا کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ یہ بچے ہماری قوم کا روشن مستقبل ہیں۔ واہ مدارس واہ تیری تربیت کو سلام!

جس معذور شخص کو ریاست بوجھ سمجھتی ہے دینی مدارس اس کو اپنے سینے سے لگاکر ایک باصلاحیت عالم کے ساتھ ساتھ وہ معاشرے کا ایک عظیم تربیت یافتہ انسان بھی بناتے ہیں ۔دینی مدارس کا ماحول ان لوگوں کو نہ صرف احساس کمتری سے نکالتاہے بلکہ اس کو یہ احساس بھی نہیں دیتا کے تم معذور ہو بلکہ مزیدحوصلہ افزائ کرتاہےکہ علم حاصل کرو اور فارغ ہو کر انسانیت سازی کی نبوی محنت میں نبی کے وارث بنو